انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** پہلا الزام حضرت حسنؓ کی زہر خورانی- مذکورہ بالا الزاموں میں حضرت حسنؓ کو زہر دلوانے کا الزام جس درجہ سنگین اورنفرت انگیز ہے، اسی قدر کمزور اورناقابل اعتبار بھی ہےاس الزام کی لغویت اس قدر عیاں ہے کہ اس کے باوجود اس کی شہرت پر حیرت ہوتی ہے،آیندہ سطور میں اس کی روایتی اوردرایتی دونوں حیثیتوں سے بحث کی جاتی ہے۔ اس کی روایتی حیثیت یہ ہے کہ اتنا بڑا اہم واقعہ جس پر مؤرخین کی نظر سب سے پہلے پڑنی چاہیے تھی بعض قدیم مورخوں نے سرے سے لکھا ہی نہیں اورجن مورخوں نے اس کا ذکر بھی کیا ہے تو محض روایت کی حیثیت سے ورنہ وہ اس روایت کو خود لائق اعتماد نہیں سمجھتے ،حتیٰ کہ تفضیلئے مؤرخین بھی اس کو ناقابل اعتبار شمار کرتے ہیں، درایتی حیثیت سے صورت واقعہ میں اتنا تضاد اوراشخاص کے ناموں میں اتنا شدید اختلاف ہے کہ یہ اختلاف ہی اس کی تردید کے لئےکافی ہے، اب علی الترتیب حدیث طبقات،رجال اور تاریخ سے اس کی حقیقت ملاحظہ ہو۔ حدیث کی کتابوں میں یہ واقعہ مشہور محدث حاکم نیشا پوری کی مستدرک میں ملتا ہے ان کی روایت یہ ہے: عن أم بكر بنت المسور قالت : كان الحسن بن علي سم مرارا كل ذلك يفلت حتى كانت المرة الأخيرة التي مات فيها ، فإنه كان يختلف كبده (المستدرک،باب فضائل الحسن بن علی،حدیث نمبر:۴۷۸۷) ام بکر بنت مسور روایت کرتی ہیں: حسن بن علی کو کئی مرتبہ زہر دیا گیا؛ لیکن ہر مرتبہ بچ گئے اورآخری مرتبہ جب زہر دیا گیا جس میں ان کا انتقال ہوا تو ان کے جگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر گر تے تھے۔ اس روایت میں زہر دینے کا واقعہ ہے،لیکن امیر معاویہ ؓ کا نام تو دور کی بات کسی زہر دینے والے کا نام تک نہیں ہے،حافظ ذہبی کی تلخیص مستدرک میں بھی جو مستدرک کے ذیل میں ہے، بعینہ یہی روایت ہے،یہ حدیث کی شہادت ہے۔ اس کے بعد طبقاتِ صحابہ پر نظر ڈالئے تو سلسلۂ طبقات کی مستند ترین کتاب استیعاب میں یہ روایت ملتی ہے: قال قتادة وأبو بكر بن حفص سم الحسن بن علي سمته امرأته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي.وقالت طائفة كان ذلك منها بتدسيس معاوية إليها...واللہ اعلم (الاستیعاب،باب بن ابی طالب الھاشمی:۱/۱۱۵) قتادہ اورابوبکر بن حفص کہتے ہیں کہ حسن علی کو زہر دیا گیا ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے زہر دیا تھا اور ایک چھوٹا گروہ کہتا ہے کہ جعدہ نے معاویہ کے اشارہ سے زہر دیا تھا، واللہ اعلم۔ علامہ ابن عبدالبر نے مذکورہ بالا دور روایتیں لکھی ہیں،لیکن دوسری روایت جس مشتبہ طورپر لکھی ہے، اس کا ضعف خود عبارت سے ظاہر ہے کہ کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں: علامہ ابن اثیر اسد الغابہ میں لکھتے ہیں: وكان سبب موته أن زوجته جعدة بنت الأشعث بن قيس السم، فكانت توضع تحته طست، وترفع أخرى نحو أربعين يوماً، فمات منه (اسد الغابۃ،باب الحسن بن علی:۱/۲۶۱) اوران کی (حسنؓ) موت کا سبب یہ تھا کہ ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس نے ان کو زہر پلادیا تھا اورچالیس دن تک ان کے نیچے برابر ایک طشت رکھا جاتا تھا اور دوسرا اٹھایا جاتا تھا، اسی میں وہ انتقال کرگئے۔ اس روایت میں بھی جعدہ ہی کا نام ہے اور امیر معاویہؓ کا کہیں ذکر نہیں ۔ علامہ ابن حجر عسقلانی اصابہ میں حضرت حسنؓ کے سنین وفات کے اختلاف بتانے کے بعد لکھتے ہیں: ويقال: إنه مات مسموماً.قال ابن سعد أخبرنا إسماعيل بن إبراهيم أخبرنا ابن عون عن عمير بن إسحاق دخلت أنا وصاحب لي على الحسن بن علي فقال: لقد لفظت طائفة من كبدي وإني قد سقيت السم مراراً فلم أسق مثل هذا فأتاه الحسين بن علي فسأله: من سقاك؟ فأبى أن يخبره رحمه الله تعالى. (الاصابۃ،باب الحاء بعد ھا لاسین:۱/۲۲۵) اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے (حسن) زہر سے انتقال کیا، ابن سعد کی روایت ہے کہ مجھ کو اسمعیل نے خبردی کہ عمیر بن اسحق کہتے تھے کہ میں اور میرے ایک ساتھی حسنؓ کے پاس گئے انہوں نے کہا کہ میرے جگر کے کچھ ٹکڑے گرچکے ہیں اورمجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا؛ لیکن اس مرتبہ کہ ایسا قاتل کبھی نہ تھا اس کے بعد حسینؓ ان کے پاس آئے اورپوچھا کس نےپلایا، لیکن انہوں نے بتانے سے انکار کیا۔ رحمہ اللہ تعالی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ابن حجر نفس زہرہی سے موت ہونے میں مشتبہ ہیں؛چنانچہ زہر کی روایت "یقال" کرکے لکھتے ہیں، جو ضعفِ روایت کی علامت ہے دوسری اہم روایت ابن سعد کی ہے جو طبقاتِ صحابہ کے سب سے قدیم مولف ہیں اورجن کی کتاب طبقات ابن سعد طبقات کی قدیم ترین اور مستند ترین کتاب ہے اور بعد کی تمام کتابیں اسی سے ماخوذ ہیں مگر اس میں بھی کسی زہر دینے والے کا نام نہیں۔ علامہ ابن حجر نے اصابہ کے علاوہ رجال کی مشہور کتاب تہذیب التہذیب میں بھی اس واقعہ کے متعلق دوروایتیں نقل کی ہیں ان میں سے ایک روایت ابن سعد کی روایت خفیف لفظی تغیر کے ساتھ ہے،مگر صورت واقعہ بعینہ وہی ہے جو اوپر لکھی گئی ہے،دوسری روایت اسد الغابہ کی ہے جو اوپر گزرچکی ہے۔ طبقات اوررجال کے بعد تاریخ میں آئیے ،تاریخ میں یہ واقعہ مشتبہ سے مشتبہ تر ہوجاتا ہے،کیونکہ تفصیلئے مورخین بھی جنہیں امیر معاویہؓ کے مظالم ومثالب اوراہل بیت کی مظلومیت دکھانے میں خاص لطف آتا ہے ، امیر معاویہؓ کے ساتھ زہر خورانی کی نسبت کو صحیح نہیں سمجھتے،حتیٰ کہ بعضوں نے سرے سے زہر خورانی کا واقعہ ہی نہیں لکھا ہے؛چنانچہ سب سے قدیم تفضیلی مؤرخ علامہ احمد بن ابی داؤد دینوری المتوفی ۲۸۱ ھ جو اپنی قدامت کی وجہ سے مستند مؤرخ مانے جاتے ہیں، اپنی کتاب اخبار الطوال میں سرے سے اس واقعہ ہی کا تذکرہ نہیں کرتے اورحضرت حسنؓ کی وفات کے حالات اس طرح لکھتے ہیں: ثم إن الحسن رضي الله عنه اشتكى بالمدينة، فثقل، وكان أخوه محمد بن الحنفية في ضيعة له، فأرسل إليه، فوافى، فدخل عليه، فجلس عن يساره، والحسين عن يمينه، ففتح الحسن عينه، فرأهما، فقال للحسين: يا أخي، أوصيك بمحمد أخيك خيرا، فإنه جلده ما بين العينين) ثم قال: (يا محمد، وأنا أوصيك بالحسين، كانفه ووازره).