انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** متکلم وہ کلام کرنے والا ہے یعنی اس کو کلام کرنے کی صفت حاصل ہے کہ جس کے ذریعہ وہ کلام (بات)کرتا ہے لہذا وہ جس سے جس طرح چاہتا ہے جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے جس چیز سے منع کرنا چاہتا ہے تو اس سے منع کردیتا ہے اور جس چیز کو کروانا چاہتا ہے اس کا حکم دیتا ہے اور جس چیز کی خبر دینا چاہتا ہے ، خبر دیتا ہے اس لیے کہ گونگا ہونا ایسے دنیا بنانے والے کے لیے اور دنیا کے انتظامات کے لیے ایک مشکل امر ہوتا اور خود اس کی ذات میں ایک بہت بڑا عیب ہوتا اسی وجہ سے قرآن شریف میں اس نے اپنے واسطے اس صفت کو باربار ثابت کیا ہے ، انہیں آیات میں سے ایک آیت یہ ہے: "وَکَلَّمَ اللہُ مُوْسٰى تَکْلِــیْمًا" (النساء:۱۶۴) اللہ تعالی نے موسی سے کلام کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالی کا کلام ہمارے کلام کی طرح نہیں جو حروف وآواز وغیرہ سے بنتا ہے بلکہ وہ اس کی ایک صفت ہے جو اس کی ذات پاک کے ساتھ قائم ہے اور اس کو "کلام نفسی" کہتے ہیں اور کلام اصل میں اس مضمون اور معانی کو کہتے ہیں جو دل میں ہوتے ہیں؛ چنانچہ بنوامیہ میں ابتدائی عہد خلافت کا نصرانی اخطل شاعر کہتا ہے: انَّ الکَلَامَ لَفِی الفُؤَادِ وَاِنَّمَا جُعِلَ الِلسَانُ علَیٰ الفُؤَاد ّدلیْلًا (البیان والتبیین، باب شعر وغیرذلک من الکلام:۱/۱۲۳) ترجمہ:کلام دل میں ہوتا ہے اور زبان اس دل کے مضمون پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح حضور اکرمﷺ کے وصال کے بعد جب سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت میں جھگڑا ہوا تو اس کے متعلق حضرت عمرؓفرماتے ہیں: "اجْتَمَعَتْ الأَنْصَارُ عَلیٰ أَنْ یُأَمِّروا سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فَمَشَیْتُ الَیْھِمْ مَعَ أَبی بَکْر وَزَوَّرْتُ فِی نَفْسِی مَقَالَۃً فَتَکَلَّمَ اَبُوبکر وَلَمْ یَتْرُکْ مِمَّا زَورتُ شیئا" (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، باب ذکر بیعۃ العامۃ:۱/۱۱۴) اس عبارت میں محل استشہاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول"زَوَّرْتُ فِیْ نَفْسی مَقَالَۃً" ہے جس کے معنی یہ ہے کہ میں نے اپنے دل میں ایک کلام آراستہ کیا ، تو دیکھئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کلام کا محل نفس کو قرار دےرہے ہیں ، یہی کلام نفسی ہے اسی طرح عرف میں کہا جاتا ہے کہ میرے دل میں ایک بات ہے جومیں تم سے کہنا چاہتا ہوں۔ (شرح عقائد:۵۳، مطبوعہ:سہارنپور، یوپی) مذکورہ تمام صفات اللہ تعالی کی ذاتی صفات ہیں، ذاتی صفت وہ ہے جس کی ضد کے ساتھ اللہ تعالی کو متصف نہ کیا جاسکے مثلا وہ زندہ ،جاننے والے اورقادر ہیں، ان کو موت، جہل، اور عجز کے ساتھ متصف نہیں کیا جاسکتا ، اللہ کی حقیقی(اصلی)ذاتی صفات کل سات ہیں، جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے اورجس صفت کی ضد کے ساتھ بھی اللہ تعالی کو متصف کیاجاسکتا ہے وہ صفت فعلی ہے جیسے احیاء(زندہ کرنا) اور اماتت (مارنا) دونوں اللہ تعالی کی صفتیں ہیں صفات فعلیہ بہت سارے ہیں۔ (شرح الفقہ الاکبر،للشیخ ابی المنتھی مغنیسا وی:۱۰۸)