انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** کوفہ پرحملہ کی تیاری سنہ۶۴ھ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ قریباً تمام عالمِ اسلام میں خلیفہ تسلیم کئے جاتے تھے؛ اسی سال مصر، فلسطین اور تمام شام کا ملک ان کے دائرۂ خلافت سے خارج ہوگیا اور بنواُمیہ کی خلافت دوبارہ دمشق میں قائم ہوگئی، سنہ۶۵ھ میں بعض صوبوں کے اندر بغاوتیں ہوئیں؛ لیکن حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوخلیفہ ضرورت سلیم کیا جاتا رہا اور کوئی صوبہ قبضے سے نہیں نکلا۔ سنہ۶۶ھ میں کوفہ اور یمامہ دونوں قبضے سے نکل گئے، کوفہ میں مختار کی حکومت اور یمامہ میں نجدہ بن عامر کی حکومت خود مختارانہ طور پرقائم ہوگئی، بصرہ کوحرث بن ربیعہ نے اور فارس کومہلب بن ابی صفرہ نے سنبھالے رکھا اور خوارج کے فتنوں کوسراُبھارتے ہی دبادیا، مختار کی طرف سے بصرہ پرڈورے ڈالے جارہے تھے اور بصرہ میں عبداللہ بن مطیع سابق گورنر کوفہ اور عمروبن عبدالرحمن نامزدشدہ گورنر کوفہ بھی موجود تھے، ان دونوں کوعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شرمندگی تھی اسی لیئے بصرہ میں ان دونوں کی موجودگی موجب خطر بھی ہوسکتی تھی کہ کہیں کسی سازش میں شریک نہ ہوجائیں، جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ سنا کہ عبیداللہ ن زیاد ابراہیم بن مالک کے مقابلے میں مقتول ہوچکا ہے توان کواہلِ شام اور عبدالملک بن مروان کی طرف سے توایک گونہ اطمینان ہوا کہ ان کی طاقت کوایک بڑا صدمہ پہنچا تھا اور وہ جلد حجاز پرحملہ آور ہونے کا ارادہ نہیں کرسکتے تھے؛ لیکن بصرہ کے متعلق خطرات بڑھ گئے؛ کیونکہ مختار بن عبیدہ کی توجہ اس فتح کے بعد بصرہ ہی کی طرف مبذول ہونے والی تھی؛ لہٰذا انھوں ے فوراً بصرہ کے عامل حرث بن ربیعہ کومعزول کرکے اپنے بھائی مصعب بن زبیر کوبصرہ کی گورنری پرمامور کرکے بھیجا۔ بصرہ میں آج کل کوفہ کے بہت سے آدمی مختار کے خوف سے بھاگ بھاگ کرچلے آئے تھے، یہ وہ سب لوگ تھے جن کواندیشہ تھا کہ قتل حسین کے معاوضے میں مختار ہم کوبھی کہیں قتل نہ کردے، کوفہ کے انہیں مفرورین میں شیث بن ربعی اور محمد بن الاشعث بھی تھے، مصعب بن زبیر نے بصرہ کی حکومت وامارت اپنے ہاتھ میں لے کرحالات کا پرغور مطالعہ شروع کیا، کوفہ سے آئے ہوئے لوگوں نے جن میں بعض بہت معزز اور تجربہ کار شخص بھی تھے، مصعب بن زبیر کومشورہ دیا کہ کوفہ پرحملہ کرو، مصعب نے کہا کہ مجھ کوامیرالمؤمنین عبداللہ بن زبیر نے حکم دیا ہے کہ مہلب بن ابی صفرہ کوہمراہ لیے بغیر کوفہ پرحملہ نہ کروں؛ لہٰذا سب سے پہلے فارس سے مہلب کوبلوانا چاہیے؛ چنانچہ مصعب نے ایک خط مہلب کے نام لکھا اور محمد بن الاشعث کے ہاتھ مہلب کے پاس روانہ کیا، مہلب نے محمد بن الاشعث کودیکھ کرکہا کہ مصعب کے سوا اور کوئی قاصد نہیں ملا؛ انھوں نے کہا کہ میں قاصد نہیں ہوں؛ بلکہ خود اپنی غرض کوآیا ہوں کہ کوفہ کے حالات آپ کوسناؤں، ہمارے غلام زادوں نے ہمارے اموال اور مکانات پرقبضہ کرکے ہم کوبے دخل کردیا ہے اور مصیبت کے مارے بصرہ کی طرف بھاگ کرآئے ہیں اور فریاد کرتے ہیں کہ خدا کے لیلے ہماری مدد کرو اور مصیبت سے ہم کونجات دلاؤ۔ مہلب بن ابی صفرہ فارس کے صوبہ کی حکومت اپنے بیٹے مغیرہ بن مہلب کے سپرد اور ملک کا قابل اطمینان بندوبست کرکے بصرہ کی طرف کافی سامان اور لشکر لے کرروانہ ہوا اور مصعب بن زبیر سے بصرہ میں آکر ملا، مہلب بن ابی صفرہ کے پاس حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا خط بھی براہِ راست پہنچ چکا تھا کہ تم بصرہ میں مصعب بن زبیر سے آکر ملو اور کوفہ پرحملہ کرو، مہلب کوکسی قدر توقف ہوا تومصعب کوبصرہ سے قاصد بھیجنا پڑا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شاید کوفہ پرچڑھائی کرنے میں اور تامل فرماتے؛ لیکن مختار نے جب کوفہ میں لوگوں کوبڑی کثرت سے قتل کیا اور یہ بھی مشہور کیا کہ میرے پاس جبرئیل امین آتے اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتے ہے اور میں بطورِ نبی مبعوث ہوا ہوں تولوگ شہر چھوڑ چھوڑ کربھاگے، کچھ توبصرہ کی طرف گئے، بعض سیدھے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور مختار کی نبوت کا حال بھی علاوہ مظالم کے سنایا، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کرکہ مختار نے نبوت کا دعویٰ کی ہے، اس کے استیصال میں توقف کرنا کسی طرح مناسب نہ سمجھا اور مہلب کوخط لکھا اور مصعب کوتاکید کی کہ بصرہ میں جاکر بغیرمہلب کے آئے ہوئے کوفہ کی طرف حملہ آور نہ ہونا۔