ثم قال (ادفنوني مع جدي صلى الله عليك وسلم، فإن منعتم فالبقيع) ثم توفي، فمنع مروان أن يدفن مع النبي صلى الله عليه وسلم ، فدفن في البقيع (الاخبار الطوال،باب الاخبار الطوال:۱/۲۲۱،شاملۃ۳۸) پھر حسنؓ مدینہ میں بیمار پڑے اورحالت خراب ہوگئی تو ان کے بھائی محمد بن حنفیہ کو جو اس وقت اپنی زمینداری پر تھے بلایا گیا وہ حسنؓ کی وفات کے پہلےپہنچ گئے اورحسنؓ کے پاس آکر ان کے بائیں جانب بیٹھے ،حسینؓ داہنے جانب تھے، حسنؓ نے آنکھ کھولی اوران دونوں کو دیکھ کر حسینؓ سے کہا برادر عزیز میں تم کو تمہارے بھائی محمد سے حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ دونوں آنکھوں کے درمیانی چمڑہ کی طرح عزیز ہیں، پھر محمد بن حنفیہ سے کہا کہ محمد میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ تم حسین کے گرد جمع ہوکر ان کی مدد کرنا، پھر کہا کہ مجھ کو میرے نانا ﷺ کے ساتھ دفن کرنا اوراگر تم کو روکا جائے تو بقیع میں دفن کردینا؛چنانچہ آپ کی وفات کے بعد مروان نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ دفن کرنے سے روکا تو وہ بقیع میں دفن کئے گئے۔ اس واقعہ میں شروع سے آخر تک کہیں سرے سے زہر خورانی کا تذکرہ نہیں ہے،ان کے بعد دوسرے مستند اورتفضیلئے مورخ علامہ ابن واضح کاتب عباسی المعروف یعقوبی جو تیسری صدی کے نہایت ممتاز مورخ ہیں اپنی مشہور کتاب تاریخ میں حضرت حسنؓ کی وفات کا یہ واقعہ لکھتے ہیں: وتوفي الحسن بن علي في شهر ربيع الأول سنة تسع وأربعون، ولما حضرته الوفاة قال لأخيه الحسين: يا أخي إن هذه آخر ثلاث مرار سقيت فيها السم، ولم أسقه مثل مرتي هذه، وأنا ميت من يومي، فإذا أنا مت فادفني مع رسول الله، فما أحد أولى بقربه مني، إلا أن تمنع من ذلك فلا تسفك فيه محجمة دم (یعقوبی،باب وفاۃ الحسن بن علی:۱/۱۹۸) اورحسن ؓ بن علیؓ نے ربیع الاول ۴۹ھ میں وفات پائی جب وفات کا وقت قریب آیا تو اپنے بھائی حسین سے کہا برادر عزیز یہ تیسری مرتبہ کا آخری مرتبہ ہے جس میں مجھے زہر پلایا گیا لیکن اس مرتبہ کے جیسا کبھی نہ تھا ، میں آج ہی مرجاؤں گا، جب میں مرجاؤں تو مجھ کو رسول اللہ کے ساتھ دفن کرنا، کہ میری قرابت قریبہ کی وجہ سے میرے مقابلہ میں کوئی اس کا مستحق نہیں ہے البتہ اگر تم روکے جاؤ تو ایک پچھنے کے برابر بھی خونریزی نہ کرنا۔ اس میں بھی کسی زہر دینے والے کا نام نہیں۔ یعقوبی کے بعد تیسرے مستند ترین تفضیلئے مورخ علامہ مسعودی ،المتوفی ۳۴ھ جو اپنے وسعت علم اورجامعیت کے لحاظ سے مورٔخین میں ممتاز پایہ رکھتے ہیں،اپنی مشہور معروف کتاب مروج الذہب میں تحریر کرتے ہیں: عليِّ بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي اللّه عنهم، قال: دخل الحسين عَلَى عمي الحسن بن علي لما سقي السم، فقام لحاجة الإنسان ثم رَجَع، فقال: لقد سقيت السم على مرار فما سقيت مثل هذه، لقد لفظت طائفة من كبدي فرأيتني أقلبه بعود في يدي، فقال له الحسين: يا أخي، مَنْ سَقَاك. قال: وما تريد بذلك. فإن كان الذي أظنه فاللهّ حسيبه وإن كان غيره فما أحِبُّ أن يؤخذ بي بريء، فلم يلبث بعد ذلك إلا ثلاثاً حتى توفي، رضي اللّه عنه.