انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سمرہ بنؓ جندب نام ونسب سَمُرَہ نام ،ابو عبدالرحمان کنیت ،سلسلۂ نسب یہ ہے سمرہ بن جندب بن ہلال بن حریج بن مراہ بن حزن بن عمرو بن جابر بن ذوالریاستین خشین بن لای بن عاصم (عصیم) ابن شمخ بن فزارہ بن ذبیان بن بغیض بن ریث بن غطفان۔ حضرت سمرہؓ کے باپ ان کی صغر سنی میں فوت ہوئے،ماں ان کو لے کر مدینہ آئیں اور انصار میں نکاح کا پیام دیا، لیکن شرط یہ پیش کی کہ شوہر پر میری اور سمرہ دونوں کی کفالت ضروری ہوگی مری بن شیبا بن ثعلبہ نے اس کو منظور کیا اور عقد ہوگیا،سمرہؓ نے انہی کے ظلِ عاطفت میں تربیت پائی ۔ اسلام ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے۔ غزوات کم سنی کی وجہ سے بدر میں شرکت نہ کی ،احد میں انصار کے لڑکے معائنہ کی غرض سے آنحضرتﷺ کے سامنے پیش ہوئے،تو آنحضرتﷺ نے ایک لڑکے کو جنگ کے قابل سمجھ کر میدان میں جانے کے اجازت دیدی اور سمرہؓ کو واپس کردیا، سمرہؓ نے کہا آپ ان کو اجازت دیتے ہیں حالانکہ میں ان سے طاقتور ہوں، اوریقین نہ ہو تو کشتی لڑاکر دیکھ لیجئے، آنحضرتﷺ نے کشتی کا حکم دیا جس میں سمرہؓ نے اپنے مقابل کو اٹھا کر دے پٹکا آپ نے یہ دیکھ کر ان کو بھی میدان جنگ میں جانے کی اجازت دے دی۔ احد کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ عہد نبوی مدینہ میں بسر کیا، بعد میں بصرہ کی سکونت اخیتار کی ۵۰ھ میں جب مغیرہؓ بن شعبہ والی کوفہ کا انتقال ہوگیا، اورزیاد بن سمیہ بصرہ کے ساتھ کوفہ کا بھی والی ہوگیا تو اس نے حضرت سمرہؓ کواپنا نائب مقرر کیا وہ بصرہ اورکوفہ میں ۶،۶ ماہ رہتا تھا حضرت سمرہؓ بھی دونوں جگہ قیام فرماتے وہ بصرہ آتا تو یہ کوفہ اور وہ کوفہ پہنچتا تو یہ بصرہ چلے جاتے تھے۔ زیاد کا عہد حکومت ہر حیثیت سے یاد گار رہے گا، اس کے عہد میں امن وامان کا اس درجہ اہتمام تھا کہ کسی قسم کی شورش بصرہ اور کوفہ میں نشو ونما نہ پاسکی،انقلاب پسندوں کا ایک گروہ جو زمانہ قدیم سے موجود تھا، اُس نے ایک مرتبہ سر اٹھایا تو اچھی طرح اس کی سرکوبی کی گئی۔ خوارج جن کا ظہور جناب امیر ؓ کے عہد مبارک میں ہوا، نہایت مفسد اورشورہ پشت تھے باوجود اس کے کہ حضرت امیر ؓسے جنگ نہروان میں ان کو شکست ہوئی اور ان کے بڑے بڑے بہادر مارے گئے،لیکن پھر بھی پورے طور پر ان کا استیصال نہ ہوسکا، وقتا فوقتا سرکشی کرتے اور علم بغاوت بلند کرتے تھے ،بصرہ اورکوفہ ان کے مرکز تھے،زیاد کو ان کے قلع قمع کرنے کی بڑی فکر تھی، حسن اتفاق سے سمرہؓ بھی اس کے ہم خیال تھے اس بناء پر سمرہؓ نے خوارج کے قتل کا بالکل تہہیہ کرلیا،(طبری:۷/۹۱) صاحب اسدالغابہ لکھتے ہیں: كان إذا أتى بواحد منهم قتله، ويقول: شر قتلى تحت أديم السماء، يكفرون المسلمين، ويسفكون الدماء (اسد الغابہ،باب سمرۃ بن معیر:۱/۴۷۹) سمرہؓ کے پاس جو خارجی آتا قتل کراتے اورکہتے کہ آسمان کے نیچے یہ سب سے بد تر مقتول ہیں کیونکہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور خونریزی کرتے ہیں۔ خوارج اسی شدت اورعداوت کی وجہ سے حضرت سمرہؓ کو برا کہتے اوراُن کی روش پر اعتراض کرتے تھے ان کے مقابلہ میں فضلائے بصرہ کا ایک گروہ جس میں ابن سیرین اورحسن بصری بھی شامل تھے،ان کی تعریف کرتا اوران کی طرف سے جواب دیتا تھا۔ رمضان ۵۳ھ میں جب زیاد نے وفات پائی تو نظام حکومت میں بھی کچھ تغیر ہوا،بصرہ اور کوفہ دو جداگانہ صوبے قرار پائے اوردونوں کے الگ الگ والی مقرر ہوئے،حضرت سمرہؓ بصرہ کے والی مقرر ہوئے جو کم و بیش ایک سال تک اس منصب پر رہے اور ۵۴ھ میں امیر معاویہؓ کے حکم سے معزول ہوئے۔ وفات ۵۴ھ میں انتقال کیا ،جسم میں سردی سماگئی تھی،علاج کے لئے گرم پانی کی دیگ پر عرصہ تک بیٹھے رہے،لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، آخر اس نے مرض الموت کی صورت اختیار کرلی ایک روز شدت سے سردی محسوس ہوئی،آتش دانوں میں آگ جلوا کر چاروں طرف رکھوائی؛ لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا،فرمایا کیا بتلاؤں کہ پیٹ کی کیا حالت ہے ،غرض اس بے چینی میں دیگ پر بیٹھے اور کھولتے پانی میں گر کر انتقال فرما گئے،آنحضرتﷺ نے حضرت ابو ہریرہ ،ابو محذورہؓ اور سمرہؓ سے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ تم تینوں میں سب کے بعد مرنے والا آگ میں جل کر مرے گا؛چنانچہ حضرت سمرہؓ کی وفات سے اس پیشنگوئی کی تصدیق ہوگئی۔ اولاد اولاد کی صحیح تعداد معلوم نہیں دو لڑکوں کے نام یہ ہیں ،سلیمان، سعد۔ فضل وکمال حضرت سمرہؓ فضلائے صحابہؓ میں تھے اور باوجود یکہ عہد نبوت میں صغیر السن تھے،سینکڑوں حدیثیں یاد تھیں، استیعاب میں ہے۔ کان من الحفاظا المکثر ین عن رسول اللہ ﷺ وہ حدیث کے حافظ اورآنحضرتﷺ سے کثیر روایت کرتے تھے۔ تہذیب التہذیب میں ہے کہ ان کی احادیث کا ایک بڑا نسخہ ان کے بیٹے کے پاس تھا۔ (تہذیب :۴/۱۹۸) سیرین کہتے ہیں کہ یہ رسالہ علم کے بہت بڑے حصہ پر مشتمل تھا۔ (اسدالغابہ:۲/۳۵۴) حضرت سمرہؓ کو احادیث یاد رکھنے میں خاص اہتمام تھا،حافظہ غیر معمولی تھا جس بات کا ارادہ کرتے یاد ہوجاتی تھی، آنحضرتﷺ نماز میں دو جگہ ٹھہرا کرتے تھے،ایک تکبیر کے بعد جب سبحانک اللہم پڑہتے ،دوسرے "ولاالضالین" کے بعد جب آمین کہتے یہ حضرت سمرہؓ کو یاد تھا اوروہ اس پر عامل بھی تھے، حضرت عمران ؓ بن حصین جو ان سے معمر تھے بھول گئے تھے، سمرہؓ نے نماز میں اس پر عمل کیا تو معترض ہوئے حضرت ابی بنؓ کعب کو مدینہ خط لکھا گیا انہوں نے جواب دیا سمرہ کو ٹھیک یاد ہے۔ (مسند:۵/ ) اسی طرح خطبہ میں ایک حدیث روایت کی ،ثعلبہ بن عباد عبدی موجود تھے ،کہتے ہیں کہ جب دوبارہ بیان کی تو الفاظ میں کہیں بھی تفاوت نہ تھا (ایضا) بایں ہمہ قوت حفظ روایت حدیث میں محتاط تھے، مسند احمد میں ہے: إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أَتَكَلَّمَ بِكَثِيرٍ مِمَّا كُنْتُ أَسْمَعُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ هَاهُنَا مَنْ هُوَ أَكْثَرُ مِنِّي وَكُنْتُ لَيْلَتَئِذٍ غُلَامًا وَإِنِّي كُنْتُ لَأَحْفَظُ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ (مسند احمد،باب ومن حدیث سمرۃ بن جندب عن النبی،حدیث نمبر:۱۹۳۴۷) میں نے آنحضرتﷺ سے بہت کچھ سنا ہے؛ لیکن اس کو بیان کرنے میں اکابر صحابہ کا ادب مانع ہوتا ہے یہ لوگ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں ،میں آنحضرتﷺ کے زمانہ میں لڑکا تھا تاہم جو کچھ سنتا تھا یاد رکھتا تھا۔ کبھی کبھی احادیث روایت کرتے اورکسی کو کوئی شبہ ہوتا تو اس کا جواب دیتے تھے، ایک شخص نے آنحضرتﷺ کے ایک معجزہ کو سنا اورپوچھا کہ کیا کھانا زیادہ ہوگیا تھا؟ بولے تعجب کی کیا بات ہے؟ لیکن وہاں (آسمان) کے سوا اورکہیں سے نہیں بڑھا تھا۔ (مسند:۱۸) حضرت سمرہؓ نے آنحضرتﷺ اورحضرت ابو عبیدہؓ بن جراح سے روایتیں کی ہیں، کتابوں میں ان کی سند سے کل (۱۲۳) حدیثیں مندرج ہیں، راویوں کے نام حسب ذیل ہیں: حضرت عمرانؓ بن حسین،شعبی، ابن ابی لیلیٰ، علی بن ربیعہ ،عبداللہ بن بریدہ ،حسن بصری،ابن سیرین،مطرف بن شخیر،ابو العلاء،ابورجاء،قدامہ بن دبرہ،زید بن عقبہ، ربیع بن عمیلہ ،ہلال بن لیاف ابو نضرۃ العبدی ،ثعلبہ بن عباد۔ اخلاق حضرت سمرہؓ میں بہت سی اخلاقی خوبیاں تھیں، وہ نہایت امانت دار ،راست گو اوربہی خواہِ اسلام تھے۔ (استیعاب:۲/۵۷۹) پچھنا لگانا آنحضرتﷺ کی سنت ہے اس پر عملدرآمد کرتے تھے۔ (مسند:۵/۱۸) عرب میں احنف نامی ایک شخص نے ایک خاص قسم کی تلوار تھی ،سمرہؓ نے اس کی نقل بنوائی ان کے شاگردوں میں ابن سیرین نے بھی اس کی نقل لی تھی۔ آنحضرتﷺ نماز میں جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا، دو جگہ سکوت کرتے تھے ،حضرت سمرہؓ کا بھی اس پر عمل تھا۔