انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نام ونسب مغیرہ نام، ابو عبداللہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے، مغیرہ بن شعبہ بن ابی عامر بن مسعود بن معتب بن مالک بن کعب بن عمروبن عوف بن قیس۔ (اسد الغابہ:۴/۴۰۶) اسلام غزوۂ خندق کے سال ۵ھ میں مشرف باسلام ہوئے اوراسی زمانہ میں ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ (استیعاب:۱/۲۵۸) غزوات اورآنحضرت ﷺ کے ساتھ قیام کیا،غزوۂ حدیبیہ میں آپ کے ساتھ نکلے،قریش اس میں مزاحم ہوئے اوران کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی گفتگو کے لیے آیا اورعرب کے عام قاعدہ کے مطابق دوران گفتگو میں بار بار آنحضرت ﷺ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتاتھا، مسلمان اس گستاخانہ طریقہ تخاطب کے عادی نہ تھے،مغیرہؓ کو جو اسوقت ہتھیار لگائے آنحضرت ﷺ کی پشت کی جانب کھڑے تھے،یہ انداز گفتگوناگوار ہوا،وہ ہر مرتبہ تلوار کے قبضہ پر ہاتھ لے جاتےتھے آخر میں ضبط نہ ہوسکا ڈانٹ کر کہا خبردار! ہاتھ قابو میں رکھو،عروہ نے پہچان کر کہا، اودغاباز میں نے تیری دغابازی کے معاملہ میں تیری طرف سے کوشش نہیں کی تھی۔ (زمانہ جاہلیت میں مغیرہ نے چند آدمیوں کو قتل کردیا تھا، مسعود ثقفی نے ان کی دیت ادا کی تھی، یہ واقعہ بخاری کتاب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اہل الحرم میں مفصل مذکور ہے، ہم نے صرف اسی قدر ہی لیا ہے جتنا مغیرہ کی ذات سے متعلق ہے) آخری سعادت آنحضرت ﷺ کی تجہیز وتکفین کے وقت موجود تھے، جب لوگ جسد مبارک کو قبرانور میں رکھ کر نکلے تو انہوں نے عمداً قبر میں اپنی انگوٹھی گرادی ،حضرت علیؓ نے کہا نکال لو،انہوں نے قبر میں اتر کر قدم مبارک کو ہاتھ سے مس کیا اورجب مٹی گرائی جانے لگی اس وقت قبر سے نکلے، انہوں نے قصدا ًاس لیے انگوٹھی گرائی تاکہ یہ شرف ان کے ساتھ مخصوص ہوجائے کہ وہ ذات نبوی سے یہ سب سے آخری جدا ہونے والے ہیں، چنانچہ ہمیشہ لوگوں سے فخریہ کہا کرتے کہ میں تم سب میں آنحضرت ﷺ سے آخری جدا ہونے والا ہوں۔ (ابن سعد:۲/۷۷،۷۸) عہدصدیقی آنحضرت ﷺ کے بعد شیخین کے عہدکی اکثر معرکہ آرائیوں میں شریک رہے اوربڑے بڑے کارنمایاں کیے،سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے حکم سے اہل بحیرہ کی طرف گئے،پھر یمامہ کے مرتدوں کی سرکوبی میں پیش پیش رہے۔ (مستدرک:۳/۴۴۷) عہد فاروقیؓ فتنۂ ارتداد کے فرو ہونے کے بعد عراق کی فتوحات میں شریک ہوئے ،بویب کی تسخیر کے بعد جب مسلمان قادسیہ کی طرف بڑھے اور رستم نے مصالحت کے لیے مسلمان سفرابلائے تو کئی سفراء بھیجے گئے،آخر میں یہ خدمت مغیرہؓ کے سپرد ہوئی۔ سفارت ایرانیوں نے اسلامی سفیر پر رعب ڈالنے کے لیے بڑی شان و شوکت سے دربار سجایا تھا، تمام افسرانِ فوج دیباوحریر کے بیش قیمت ملبوسات زیب تن کیے تھے، رستم زرنگار تاج سرپر رکھے تخت پر بیٹھا تھا،دربار میں کارچوبی کا فرش تھا، مغیرہؓ پہنچے تو بلا کسی جھجک کے سیدھے رستم کے تخت پر جاکر بیٹھ گئے، ان کا اس دلیری سے رستم کے پہلو بہ پہلو بیٹھ جانا درباریوں کو ناگوار گذرا، انہوں نے ہاتھ پکڑ کے نیچے بٹھادیا،مغیرہ نے کہا:ہم عرب ہیں ہمارے یہاں یہ دستور نہیں ہے کہ ایک شخص خدا بنے اور دوسرے لوگ اس کی پرستش کریں،ہم سب ایک دوسرے کے برابرہیں، تم نے ہم کو خود بلایا ہے،ہم اپنی غرض سے نہیں آئے ہیں، پھر تمہارا یہ سلوک کہاں تک مناسب ہے، اگر تم لوگوں کا یہی حال رہا تو بہت جلد نیست و نابود ہوجاؤ گے، بقائے سلطنت کی یہ شکل نہیں ہے، ایرانی اس مساوات سے ناآشنا تھے، یہ خیالات سن کر دنگ رہ گئے، رستم بھی نادم ہوا، بولا کہ یہ نوکروں کی غلطی ہے اور حسن تلافی کے طورپر ان کے ترکش سے تیر نکال کر مذاق کے لہجہ میں کہا کہ ان تکلوں سے کیا ہوگا، کہا چنگاری کی لوگو چھوٹی ہو مگر پھر بھی آگ ہے، پھر اس نے تلوار کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ تمہاری تلوار کس قدر بوسیدہ ہے، کہا گو نیام بوسیدہ ہے؛ لیکن دھار تیز ہے، اس کے بعد اصل معاملہ پر گفتگو شروع ہوئی،رستم نے اپنی قوم کی شوکت وعظمت سطوت و جبروت اورعربوں کی حقارت و کم مایگی کا تذکرہ کرکے کہا کہ گو تمہاری جیسی ناچیز قوم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ،تاہم اگر تم لوٹ جاؤ تو تمہاری فوج اور سردار فوج کو ان کے مرتبہ کے موافق انعام دیا جائے گا،مغیرہؓ نے نہایت جوش سے جوابی تقریر کی اورآخر میں کہا کہ اگر تم کو جزیہ نہیں منظور ہے تو تلوار تمہارافیصلہ کرے گی، رستم یہ سخت جواب سن کر آگ بگولا ہوگیا،بولا کہ آفتاب سے پہلے تمہاری فوج کو تہ وبالا کردوں گا،اس گفتگو کے بعد مغیرہؓ واپس چلے آئے ،(طبری:۵/۲۲۷۴)اور قادسیہ کی مشہور جنگ میں بھی یہ شریک تھے۔ عراق پرفو ج کشی ۱۹ھ میں رے قومس اور اصفہان والوں نے یزدگرد سے خط وکتابت کرکے مسلمانوں کے خلاف ساٹھ ہزار فوج جمع کی اور مروان شاہ درفش کا ویانی لہراتا ہوا نکلا، حضرت عمار بن یاسرؓ نے دربار خلافت میں اطلاع دی، حضرت عمرؓ نے خود نکلنے کا قصد کیا؛لیکن پھر نظام خلافت کے اختلال کے خیال سے ارادہ فسخ کردیا اور امرائے کوفہ وبصرہ کے نام فرمان جاری کیے کہ وہ اپنی اپنی فوج لے کر نہاوند کی طرف بڑھیں اور نعمان بن مقرن کو سپہ سالار مقرر کرکے ہدایت کردی کہ اگر تم شہید ہو تو حذیفہ بن یمان تمہاری قائم مقامی کریں اگر وہ بھی شہید ہوں تو جریربن عبداللہ بجلی جگہ لیں اوراگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو مغیرہؓ علم سنبھال لیں۔ (فتوح البلدان بلاذری:۳۱۱) دوسری سفارت جب اسلامی لشکر نہاوند کے قریب پہنچا تو ایرانیوں نے دوبارہ مصالحت کی گفتگو کے لیے ایک سفیر طلب کیا، مغیرہؓ اس خدمت کو ایک مرتبہ حسن وخوبی کے ساتھ انجام دے چکے تھے، اس لیے دوبارہ ان ہی کا انتخاب ہوا،یہ سفیر بن کرگئے تو دربارکاوہی رنگ دیکھا ،مروان شاہ سرپر تاج زرنگار رکھے طلائی تخت پر بیٹھا تھا،درباری چپ دراست چمکدار تلواریں لگائے ،جن پر آنکھ نہیں ٹھہرتی تھی،کھڑے تھے،مغیرہؓ نے کوئی توجہ نہ کی اور سیدھے گھستے ہوئے چلے گئے،راستہ میں درباریوں نے روکنا چاہا، کہا سفرا کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کیا جاتا اور مترجم کے ذریعہ گفتگو شروع ہوئی،مروان شاہ نے کہا کہ تم عرب ہو اور عربوں سے زیادہ بدبخت ،فاقہ مست اور نجس قوم دنیا میں نہیں ہے، میری سپاہ کب کا تمہارا فیصلہ کرچکی ہوتی ؛لیکن تم اس قدر ذلیل ہوکہ ہم ان کے تیر بھی تمہارے ناپاک خون سے آلودہ کرنا نہیں چاہتے،اب بھی اگر تم واپس چلے جاؤ تو معاف کردیا جائے گا، ورنہ تمہاری لاشیں میدان میں تڑپتی نظر آئیں گی، انہوں نے حمد و نعت کے بعد جواب دیا کہ بیشک جیسا تمہاراخیال ہے،ایک زمانہ میں ہم ویسے ہی تھے؛لیکن ہمارے رسولﷺ نے ہماری کایا پلٹ دی اب ہر طرف ہمارے لیے میدان صاف ہے اور بغیر تمہارا تاج و تخت چھینے اس وقت تک نہیں لوٹ سکتے ،جب تک میدان جنگ میں ہماری لاشیں نہ تڑپیں،(طبری:۲/۲۶۰۲،۲۶۰۳) غرض یہ سفارت بے نتیجہ رہی، طرفین میں لڑائی کی تیاریاں شروع ہوگئیں،مغیرہؓ میسرہ کے افسر مقرر ہوئے،نہاوند کے معرکہ میں اسلامی فوج کے سپہ سالار نعمان بن مقرن ایسے سخت زخمی ہوئے کہ پھر جان بر نہ ہوسکے؛لیکن مسلمانوں کے ثبات واستقلال میں کوئی فرق نہ آیا اور بالآخر ایرانیوں کو شکست ہوئی،اختتام جنگ کے بعد معقل ،نعمان کی خبر لینے گئے،سانس کی آمد وشدباقی تھی لیکن نگاہ جواب دے چکی تھی، پوچھا کون،معقل نے بتایا،پوچھا جنگ کا کیا نتیجہ رہا، عرض کیا اللہ نے کامیاب کیا، فرمایا الحمدللہ،عمرؓ کو اطلاع دو اوریہ مژدہ سننے کے بعد طائر روح پرواز کر گیا۔ (فتوح البلدان بلاذری:۳۱۲،۳۱۳) نہاوند کے بعد ایران پر عام فوج کشی ہوئی،ہر حصہ پر الگ الگ فوجیں بھیجی گئیں، ہمدان کی مہم مغیرہؓ کے سپرد ہوئی، انہوں نے نہایت بہادری سے اس کو سرکیا،پھر اہل ایران کی درخواست پر صلح کرلی۔ (فتوح البلدان بلاذری:۳۱۷، ومستدرک:۳/۴۴۸) بصرہ آباد ہونے کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کو یہاں کا گورنر مقرر کیا،انہوں نے اپنے عہد حکومت میں بہت سے نئے انتظامات کیے،باقاعدہ ایک دفترکھولا، جہاں سے سپاہیوں کی تنخواہیں اوروظیفہ خواروں اور وثیقہ پانے والوں کے وظیفے اور وثیقے ملتے تھے، اس سے پہلے کوئی دفتر نہ تھا، اس کی ایجاد کا سہرا مغیرہؓ کے سر ہے،کچھ دنوں کے بعد ایک جرم کے الزام میں ماخوذ ہوئے،لیکن شہادت سے یہ الزام ثابت نہ ہوسکا،حضرت عمرؓبہت خوش ہوئے کہ ایک صحابی کا دامن معصیت کی آلودگی سے پاک نکلا، تاہم سیاسی مصالح کے لحاظ سے بصرہ سے تبادلہ کرکے عماربن یاسرؓ کی جگہ کوفہ کا گورنر بنایا، حضرت عمرؓ کی وفات تک یہاں کے گورنررہے،(استیعاب:۱/۲۵۹ ومستدرک:۳/۴۴۸) اورجدید عثمانی انتظامات میں معزول کردیے گئے۔ عہدمعاویہ اس کے بعد امیر معاویہ اؓورحضرت علیؓ میں اختلافات ہوئے تو ابتدامیں مغیرہؓ حضرت علیؓؓ کے حامی وطرفدار تھے،چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر مخلصانہ مشورہ دیا کہ اگر آپ اپنی خلافت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو طلحہؓ وزبیرؓ کو کوفہ اوربصرہ کاوالی بنائیے اور امیرمعاویہؓ کو ان کے قدیم عہدہ پر واپس کیجئے،پورا تسلط ہوجانے کے بعد پھر جو خیال میں آئے وہ کیجئے گا؛لیکن جناب امیرؓ نے جواب دیا کہ طلحہ ؓ و زبیرؓ کے بارہ میں غور کروں گا؛لیکن معاویہؓ جب تک اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں گے اس وقت تک نہ ان کو کہیں کا امیر بناؤں گا اورنہ ان سے کسی قسم کی مددلوں گا،مغیرہؓ اس جواب سے بدظن ہوگئے،امیر معاویہؓ کو خبر ہوئی تو انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اوران کو اپنی طرف مائل کرکے ان سے بیعت لے لی،(اصابہ:۶/۱۳۲) اب مغیرہؓ معاویہؓ کے ساتھ تھے اور علی الاعلان حضرت علیؓؓ کی مخالفت شروع کردی،مجمع عام میں آپ کے خلاف تقریر کرتے اورلوگوں کو آپ کی مخالفت پر ابھارتے تھے۔ (مستدرک: ۴۵۰) مغیرہؓ کی حمایت نے امیر معاویہؓ کو بڑی قیمتی مدد پہنچائی ،بڑی بڑی اہم گتھیاں انہوں نے اپنے ناخن تدبیر سے حل کردیں،امیر معاویہؓ کے دعویٰ خلافت کے سلسلہ میں بعض مواقع ایسے نازک آگئے تھے کہ اگر مغیرہؓ کا تدبرنہ ہوتا تو امیر معاویہؓ کو سخت ترین دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا"زیاد"دہاۃ عرب میں تھا اور حضرت علیؓ کی طرف سے فارس کا والی تھا، یہ امیر معاویہؓ کا سخت ترین دشمن تھا، حضرت حسنؓ کی دست برداری کے بعد گوامیر معاویہؓ سارے عالم اسلامی کے خلیفہ ہوگئے تھے؛لیکن زیاد ان کی خلافت نہیں تسلیم کرتا تھا، امیر معاویہؓ نے مشہور جفاکاربسربن ارطاط کو اس کے مطیع کرنے پر مامور کیا؛لیکن اس کی سختیاں بے کار ثابت ہوئیں اور مغیرہؓ بن شعبہ نے اپنے تدبیر سے زیاد کو امیر معاویہؓ کا مطیع بنا کر ایک بڑے خطرہ سے بچالیا۔ (ابن ایثر:۳/۱۶۸) کوفہ کی گورنری ۴۱ھ میں امیر معاویہؓ نے مغیرہؓ کو ان کے حسن خدمات کے صلہ میں کوفہ کا عامل بنایا،۴۲ھ میں خارجیوں نے بڑا سخت فتنہ برپا کیا،مغیرہؓ نے نہایت ہوشیاری اورسرعت سے اس کو فروکیا اورخارجیوں کا ایک سرغنہ مستوردماراگیا، غرض مغیرہؓ نے امیر معاویہؓ کی خلافت استوارکرنے میں پورازور صرف کیا۔ وفات ۵۰ھ میں کوفہ میں طاعون کی وبا پھیلی،اسی میں انتقال کیا،وفات کے وقت ۷۰ سال کی عمر تھی۔ (ابن اثیر:۳/۱۸۲) حلیہ سربڑا،بال بھورے،لب پیوستہ،بازوفراخ اورشانے کشادہ تھے۔ (اصابہ:۶/۱۳۲) اولاد وفات کے وقت ۳/ اولادیں چھوڑیں،عروہ،حمزہ،عقار۔ (تہذیب التہذیب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ) فضل وکمال مغیرہؓ بن شعبہ گو ایک مدبر اورفوجی شخص تھے،تاہم ان کو مذہبی علوم سے بھی وافر حصہ ملا تھااور اپنے زمرہ میں علمی حیثیت سے ممتاز شخصیت رکھتے تھے،ان کی ۱۳۳ /روایتیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں،ان میں سے ۹ متفق علیہ ہیں اورایک میں امام بخاری اور ۲ میں مسلم منفرد ہیں (تہذیب الکمال:۳۸۵) تلامذہ کا دائرہ بھی خاصہ وسیع تھا، ان میں ان کے تینوں لڑکے عروہ،حمزہ،عقار اور عام لوگوں میں جیرہ بن وحیہ، مسوربن مخرمہ، قیس بن ابی حازم، مسروق بن احدع، نافع بن جبیرہ بن مطعم،عروہ بن زبیر اور عمروبن وہب قابل ذکرہیں۔ (تہذیب التہذیب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ) گومغیرہؓ مذہبی علوم سے بے بہرہ نہ تھے؛لیکن ان کی عظمت ووقار کا حکم علم وافتا کی مسند کے بجائے سیاست کی خارزار وادیوں میں گڑا تھا اور یہی ان کے کمال کا حقیقی مظہر تھا، عقل ودانش اور تدبروسیاست کے لحاظ سے وہ عرب کے ممتاز مدبرین میں تھے، ان کا شمار "دہاۃ عرب" میں تھا اوراپنے غیر معمولی دل و دماغ کے سبب سے "مغیرۃ الرائے" کہلاتے تھے (اصابہ واستیعاب تذکرہ مغیرہ بن شعبہ) اسی وصف کی بناء پر حضرت عمرؓ کے عہد میں بڑے بڑے ذمہ دار عہدوں پر ممتاز رہے اور دربار ایران تک ان کے تدبر کا سکہ جم گیا تھا۔ قبیصہ بن جابرکا بیان ہے کہ میں عرصہ تک مغیرہؓ کے ساتھ رہا، وہ اس تدبیر وسیاست کے آدمی تھے کہ اگر کسی شہر کے آٹھ دروازے ہوں اوران میں ایک میں سے بھی بغیر ہوشیاری اور چالاکی کے گذر نا دشورا ہوتو مغیرہؓ آٹھوں دروازوں سے نکل جاتے، (تہذیب التہذیب:۱/۲۰۲) اہم امور کی گتھیاں سلجھانے میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا،جب کسی معاملہ میں رائے قائم کرتے تو اسی میں مفرکی صورت نکلتی۔ (مستدرک:۳،تذکرہ مغیرہؓ) ان کی تدبیر وسیاست کے بعض واقعات نہایت دلچسپ ہیں،عموماًاس قسم کے حکام کو رعایا پسند نہیں کرتی،مغیرہؓ بھی ان ہی میں تھے،حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ان کو بحرین کا گور نر بنایا تھا، یہاں کی رعایا نے ان کی شکایت کی، حضرت عمرؓ نے ان کو معزول کردیا، معزولی کے بعد چلتے چلتے رعایا نے ایک بڑی چوٹ یہ لگائی کہ ان کی آئندہ واپسی کے خطرہ کو روکنے کے لیے یہاں کے زمینداروں نے ایک لاکھ کی رقم جمع کرکے دربار خلافت میں پیش کی اور کہا کہ مغیرہؓ نے سرکاری محاصل سے خیانت کرکے ہمارے پاس جمع کرائی تھی،حضرت عمرؓ نے نہایت سختی سے باز پرس کی،معاملہ بہت نازک تھا، رقم موجود تھی، سینکڑوں شاہد تھے، کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہ تھی؛لیکن انہوں نے دماغی توازن قائم رکھا، اورنہایت اطمینان کے ساتھ کہا میں نے دولاکھ جمع کیے تھے، ایک لاکھ اس نے دبالیا، یہ سن کر زمین دار بہت گھبرایا اورحلف لے کر اپنی صفائی پیش کی،ورنہ ان کو دولاکھ بیت المال میں داخل کرنا پڑتے تھے،مگر یہ واقعہ مغیرہؓ کو بدنام کرنے کے لیے بنایا گیا تھا اس لیے تحقیقات سے غلط ثابت ہوا، حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا، تم نے دولاکھ کا کیوں اقرار کیا، بولے انہوں نے تہمت لگائی تھی اور اس کے سوا بدلہ لینے کی کوئی صورت نہ تھی۔ (اصابہ:۶/۱۳۲)