ذكر الذي سمّه وذكر أن امرأته جَعْدة بنت الأشعث بن قيس الكندي سقته السم، وقد كان معاوية دسَّ إليها (مروج الذھب،باب ذکر الذی سمہ:۱/۳۴۶) علی بن حسینؓ بن علی بن ابی طالب (زین العابدین) بیان کرتے ہیں کہ حسینؓ میرے چچا حسنؓ بن علی کے پاس ان کے زہر پلانے کے وقت گئے تو حسنؓ قضائے حاجت کے لئے گئے وہاں سے لوٹ کر کہا کہ مجھے کئی مرتبہ زہر پلایا گیا،لیکن اس مرتبہ کے ایسا کبھی نہ تھا اس میں میرے جگر کے ٹکڑے باہر آگئے تم مجھے دیکھتے کہ میں ان کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا، حسینؓ نے پوچھا بھائی صاحب کس نے پلایا؟ حسنؓ نے کہا، اس سوال سے تمہارا کیا مقصد ہے،اگر زہر دینے والا وہی شخص ہے جس کے متعلق میرا گمان ہے تو خدا اس کے لئے کافی ہے اور اگر دوسرا ہے تو میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ سے کوئی ناکردہ گناہ پکڑا جائے، اس کے بعد حسنؓ زیادہ نہ ٹھہرے اور تین دن کے بعد انتقال کرگئے، اورذکر کیا جاتا ہے کہ ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس نے معاویہ ؓ کے اشارہ سے زہر پلایا تھا۔ اس روایت کے دو حصے ہیں، اصل حصہ میں کسی زہر دینے والے کا نام نہیں دوسرے ٹکڑے میں جو محض روایتی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے،جیسا کہ اس کا طرز تحریر شاہد ہے ،اس میں امیر معاویہؓ کا نام ہے، لیکن اس روایتی ٹکڑے کی جو حیثیت ہے وہ "ذکر" کے لفظ سے ظاہر ہے"ذکر" عربی زبان میں اسی واقعہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو نہایت کمزور ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا شہادتیں ان تفضیلئے مورخین کی ہیں جنہیں اہل سنت بھی عام واقعات میں مستند سمجھتے ہیں،اب ان خالص سنی مورخین کی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں جنہیں شیعہ بھی مستند مانتے ہیں، اس سلسلہ میں سب سے اول محدث ابن جریر طبری کا نام سامنے آتا ہے،لیکن یہ واقعہ مجھے طبری میں باوجود تلاش کرنے کے کہیں نہیں ملا طبری کے بعد ابن اثیر کا نمبر ہے وہ لکھتے ہیں: (ابن اثیر:۳/۳۲۳،طبع یورپ) فی ھذہ السنۃ توفی الحسن ابن علی سمتہ زوجتہ جعدۃ بنت الاشعث بن قیس الکندی اوراسی سنہ ۴۹ حسنؓ بن علیؓ نے وفات پائی ان کو ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے زہر دیا تھا ابن اثیر کے بعد ابو الفداء کا بیان ہے: (ابو الفداء :۱/۱۸۳) وتوفی الحسن من سم سقتہ زوحبتہ جعد ۃ بنت الاشعث قیل فعلت ذالک بامرومعاویۃ وقیل با مریزید اورحسن نے زہر سے وفات پائی جسے ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث نے پلایا تھا اورکہا گیا ہے کہ اس نے یہ فعل معاویہ کے حکم سے کیا تھا اور کہا گیا ہے کہ یزید کے حکم سے کیا تھا۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ ابو الفداء بھی امیر معاویہؓ کی جانب زہر خورانی کی نسبت صحیح نہیں سمجھتا ،اس لئے پہلے اس نے اپنی رائے لکھی، اس کے بعد دوسری روایت محض روایتی حیثیت سے "قیل" کے ساتھ نقل کی ہے جو ضعف روایت کی دلیل ہے۔ سب سے آخر میں ابن خلدون کی رائے پیش کی جاتی ہے گو زمانہ کے لحاظ سے اس کا شمار متاخرین میں ہے،لیکن صحت روایت ،اصابت رائے اور تنقید کے اعتبار سے سب میں ممتاز ہے، خصوصاً مشتبہ اورمختلف فیہ واقعات میں اس کی رائے فیصلہ کا حکم رکھتی ہے کیونکہ یہ اس قسم کے واقعات کی تنقید بھی کرتا ہے اور دنیا میں فلسفۂ تاریخ کا امام ہے اورپہلا شخص ہے جس نے دنیا کو فلسفہ تاریخ سے آشنا کیا؛چنانچہ حضرت حسنؓ کی دست برداری کے سلسلہ میں لکھتا ہے: ثم ارتحل الحسن في أهل بيته وحشمهم إلى المدينة وخرج أهل الكوفة لوداعه باكين فلم يزل مقيما بالمدينة إلى أن هلك سنة تسع وأربعين وقال أبو الفرج الاصبهاني سنة احدى وخمسين وعلى فراشه بالمدينة وما ينقل من ان معاوية دس إليه السم مع زوجه جعدة بنت الاشعث فهو من أحاديث الشيعة وحاشا لمعاوية من ذلك (ابن خلدون:۲/۱۸۷) حسنؓ خلافت سے دستبرداری کے بعد اپنے اہلبیت اوران کے خدام کو لیکر مدینے چلے گئے اورکوفہ والے روتے ہوئے ان کورخصت کرنے کیلئے نکلے، اس وقت سے وفات تک وہ برابر مدینہ میں مقیم رہے ۴۹ ھ میں انہوں نے وفات پائی اور ابو الفرج اصفہانی کا بیان ہے کہ ۵۱ھ میں اپنے بستر پر مدینہ میں وفات پائی اوریہ روایت کہ معاویہؓ نے ان کی بیوی سے مل کر زہر دلایا شیعوں کی بنائی ہوئی ہے حاشا معاویہؓ کی ذات سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ ان تمام مستند تاریخی شہادتوں کے بعد آخری میں یہ بحث تاریخ اسلام کے مشہور مجدد علامہ ابن تیمیہ حرانی کے فیصلہ پر ختم کی جاتی ہے وہ لکھتے ہیں: بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حسن کو معاویہؓ نے زہر دیا تھا کہ کسی شرعی دلیل اورمعتبر اقرار سے ثابت نہیں ہے اورنہ کوئی قابل وثوق روایت سے اس کی شہادت ملتی ہے اوریہ واقعہ ان واقعوں میں ہے جس کی تہ تک نہیں پہنچا جاسکتا اس لئے اس کے متعلق کچھ کہنا بے علم کی بات کہنا ہے، ہم نے اپنے زمانہ میں ایسی مثال دیکھی ہے کہ ایک شخص کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ زہر سے مرا اورترکوں وغیرہ نے اسے زہر دیا لیکن اس واقعہ میں لوگوں کا بیان اس درجہ مختلف ہے کہ اس بادشاہ کی جائے وفات اورقلعہ کی تعیین میں بھی اختلاف ہے جس میں وہ مرا اوراس بارہ میں ہر شخص کا بیان ایک دوسرے سے مختلف ہے ایک شخص کہتا ہے کہ فلاں نے زہردیا دوسرا کہتا ہے کہ اس نے نہیں ؛بلکہ دوسرے شخص نے زہردیا، کیونکہ یہ اس طرح پیش آیا یہ واقعہ حال کا اور تمہارے زمانہ کا ہے اوراس کے بیان کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اس بادشاہ کے قلعہ میں موجود تھے، حضرت