انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یہود خیبر غزوۂ خندق کی عبرتناک شکست اور بنوقریظہ کی شدید ناکامی کے بعد بھی یہود کوتنبیہ نہیں ہوئی اور وہ دوبارہ خیبر اور اس کے آس پاس کے قبائل میں جنگ کی آگ بھڑکانے کی فکر میں لگ گئے، اس وقت یہودِ خیبر کا سردار اسیربن رزام تھا، اس نے تمام عرب قبائل میں دَورہ کیا اور مدینہ پرحملہ کرنے کےلیے اُن کواُبھارا، یہود کے سامنے تقریر کی کہ ہمارے پیشروؤں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابلے کے لیے جوتدبیریں اختیار کیں، وہ غلط تھیں، صحیح تدبیر یہ ہے کہ خود محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مرکز حکومت پرحملہ کیا جائے اور میں یہی طریقہ اختیار کروں گا۔ (زرقانی:۲/۱۹۶) امام سرخسی کے ایک بیان سے پتہ چلتا ہے کہ یہود خیبر اور اہلِ مکہ کے درمیان بھی ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھا، ان کے الفاظ یہ ہیں: لِمَا كَانَ بَيْنَ أَهْلِ مَكَّةَ وَأَهْلِ خَيْبَرَ مِنْ الْمُوَاطَأَةِ عَلَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا تَوَجَّهَ إلَى أَحَدِ الْفَرِيقَيْنِ أَغَارَ الْفَرِيقُ الْآخَرُ عَلَى الْمَدِينَةِ۔ (شرح السیرالکبیر،بَابُ الْأَمَانِ:۱/۳۱۵، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اہلِ مکہ اور اہلِ خیبر (یہود) کے درمیان یہ معاہدہ تھا کہ اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں سے کسی فریق پرحملہ کریں تودوسرا فریق اس کی جنگی مدد کرے گا۔ ایک طرف یہود کے مکروفریب کا یہ جال بچھا ہوا تھا، دوسری طرف خود اہلِ مکہ غزوۂ خندق کی ذلت انگیز شکست کے بعد انتقالم کی تیاریاں کررہے تھے، جس کی اطلاعیں برابر بارگاہِ رسالت میں پہنچتی تھیں، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے بیک وقت دونوں دشمنوں سے مقابلہ کرنا آسانان نہ تھا، دوسرے اس وقت اہلِ مکہ سے کہیں زیادہ اہلِ خیبر کی طرف سے حملہ کا خطرہ تھا، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تواہلِ مکہ سے حدیبیہ میں صلح کرلی؛ تاکہ دشمن کا ایک بازوبیکار ہوجائے، امام سرخسی لکھتے ہیں: فَوَادَعَ أَهْلَ مَكَّةَ حَتَّى يَأْمَنَ مِنْ جَانِبِهِمْ۔ (شرح السیرالکبیر، بَابُ الْأَمَانِ:۱/۳۱۵، شاملہ، ،موقع الإسلام) ترجمہ: اہلِ مکہ سے آپ نے معاہدہ صلح کرلیا جس سے آپ کوغنیم کے ایک گروہ کی طرف سے اطمینان ہوگیا۔ اور اہلِ خیبر کے خلاف جارحانہ اقدام کردیا؛ چونکہ یہ معرکہ مختلف حیثیتوں سے بہت سخت تھا اس لیے آپ نے مدینہ میں یہ اعلان فرمادیا کہ: لَايَخْرُجَنّ مَعَنَا إلّارَاغِبٌ فِي الْجِهَادِ۔ (المغازی،غزوة خيبر:۱/۲۵۵، شاملہ، موقع الوراق) ترجمہ:صرف وہی لوگ ساتھ چلیں جن کی نیت جہاد کی ہو۔ اس کے دومقصود تھے، ایک یہ کہ بزدل، غنیمت کے حریص اور منافقین نہ جانے پائیں اور دوسرا یہ کہ لوگوں کویہ معلوم ہوجاے کہ یہ اقدام ملک گیری کے لیے نہیں؛ بلکہ اعلاء کلمۃ اللہ اور حفاظت خود اختیاری کے لیے ہے۔ مسلمان مدینہ سے خیبر کے لیے روانہ ہوئے تویہود کے بعض حلیف قبیلوں نے راستہ میں ان سے کچھ چھیڑ چھاڑ کرنی چاہی؛ مگرمسلمان ان تمام موانع سے بچتے ہوئے خیبر پہنچ گئے، اُوپر ہم لکھ چکے ہیں کہ خیبر کے یہود نہایت مالدار اور جنگی حیثیت سے نہایت مضبوط تھے ان کے پاس متعدد نہایت مضبوط اور مستحکم قلعے تھے، جن میں یعقوبی کے بیان کے مطابق بیس ہزار مسلح سپاہی موجود تھے، اس سے پہلے مسلمانوں کواتنا سخت کوئی معرکہ پیش نہیں آیا تھا، تقریباً تین ہفتہ تک مسلسل جنگ ہوتی رہی، مسلمانوں کوبہت سخت مقابلہ کرنا پڑا، یہود قلعہ بند ہوکر لڑرہے تھے؛ پھران کے پاس منجنیقیں تھیں، جنھیں وہ اس موقع پراستعمال کررہے تھے؛ لیکن آخر کار یہود کے یہ تمام قلعے جن پران کوناز تھا، یکے بعد دیگرے فتح ہوگئے اور ان کوشکستِ فاش اُٹھانی پڑی۔ خیبر کے یہود کی گذشتہ ریشہدوانیاں توایسی تھیں کہ وہ کسی رعایت اور مروت کے مستحق نہیں تھے؛ مگررحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہ کہ ان کے ساتھ کوئی سختی نہیں کہ بلکہ ان کے ساتھ بہت خیرخواہانہ اور فیاضانہ سلوک کیا، ان کے قلعے، مکانات، باغات سب واپس کردیے، ان کی زمینیں ان کے پاس رہنے دیں اور طے کیا کہ ان میں جوپیداوار ہوگی اس کا نصف حصہ وہ برابر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کودیتے رہیں گے، اس ضمن میں دوایک واقعے قابل ذکر ہیں، اثنائے جنگ میں یہودیوں کا ایک چرواہا جس کے ساتھ جانوروں کا ریوڑ بھی تھا، آکرمسلمان ہوگیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم نے اس سے فرمایا کہ جاؤ جانوروں کوان کے مالک کے پاس پہنچا آؤ۔ دورانِ جنگ میں تورات کے کچھ نسخے مسلمانوں کے ہاتھ آگئے تھے وہ ان کوواپس کردیے گئے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی:۳۴۱) یہاں تک رعایت کی گئی کہ خیبر میں کوئی مسلمان امیر تک نہیں مقرر کیا گیا؛ بلکہ مسلمان تحصیلدار سال بسال وہاں جاتے تھے اور غلہ وصول کرتے تھے، وہ غلہ کی وصولی میں اس قدر عدل وانصاف برتتے تھے کہ غلہ کودوحصوں میں برابر تقسیم کردیتے تھے اور یہودیوں سے کہتے کہ ان میں سے جوچاہو لے لو، یہ دیکھ کریہود کہتے کہ اسی عدل وانصاف کی وجہ سے زمین وآسمان قائم ہیں۔ (مبسوط، سرخسی:۲۳/۷) اس موقع پرایک طویل بحث یہود کے خیبر چھوڑ نے کی بھی ہے؛ مگرہم اس کوبخوف طوالت نظر انداز کرتے ہیں، حجاز کے دوسرے حصوں کے یہود جنگ خیبر کے نتیجہ کا انتظار کررہے تھے، جوان کے ہم مذہبوں کی شکست کی صورت میں برآمد ہوا، ان کی شکست اور سقوط خیبر کے بعد ہمیشہ کے لیے حجاز سے یہود کا سیاسی اور جنگی زور ختم ہوگیا، امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: وَأَنَّ الْيَهُودَ بِالْحِجَازِ كَانُوا يَنْتَظِرُونَ مَا يَئُولُ إلَيْهِ حَالُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَهْلِ خَيْبَرَ، فَقَدْ كَانُوا أَعَزَّ الْيَهُودِ بِالْحِجَازِ...... فَلَمَّا صَارُوا مَقْهُورِينَ ذَلَّتْ سَائِرُ الْيَهُودِ، وَانْقَادُوا۔ (المبسوط:۲۶/۱۵۷، شاملہ، موقع الإسلام، المؤلف: محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي) ترجمہ:حجاز کے تمام یہود اہلِ خیبر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جوجنگ تھی اسکے نتیجہ کا انتظار کررہے تھے، اس لیے کہ خیبر کے یہود حجاز کے یہودیوں میں سب سے زیادہ غالب، معزز اور صاحب اثر تھے، جب وہ مغلوب ہوگئے توسارے یہودی منقاد ومطیع ہوگئے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی فدک، تیمار، وادی القریٰ اور بنوعذرہ کے یہودیوں نے یکے بعد دیگرے اطاعت قبول کرکے صلح کرلی، حجاز سے باہر مُقْنَا، جرباء، آذرُح وغیرہ میں جویہود تھے، ان میں سے بیشتر نے سنہ۸ھ اور سنہ۹ھ کے درمیان اطاعت قبول کی، غرض یہ ہے کہ خیبر کی شکست کے بعد یہود کی قوت وعزت کا خاتمہ ہوگیا اور پھرا ُن کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ ابھی یہود بعدازاسلام کی تاریخ کے بہت سے گوشے، مثلاً اسلامی علوم وفنون کی ترقی وخدمت میں انھوں نے کیا حصہ لیا، اس کے کیا مفید ومضراثرات مرتب ہوئے، مسلمانوں کے تمدن ومعاشرت پرانھوں نے کیا اثرڈالا اور اسلامی تمدن ومعاشرت سے انھوں نے کیا اثرات قبول کیے، وغیرہ تشنۂ تفصیل ہیں؛ لیکن ہم کوناظرین کتاب کی واماندگی نظر کا احساس ہے، اس لیے اس موضوع کوکسی اور فرصت کے لیے اُٹھارکھتے ہیں اور نصاریٰ کی تاریخ کی طرف توجہ کرتے ہیں، جوا س مقدمہ کا دوسرا اہم حصہ ہے۔