انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنت کے دروازوں کی چوڑائی سات لاکھ آدمی بیک وقت داخل ہوسکیں گے: حدیث:حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیَدْخلن الجَنَّۃَ من اتی سبعون الفاً، أَوْسبعمائۃ الف...... شک فی احدی العددین مُتَمَاسِكُیِنَ آخِذٌ بَعْضُهُمْ بید بعض، لَايَدْخُلُ أَوَّلُهُمْ حَتَّى يَدْخُلَ آخِرُهُمْ وُجُوهُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ۔ (ابوعوانہ:۱/۱۴۱۔ مسلم، الیمان:۳۷۳۔ بدورسافرہ:۱۷۶۴) ترجمہ:میری امت میں سے سترہ ہزار یاسات لاکھ ان دونوں عددوں میں سے ایک میں راوی کوشک ہے، ایک دوسرے کوتھام تھام کرجنت میں داخل ہوں گے انہو ں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ رکھا ہوگا، ان میں کا پہلا شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک کہ ان میں کا آخری شخص داخل نہ ہوگا، ان کے چہرے چودھویں کے چاند جیسے ہوں گے۔ فائدہ:اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سترہزار یاسات لاکھ جنتی ایک ساتھ جنت کے دروازہ سے داخل ہوں گے اسی سے جنت کے دروازہ کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دروازہ سے بیک وقت تقریباً ساتھ لاکھ آدمیوں کے گذرنے کی وسعت ہے۔ ہردروازے کے دوپٹوں کے درمیان چالیس سال چلنے کی مسافت: حدیث:حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں: للجنۃ ثمانیۃ ابواب، کل مصرا عین من ابوابھا مسیرۃ اربعین سنۃ۔ (زوائد زہدا بن المبارک للمروزی:۱/۵۳۵۔ بدورسافرہ:۱۷۶۵۔ مجمع الزوائد:۱۰/۱۹۸۔ کنزالعمال:۱۰۱۹۶) ترجمہ:جنت کے آٹھ دروازے ہیں اس کے ہردروازے کے دوپٹوں کے درمیان چالیس سال (تک سفر کرنے) کا فاصلہ ہے۔ حدیث:حضرت معاویہ بن حیدہؒ سے روایت ہے کہ جناب سیددوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وَمَابَيْنَ مِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ مَسِيرَةُ أَرْبَعِينَ عَامًا وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَيْهِ يَوْمٌ وَإِنَّهُ لَكَظِيظٌ۔ (مسنداحمدبن حنبل، حديث بهز بن حكيم عن أبيه عن جده رضي الله تعالى عنه،حدیث نمبر:۲۰۰۳۷، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:جنت کے (دروازوں کے) پٹوں میں سے دوپٹوں کے درمیان چالیس سال (چلنے) کا فاصلہ ہے، اس پرایک دن ایسا بھی آنے والا ہے کہ اس پرخوب رش پڑے گا۔ دودروازوں کا درمیانی فاصلہ: حدیث:حضرت لقیط بن عامرؓ وفد کی شکل میں جناب رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ! جنت اور جہنم کیا ہے؟ آپﷺنے ارشاد فرمایا: لَعَمْرُ إِلَهِكَ، إِنَّ لِلنَّارِ لَسَبْعَةَ أَبْوَابٍ، مَامِنْهُنَّ بَابَانِ إِلايَسِيرُ الرَّاكِبُ بَيْنَهُمَا سَبْعِينَ عَامًا، وَإِنَّ لِلْجَنَّةِ لَثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ، مَامِنْهُمَا بَابَانِ إِلايَسِيرُ الرَّاكِبُ بَيْنَهُمَا سَبْعِينَ عَامًا۔ (مسنداحمدبن حنبل، حديث أبي رزين العقيلي لقيط بن عامر بن المنتفق رضي الله تعالى عنه ،حدیث نمبر:۱۶۲۵۱، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:تیرے معبود کی قسم! دوزخ کے سات دروازے ہیں ان میں سے ہردودروازوں کے درمیان سوار آدمی سترسال تک چل سکتا ہے اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ہردودروازوں کے درمیان سوار آدمی سترسال تک چل سکتا ہے۔ فائدہ:یاد رہے کہ یہ ایک دروازہ کے درمیانی دوپٹوں کا فاصلہ نہیں؛ بلکہ اوپرنیچے کے دودروازوں کے درمیان کا فاصلہ بتانا مقصود ہے، مذکورہ بالا عنوان سے بھی یہی بات سمجھیں۔ جنت کے دروازے اوپر نیچے کو ہیں: جس طرح سے جنت کے درجات ایک دوسرے کے اوپر ہیں ان کے دروازے بھی اسی طرح سے ہیں،چنانچہ اوپر کی جنت کا دروازہ بھی نچلی جنت سے اوپر ہے اور جیسے ہی کوئی جنت اونچی ہوگی اتنی ہی زیادہ وسیع ہوگی اور سب سے اوپر والی سب سے زیادہ وسیع ہوگی اور جنت کے دروازوں کی وسعت جنت کی وسعت کے اعتبار سے ہوگی شاید کہ اسی وجہ سے جنت کے دروازوں کے ہردوپٹوں کے درمیانی فاصلے کے بیان میں اختلاف واقع ہوا ہے؛ کیونکہ بعض دروازے بعض کے اوپر ہیں۔ (مستفاد من حادی الارواح:۹۳) ہرمؤمن کی جنت کے چاردروازے ہوں گے: حضرت فزاریؒ فرماتے ہیں کہ ہرمؤمن کے لیے (اس کی) جنت کے چار دروازے ہوں گے ایک دروازہ سے اس کی زیارت کے لیے فرشتے حاضر ہوا کریں گے، ایک دروازہ سے اس کی حورعین بیویاں داخل ہوں گی، ایک دروازہ اس کے اور دوزخیوں کے درمیان بند رہے گا جب وہ چاہے گا اس کوکھول کران کی طرف دیکھ لے گا؛ تاکہ اس کے لیے (جنت کی) نعمت کی قدر میں اضافہ ہو، ایک دروازہ اس کے اور دارالسلام کے درمیان حائل ہوگا یہ جب چاہے گا اس سے اپنے رب کے حضور حاضر ہوسکے گا۔ (حادی الارواح:۹۲، بحوالہ ابوالشیخ، ولکن لم اجدہ فی کتاب العظمۃ لہ۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱۷۴) مؤمنین کودوزخ کامشاہدہ کرانے کی وجہ: اللہ کی مؤمنین کودوزخ کے دکھلانے کی کیا حکمت ہوسکتی ہے اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں (۱)تاکہ وہ جنت کی قدر کواور اس خطرناک عذاب کوجوان سے دفع کیا گیا کوپہچانیں؛ کیونکہ نعمت کی تعظیم دانشمندی کے لحاظ سے واجب ہے (۲)یہ بھی وجہ بتائی گئی ہے کہ دوزخ نے اپنے پروردگار سے شکایت کی تھی کہ یارب! میں نے توآپ کی نافرمانی کبھی نہیں کی؛ پھرآپ نے مجھے جبارین اور متکبرین (کافروں وغیرہ) کا مسکن کیوں بنادیا؟ تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں سب سے پہلے تمھیں انبیاء اور صلحاء کی زیارت کراؤنگا (اور توان کوپل صراط سے گذرتے وقت دیکھ لے گی) (۳)ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ تاکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کونارِنمرود سے جونجات عطاء فرمائی اس (کی آگ کی طرح) کا مؤمنین اپنی آنکھوں سے معائنہ کرلیں (۴)ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ تاکہ کفار مؤمنوں کی آن بان بھی دیکھ لیں کہ ان کے جوہر اصلی (ایمان اور اعمالِ صالحہ) کی وجہ سے نہ توان میں آگ کوئی اثرپیدا کررہی ہے اور نہ ان کوخراب کررہی ہے (۵)ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ تاکہ مؤمنین اللہ تعالیٰ کے کمالِ قدرت کا مشاہدہ کرسکیں (کہ آگ میں سے گذرنے کے باوجود وہ ان پراپنا کوئی اثر نہیں نہیں کرسکی) او رایک گروہ وہ دوزخ میں آہ وفریاد کررہا ہے اور ایک گروہ سے خود آگ فریاد کررہی ہے (کہ یہ اہل اللہ مجھ سے فوراً نکل جائیں ایسا نہ ہوکہ میری طاقت عذاب وتکلیف کم یاختم ہوجائے)۔ (کنزالمدفون:۱۳۳)