حسنؓ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کو زہر دیا گیا اوریہ ایسی موت ہے جس کا آسانی سے پتہ چل سکتا ہے کیونکہ مسموم کی موت چھپی نہیں رہتی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی نے زہر دیا اوریہ مسلم ہے کہ ان کی وفات مدینہ میں ہوئی اورمعاویہ شام میں تھے، اس لئے زیادہ سے زیادہ کوئی بد گمان یہ گمان کرسکتا ہے کہ معاویہ نے اس کے پاس زہر بھیج کر اس کو کھلانے کا حکم دیا، دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حسنؓ بکثرت طلاقیں دیتے تھے اورکبھی ایک عورت کے پاس نہیں رہتے تھے اس لئے ان کی بیوی نے فطرت نسوانی کے تحت عداوت میں انہیں زہر دیدیا، تیسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس عورت کا باپ اشعث بن قیس درپردہ حضرت علیؓ اورحسنؓ کا مخالف تھا اس لئے اپنی لڑکی کے ذریعہ سے زہر دلادیا اب اگر یہ کہا جائے کہ اشعث کو امیر معاویہ نے حکم دیا تھا تو یہ محض بد گمانی ہوگی،جو مذہباً ممنوع ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ظن اکذب الحدیث ہے اور باتفاق مسلمین شرعا اورقانونا بھی ظن پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا اس لئے مدحاً اور ذماً اس پر کوئی حکم مترتب نہیں ہوتا اور تیسرا سبب صریحا باطل ہے؛کیونکہ باختلاف روایت اشعث ابن قیس ۴۰ یا ۴۱ میں مرا اسی لئے حسنؓ اورمعاویہؓ کی صلح کے سلسلہ میں کہیں اس کا نام نہیں آیا ہے اوریہ صلح عام الجماعت ۴۱ میں ہوئی ہے، اگر اس وقت زندہ ہوتا تو اس کا نام کسی نہ کسی طرح اس سلسلہ میں ضرور آتا اس لئے وہ اپنی موت کے دس سال بعد کس طرح اپنی لڑکی سے زہر دلاسکتا تھا واللہ اعلم لحقیقۃ الحال (منہاج السنۃ:۲/۲۲۵) ان شہادتوں کے بعد اس واقعہ پر مزید ردوقدح کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی ،اس کے متعلق تمام تاریخی شواہد کی اصل عبارتیں مع ترجمہ ناظرین کے سامنے پیش کردی گئیں وہ انہیں دیکھ کر خود حق و باطل کا فیصلہ کرسکتے ہیں، لیکن اس بحث کے ختم کرنے سے پہلے ایک ضروری پہلو کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے یہ مسلم ہے کہ حضرت حسنؓ نہایت صلح جو اورصلح پسند تھے، جنگ وجدل سے انہیں طبعی نفرت تھی اوراسی سے بچنے کے لئے وہ خلافت جیسے رفیع اعزاز سے دست بردار ہوگئے تھے آپ کی دست برداری کے بعد خانوادۂ نبوت کے جس شخص میں کسی حد تک خلافت کی خواہش تھی تو وہ حضرت حسینؓ کی ذات گرامی تھی؛چنانچہ آپ نے حضرت حسنؓ اور امیر معاویہؓ کی مصالحت اورحضرت حسنؓ کی دست برداری کے وقت آپ کی مخالفت بھی کی تھی لیکن حضرت حسنؓ نے انہیں ڈانٹ کر خاموش کردیا تھا، اس لئے اگر امیر معاویہؓ آئندہ خطرہ سے بچنے کے لئے زہر دلواتے بھی تو حسینؓ کو جن کی طرف سے ان کو دعویٰ خلافت کا خطرہ تھا،جیسا کہ انہوں نے اپنے وصیت نامہ میں یزید کو آگاہ کیا تھا،یا حسنؓ کو جوان کے حق میں دست بردار ہوگئے تھے غرض عقلی اور نقلی دونوں حیثیتوں سے یہ روایت ناقابل اعتبار ؛بلکہ بالکل ہی بے حقیقت ہے۔