انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** انصارؓ قبل از اسلام انصار کا نسب نامہ اہلِ عرب تین بڑے قبیلوں میں منقسم ہیں، بائدہ، عاربہ، مستعربہ، بائدہ میں وہ قبائل شامل ہیں جنھوں نے طوفانِ نوحؑ کے بعد عرب میں حکومت کی اور ناپید ہوگئے، عاد، ثمود، عمالقہ، طسم، جدلیس وغیرہ انہی میں داخل ہیں، عاربہ سے وہ قبائل مراد ہیں جوبائدہ کے ہمعصر تھے اور ان کے بعد عرب کے مالک ہوئے، قحطان، سبا، حمیر، معین وغیرہ ان کی شاخیں ہیں، مستعربہ سے وہ خاندان مراد ہیں جوحضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے اور عرب کے شمالی حصہ میں بودوباش رکھتے تھے، انصار کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ عرب عاربہ کی اولاد ہیں، اس بناء پر عرب کے تمام نساب ان کے نسب نامے قحطان بن عابر تک پہنچاتے ہیں، جوعربِ عاربہ کا مورث تھا؛ لیکن قحطان پر پہونچ کر اختلاف شروع ہوتا ہے اور نسابہ عرب دوگروہ میں منقسم ہوجاتے ہیں: (۱)ایک گروہ کہتا ہے کہ قحطان خود ایک مستقل خاندان کا بانی تھا اور اس کا سلسلۂ نسب یہ ہے، قحطان بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام، اس کے نزدیک قحطان اور یقطن جس کا ذکر بائبل میں آیا ہے ایک ہیں۔ (۲)دوسرا گروہ قحطان کوکوئی علیحدہ شاخ نہیں مانتا؛ بلکہ نابت بن اسماعیل کی اولاد بتاتا ہے؛ چنانچہ کلبی نے اپنے باپ سے یہی روایت کی ہے کہ: "إنه أدرك أهلَ العلم بالنسب ينسبون قحطان إلى إسماعيل بن إبراهيم عليهما السلام"۔ (الانساب للصحاری:۱/۶۷، شاملہ۔ ذیل طبری:۳/۳۴۰۰) انہوں نے اہلِ علم اور نسابین کوقحطان کی نسبت یہی فیصلہ کرتے پایا ہے۔ کلبی کے علاوہ بعض اہلِ یمن بھی اس کے مدعی ہیں؛ لیکن ہمارے نزدیک یہ راے حددرجہ کمزور ہے اور اس کی تردید میں صرف یہ کہنا کافی ہے کہ تمام اہلِ یمن اس کے مخالف ہیں؛ چنانچہ مورخ مسعودی لکھتا ہے کہ: "وسائر اليمانية تأبى ذلك وتذهب إلى أنه قحطان بن عابر"۔ (التنبیہ ولإشرف:۸۱) یعنی تمام اہلِ یمن اس کے منکرہیں اور قحطان کو عابر کا بیٹا سمجھتے ہیں۔ دوسری جگہ ہے: "والقوم أعرف بأنسابهم ينقله الباقي عن الماضي قولاً وعملاً موزوناً إنهم من ولد قحطان بن عابر لايعرفون غير ذلك"۔ (التنبیہ ولإشرف:۱/۳۲، شاملہ، موقع الوراق) اہلِ یمن اپنے نسب کو زیادہ جانتے ہیں اور سلسلہ بہ سلسلہ نقل کرتے آئے ہیں وہ قحطان بن غابر کی نسل سے ہیں، ان کے سوا ان کا کوئی ہم خیال نہیں۔ البتہ پہلے خیال سے ہم کو اتفاق ہے، قحطان ایک مستقل قوم اور ایک مستقل سلطنت کا بانی تھا، یمن میں اس کی اولاد موجود تھی اور سیکڑوں برس تک برسرِ حکومت رہا تھا؛ لیکن یہ کہنا کہ انصار بھی قحطان کی اولاد ہیں ہمارے نزدیک صحیح نہیں اور یہ وہ خیال ہے جس کی تردید نہایت مشکل ہے۔ نسابہ عرب میں جولوگ انصار کو قحطان کی اولاد مانتے ہیں، ان کے دلائل اگرچہ کسی تاریخ میں مذکور نہیں تاہم ایسے مواقع پر وہ اشعار عرب سے استناد کرتے ہیں، اس بناء پر ہم اس دعویٰ کی تقویت کے لیے چند اشعار بھی درج کرتے ہیں، حضرت حسانؓ کا شعر ہے ؎ "تعلمتمُ من منطقِ الشّيخِ يعربِ أبينا، فصرتم معربين ذوي نفرِ" (العرب واطوارہم:۳۱۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام:۱۸/۳۰۳، شاملہ،موقع مكتبة المدينة الرقمية) اس میں اگرچہ قحطان کا نام مذکور نہیں تاہم چونکہ یہ عدنانیوں (اسماعیلیوں) کے مقابلہ میں کہا گیا ہے، اس لیے ضرور ہے کہ یعرب، قحطان کی اولاد سے ہو اور تھا، عبدالرحمن بن حسان یانعمان بن بشیر کا شعر ہے ؎ "لنا من بني قحطان سبعون تبعاً أقرت لها بالخرج منها الأعاجم" (التنبیہ والإشرف:۱۸۵) لیکن یہ دونوں شعر صحت کے لحاظ سے بالکل مشکوک ہیں، پہلا شعر جوحضرت حسانؓ کی طرف منسوب ہے، ان کے دیوان میں موجود نہیں اور حسانؓ کے اشعار کی نسبت عام فیصلہ ہے کہ: "تنسب إليه أشياء لاتصح عنه"۔ (الاستیعاب:۱/۱۳۵) ان کی طرف بہت سے ایسے اشعار منسوب ہیں جو ان سے ثابت نہیں۔ دوسرے شعر کی یہ کیفیت ہے کہ خود کہنے واے کا پتہ نہیں؛ پھرمضمون ایسا ہے کہ اس کو دیکھ کر ہنسی آجاتی ہے، عبدالرحمان ہوں یانعمان کوئی بھی اتنا صریح جھوٹ گوارا نہیں کرسکتا تھا، ہمارا خیال ہے کہ انصار قحطانی نہیں؛ بلکہ نابت بن اسماعیل کی اولاد ہیں، یعنی وہ عربِ عاربہ نہیں؛ بلکہ مستعربہ ہیں، یہ خیال مؤرخین اور نسابین کے خیال سے بالکل جدا ہے اور ہم اس کو کسی قدر پھیلاکر لکھنا چاہتے ہیں؛ لیکن قبل اس کے کہ ہم اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوں، یہ بتلانا ضروری ہے کہ اس باب میں ہمارا طریقۂ استدلال کیا ہوگا؟ مؤرخینِ عرب کسی قبیلہ کے نسب کو ثابت کرنے میں عموماً دوچیزوں سے مدد لیتے ہیں: (۱)نسابین کی روایت (۲)شعرائے قبیلہ کے اشعار اور یہ دونوں چیزیں تنہا قابلِ اعتماد نہیں، نسابین کی روایتیں اس درجہ لغو اور مہمل ہوتی ہیں کہ ان پر مشکل سے یقین آسکتا ہے، پرانے نسب نامے اٹھاکر دیکھو تومعلوم ہوگا کہ تمام عالم آبائے تورات کے اندر سمٹ آیا ہے، مثلاً "منوچہر" حضرت اسحاق علیہ السلام کا پرپوتا ہے (ابنِ اثیر:۱/۱۱۵،۱۱۶) "صنہاجہ، کتامہ" سبا کی اولاد ہیں، ہند، یونان، ترک جوخود نہایت قدیم قومیں ہیں، سام، حام اور یافث کی اولاد ہیں، قحطان بن عابر (یہودیوں کے نزدیک) حام کی اولاد ہے، وغیرذلک، یمن کے تبع، الحارث الرایش کے نسب نامہ میں اس درجہ اختلاف ہے کہ دومورخ بھی ایک رائے سے متفق نہیں؛ یہاں تک کہ طبری نے ایک جگہ اس کو سباء اصغر کی اولاد بتایا ہے؛ لیکن دوسرح جگہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اس پر قائم نہیں ہیں، وقس علی ہذا۔ اشعار عرب پر بے شک اعتماد ہوسکتا تھا؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کے بھی صحیح ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے، یہ ظاہر ہے کہ عرب بالکل امی تھے اور ان میں لکھنے پڑھنے کا بہت کم رواج تھا، اس بناء پران کے پاس قدماء کا ذخیرہ؛ کیونکر محفوظ رہ سکتا تھا؟ یہی وجہ ہے کہ جاہلیت کاجوکچھ کلام ہم تک پہنچا ہے، بہت کم ہے اور وہ بھی اسلام سے صدی دوصدی آگے کا نہیں، اس کے علاوہ عرب میں بہت سے ایسے خاندان بھی تھے، جن کے نسب نامے گڈمڈ ہوگئے؛ چنانچہ نعمان بن منذر شاہ حیرہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ قبیلہ لخم سے تھا؛ لیکن جبیرؓ نے حضرت عمرؓ کے سامنے اس کو عجم بن قبص کی اولاد بتایا (طبری:۵/۲۴۵۵) قضاعہ، انمار، بجلیہ، اسماعیلی اور نزاری تھے اور مکہ ہی سے یمن گئے تھے؛ لیکن امتدادزمانہ اور جہالت کے باعث قحطانیوں میں ضم ہوگئے اور جدید نسب نامے تیار کرلیے (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۸،۱۱،۴۶) اوروں کا بھی یہی حشر ہوا، جن میں غسان، خزاعہ اور انصار بھی داخل ہیں، ایسی صورت میں ان قبائل کے شعراء اگر اپنے نسب نامے کسی غیرنسل تک پہنچائیں اور اس کو اشعار میں ظاہر کریں توان کا کہاں تک اعتبار کیا جاسکتا ہے؟۔ اصل یہ ہے کہ انصار کے نسب نامہ میں سخت دقتیں واقع ہوگئی ہیں، جن کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم قدیم طرزِ استدلال کوچھوڑ کر تحقیق وتفتیش کی ایک نئی راہ نکالیں، جونہایت صاف واضح اور مستقیم ہو؛ چنانچہ اس کے لیے ہم نے حسبِ ذیل ماخذ قرار دیئے ہیں: (۱)قرآن مجید (۲)احادیثِ صحیحہ (۳)اشعار عرب جو روایت اور درایت کے اصول سے صحیح ہوں (۴)اکتشافاتِ اثریہ۔ (۱)قرآن مجید سے اگر کوئی چیز ثابت ہوجائے تواس کی صحت میں کوئی مسلمان شک نہیں کرسکتا؛ لیکن دقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں صرف ان قوموں کے نام آئے ہیں جن کے حالات نہایت مؤثر اور عبرت خیز ہیں اور چونکہ انصار اور تمام اسماعیلیوں نے جاہلیت میں کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے؛ اِس لیے قرآن مجید میں ان کا ذکر کیونکر آسکتا ہے۔ (۲)حدیث میں البتہ انصار کے متعلق کچھ اشارے اور تصریحیں موجود ہیں، مثلاً حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے کہ: "عَنْ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَع رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا"۔ (بخاری، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب التَّحْرِيضِ عَلَى الرَّمْيِ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى،حدیث نمبر:۲۶۸۴، شاملہ،موقع الإسلام) سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ بنو اسلم کے پاس سے گذرے جوتیراندازی میں مصروف تھے اور فرمایا: آلِ اسماعیل! تیرپھینکو؛ کیونکہ تمہارا باپ قدرانداز تھا۔ اسلم کا قبیلہ عرب میں خزاعہ کی اولاد مشہور تھا اور خزاعہ، حارثہ بن مزیقیاء کا بیٹا ہے، جوبقول نسابین قحطانی عرب تھا؛ چنانچہ امام بخاریؒ نے بھی اسلم کا نسب نامہ اسی طرح نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے: اسلم بن افصیٰ بن حارثہ بن عمرو بن عامر (بخاری، كِتَاب الْمَنَاقِبِ، بَاب نِسْبَةِ الْيَمَنِ إِلَى إِسْمَاعِيلَ مِنْهُمْ أَسْلَمُ بْنُ أَفْصَى بْنِ حَارِثَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ مِنْ خُزَاعَةَ، شاملہ،موقع الإسلام) اور اس کے بعد لکھا ہے "مِنْ خُزَاعَۃَ" ہم کو اس وقت اس نسب نامہ کی صحت اور سقم سے بحث نہیں ہے، مقصود یہ ہے کہ ایک مسلم الثبوت قحطانی خاندان کوآنحضرتﷺ نے اسماعیلی فرمایا اور تمام مجمع نے اس کو قبول کیا۔ دوسری حدیث حضرت ابوہریرہؓ کی ہے وہ حضرت ہاجرہؓ کے حالات بیان کرنے کے بعد انصار سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: (فتح الباری، بَاب نِسْبَةِ الْيَمَنِ إِلَى إِسْمَاعِيلَ مِنْهُمْ أَسْلَمُ بْنُ أَفْصَى بْنِ حَارِثَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ مِنْ خُزَاعَةَ:۳/۳۹۱) "قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَتِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ"۔ (بخاری، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب اتِّخَاذِ السَّرَارِيِّ وَمَنْ أَعْتَقَ جَارِيَتَهُ ثُمَّ تَزَوَّجَهَا، حدیث نمبر:۴۶۹۴، شاملہ،موقع الإسلام) ابوہریرہؓ نے کہا کہ اے ماء السماء کے بیٹوٍ! یہ تمہاری ماں تھیں۔ ماء السماء "عامر" کا لقب ہے، جو "مزیقیاء" کا باپ تھا، ظاہر ہے کہ اگریہ واقعہ نہ ہوتا تو نہ صرف ابوہریرہؓ اس کو بیان کرسکتے اور نہ انصار میں اس کوکوئی سن سکتا، اس حدیث کے ساتھ اگر وہ حدیث بھی ملاؤ جس میں غیرکے نسب میں داخل ہونیوالے کوجہنم میں جانے کی خبر دی گئی ہے تویہ مسئلہ اور بھی زیادہ صاف ہوجاتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیثیں بخاری میں متعدد جگہ آئی ہیں اور صحت کے لحاظ سے اس درجہ کی ہیں کہ ان میں شک نہیں کیا جاسکتا، اس بناء پر ان سے زیادہ انصار کے اسماعیلی ہونے پر اور کوئی شہادت نہیں پیش کی جاسکتی؛ انہی وجوہ سے خطابی نے اہلِ یمن کواسماعیلی کہا ہے، بخاریؒ نے جامع صحیح میں ایک مستقل باب باندھا ہے، جس کا نام "بَاب نِسْبَةِ الْيَمَنِ إِلَى إِسْمَاعِيلَ مِنْهُمْ أَسْلَمُ بْنُ أَفْصَى بْنِ حَارِثَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ مِنْ خُزَاعَةَ" ہے، ابن حجر تحقیق وکاوش کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں "هَذَا هُوَ الَّذِي يَتَرَجَّح فِي نَقْدِي" (فتح الباری، بَاب نِسْبَةِ الْيَمَنِ إِلَى إِسْمَاعِيلَ مِنْهُمْ أَسْلَمُ بْنُ أَفْصَى بْنِ حَارِثَةَ:۱۰/۳۰۷، شاملہ، موقع الإسلام) قاضی عیاض بھی اسی کی طرف مائل ہیں۔ (عمدۃ القاری، عرف عینی:۲۵۵، مطبوع: مصر) لیکن اِن بزرگوں کی رایوں میں کچھ مبالغہ ہے، مذکورہ بالا حدیثوں میں صرف دو قبیلوں کی نسبت تصریح آئی ہے، اس لیے ہم کو یہیں توقف کرنا چاہیے، اصل یہ ہے کہ یمن میں کچھ قبیلے یقیناً اسماعیلی تھے جوقحطانی مشہور ہوگئے تھے؛ لیکن اس سے تمام یمن اور خود قحطان کا اسماعیلی ہونا لازم نہیں آتا۔ (۳)اشعارِ عرب میں سے دوشعر ہمارے پاس نہایت مستند ذریعہ سے پہنچے ہیں، جو حضرت حسانؓ کے دادا منذر بن غمرو کے ہیں، وہ کہتا ہے ؎ وَرِثْنَا مِنْ الْبُهْلُول عَمْرو بْن عَامِر مَآثِر مِنْ آلِ اِبْن بِنْت اِبْن مَالِك وَحَارِثَة الْغِطْرِيف مَجْدًا مُؤَثَّلًا وَبِنْت اِبْن إِسْمَاعِيل مَا إِنْ تَحَوَّلَا (فتح الباری،بَاب نِسْبَةِ الْيَمَنِ إِلَى إِسْمَاعِيلَ مِنْهُمْ أَسْلَمُ بْنُ أَفْصَى بْنِ حَارِثَةَ:۱۰/۳۰۷، شاملہ، موقع الإسلام) اس میں شاعر نے اپنے تمام سربرآوردہ بزرگوں کے اس ترتیب سے نام لیے ہیں، عمرو بن عامر، حارثۃ الغطریف، نابت بن مالک اور پھر نابت بن اسماعیل؛ اسی شاعر کی ابوطاہر مقدسی نے جونہایت قدیم مصنف ہے، ایک روایت بھی نقل کی ہے اور وہ یہ ہے: "وقال المنذر بن حرام جد حسان بن ثابت بن المنذر في الجاهلية العمياء يذكر نسبهم إلى غسان ثم إلى نابت بن مالك ثم إلى نبت بن اسمعيل بن ابرهيم"۔ (کتاب البدء والتاریخ "لابی طاہر المقدسی" المنسوب الی ابی زید البلخی:۴/۱۲۲،۱۲۳۔الکامل فی التاریخ:۱/۲۳۰،شاملہ،موقع الوراق) حسان بن ثابت کا دادا منذر بن حرام جوخالص زمانۂ جاہلیت میں تھا (اُن کا اوراوس وخزرج کا) نسب غسان تک اور غسان سے نابت بن مالک تک اور نابت بن مالک سے نابت بن اسماعیل بن ابراہیم تک پہنچاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منذر اپنے کوغسان کا ہم نسب سمجھتا تھا اور ان کا سلسلہ قحطان کے بجائے نابت بن اسماعیل تک پہنچاتا تھا اب اگر اس کے ساتھ اتنا اور بڑھایا جائے کہ یہ شاعر شاہانِ غسان کا معاصر تھا اور یہ اشعار انہی کے زمانہ میں لکھے گئے تو انصار اور آلِ غسان کے نسب کے متعلق اس سے موثوق ترشہادت کوئی نہیں مل سکتی۔ (۴)اکتشافات اثریہ میں ہمیں حسبِ ذیل چیزوں سے بحث کرنا ہے: (۱)نظامِ اجتماعی یاطرزِ بودوماند (۲)زبان (۳)مذہب (۴)نام (۵)قرابت (۶)شکل وصورت۔ (۱)نظامِ اجتماعی سامی زبانوں میں عرب کے معنی صحرا اور بادیہ کے ہیں اس بناء پر عرب درحقیقت وہ ہیں جوبدوی بھی ہوں؛ یہی وجہ ہے کہ فراعنہ، اشوریوں اور فینیقیوں کے زمانہ میں عرب صرف شمالی حصہ کا نام تھا، جونیل سے دریائے فرات تک پھیلا ہوا ہے (ہیروڈوٹس:۱۱۲) اور یہ مسلم ہے کہ یہاں قاطبتاً اسماعیلی عربوں کی آبادی تھی، انصار کی تاریخ پر غور کروتو معلوم ہوگا کہ ان کی زندگی بھی مدت تک بدویانہ رہی ہے؛ چنانچہ وہ نابت بن اسماعیل کی وفات کے بعد یمن گئے ہیں اور سنہ۲۰۰ء تک یعنی تقریباً ڈھائی ہزار برس عرب کے مختلف حصوں میں مارے مارے پھرے ہیں، قدیم تاریخ کوچھوڑ کر اگر صرف مزیقا اور اس کی اولاد ہی کو دیکھو تومعلوم ہوگا کہ اس زمانہ سے یثرب کے قیام تک ان لوگوں نے سیکڑوں مقامات کی خاک چھانی ہے؛ چنانچہ ان مقامات کے نام ہم نے انصار کی تاریخ میں لکھ دیئے ہیں، اس بدویت کے ساتھ انصار میں کسی قدر حضریت بھی پیدا ہوگئی تھی، یعنی وہ مدینہ آکرکاشت کرتے تھے، قلعے بناتے تھے اور یہ ان کے قبطی ہونے کا اثر تھا اور اپنی حفاظت کے لیے قلعے تیار کرتے تھے۔ (۲)زبان قحطانیوں اور اسماعیلیوں میں دوسرا فرق زبان کا ہے، قحطانیوں یااہلِ یمن کی زبان حمیری تھی اور وہ حجاز کی زبانوں سے بہت مختلف تھی؛ چنانچہ مورخ مسعودی نے اس کی صاف تصریح کی ہے "ووجدنا لغة ولد قحطان بخلاف لغة ولد نزار بن معد" (مروج الذہب:۱/۱۹۸، شاملہ، موقع الوراق) ہمدانی نے اس کو اور بھی مفصل بیان کیا ہے، مثلاً ایک یمنی قبیلہ (خشب) کی زبان کے متعلق لکھتے ہیں: "والخشب عربي يخلط حميرية، خیوان کی نسبت، فصحاء وفيهم حميرية كثيرة، اہلِ صنعا، في أهلها بقايا من العربية المحضة ونبذ من كلام حمير، شبام أقيان والمصانع وتخلى حميرية محضة"۔ (صفۃ جزیرۃ العرب، باب لغات أهل هذه الجزيرة:۱/۶۸، شاملہ، مولف:محمدرشید بن علی رضا) اور خشب کی زبان حمیری ملی ہوئی عربی ہے، فصیح ہیں لیکن حمیری بہت بولتے ہیں، اس کے باشندوں میں کسی قدر خالص عربی اور کچھ حمیری باقی ہے، ان کی زبان خالص حمیری ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حمیری عربی زبان سے بالکل جداگانہ چیز ہے، اب اگرتم خود اس عربی زبان کولو، جویمن میں رائج تھی؛ توتم کویمن اور حجاز کی زبانوں کا فرق صاف معلوم ہوگا، یہ سچ ہے کہ دونوں زبانوں کی اصل ایک ہے؛ لیکن ان میں اعراب، ضمیریں، اشتقاق اور تصریف میں جس قسم کا اختلاف موجود ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بولنے والوں میں اخلاق وعادات کے لحاظ سے کتنا فرق تھا؛ جیسا کہ اوپر معلوم ہوا یمن کی عربی، حمیری زبان سے مخلوط تھی اور اکثر مقامات میں غیرفصیح بھی تھی، بخلاف اس کے تم جس قدر شمال کی طرف بڑھوگے زبان زیادہ صاف اور شستہ ملے گی؛ یہاں تک کہ حجاز پہنچ کر نظر آئے گا: "كذلك الحجاز فنجد السفلى فإلى الشام وإلى ديار مضر وديار ربيعة فيها الفصاحة"۔ (صفۃ جزیرۃ العرب، باب لغات أھل ھذہ الجزیرۃ:۱/۶۹، شاملہ،موقع الوراق) حجاز، نجداسفل، حدودِ شام، دیارمضر اور دیارِربیعہ فصاحت کے معدن ہیں۔ یمن اور حجاز کی عربی میں جس قسم کے اختلافات تھے ان کومختصر طور پر علامہ ہمدانی نے صفۃ جزیرۃ العرب (صفحہ:۱۳۴۔۱۳۶) میں بیان کیاہے اور ہم طوالت کے خیال سے اس کوقلم انداز کرتے ہیں، زبان کے اختلافات کے ساتھ حجاز ویمن کے رسم خط میں بھی اختلاف ہے، اہلِ یمن کاخط مسند تھا، بخلاف اس کے اہلِ حجاز کا نبطی اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ (۳)مذہب حجاز ویمن کے باشندوں میں بڑا فرق طرق عبادت اور بتوں کے ناموں کا ہے، اہلِ یمن یابنوقحطان کے بت اہلِ بابل کے بتوں سے مشابہ تھے، مثلاً ان کے نام یہ تھے، غشتار، ایل، بعل وغیرہ، بخلاف اس کے اسماعیلیوں کے بت ان سے بالکل علیٰحدہ تھے؛ چنانچہ ان کے نام یہ ہیں، لات، مناۃ، عزیٰ، ہبل وغیرہ، نبطیوں کے جن بتوں کا کتبات میں ذکر آیا ہے وہ یہ ہیں، ذوالثرا، خراشہ، لات، عمند، منوت یامنوتو (منات)، قیس یاقیشہ۔ اب انصار اور قریش کے بتوں کا ان بتوں سے مقابلہ کرو توصاف معلوم ہوگا کہ ان کے اور نبطیوں کے بت بالکل ایک تھے؛ چنانچہ ہم نے اوپر جونام لکھے ہیں اُن میں ذوالثریٰ، قبیلۂ دوس کا (قاموس:۲/۹۴۹) لات، قبیلۂ ثقیف کا (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۵۰) اور مناۃ، قبیلۂ انصار اور قبیلۂ غسان کا بت تھا (بخاری، كِتَاب الْحَجِّ، بَاب وُجُوبِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَجُعِلَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ، حدیث نمبر:۱۵۳۴، شاملہ،موقع الإسلام۔ طبقات ابنِ سعد، جلد:۲، قسم:۱، صفحہ:۱۰۶) ہم اس سے بے خبر نہیں ہیں کہ اسماعیلیوں میں بھی بعض قبیلے بابلیوں کے بت پوجتے تھے، مثلاً قبیلۂ ہذیل اور قبیلۂ کلب بن وبرہ (قضاعہ) سواع اور ود کی پرستش کرتے تھے (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۴۸) لیکن یہ بالکل جزئی واقعات ہیں، جن سے ہمارے کلیہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اہلِ حجاز اور اہلِ یمن کے ہاں عبادت کے طریقے اس قدر مختلف تھے کہ اسماعیلیوں میں رواج بت پرستی کے بعد بھی مذہب حنیف کی کچھ نہ کچھ یادگاریں باقی تھیں، مثلاً حج کعبہ؛ چنانچہ انصار کے متعلق متفقاً مذکور ہے کہ وہ حج کرتے تھے (بخاری، كِتَاب الْحَجِّ،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ﴿ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا﴾ ،حدیث نمبر:۱۶۷۶، شاملہ،موقع الإسلام) بخلاف اس کے اہلِ یمن کی نسبت اس کے مخالف شہادتیں ملتی ہیں؛ چنانچہ جب ابرہۃ الاشرم نے حج روکنے کے لیے کعبہ پر حملہ کیا ہے توان کے ساتھ یمنیوں کی ایک جماعت تھی جس کا سرغنہ "حناطہ حمیری" تھا (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۳۲) اور خود بادشاہ حمیری بھی اس کے ساتھ آیا تھا (طبری:۲/۵۴۴) اب اگر انصار یمانی النسل تھے توان کوقدرۃ ابرہہ کے حملہ سے خوش ہونا چاہیے تھا؛ کیونکہ کعبہ کے بجائے یمن میں ایک دوسرا کعبہ بنایا گیا تھا اور ابرہہ اس کی طرف تمام عرب کو بجبر مائل کرنا چاہتا تھا؛ لیکن واقعات شاہد ہیں کہ انصار کومسرت نہیں؛ بلکہ حددرجہ غم ہوا اور جس طرح قریش نے اس حملہ کی نسبت نہایت پردرد اشعار لکھے، انصار نے بھی لکھے؛ چنانچہ ان کے ایک شاعر ابوقیس صیفی بن اسلت نے متعدد قصیدوں میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۳۸) ابراہیمی مذہب کی ایک یادگار ختنہ ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوداپنے ہاتھ سے ختنہ کیا تھا (بخاری، كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى﴿ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾ ،الخ،حدیث نمبر:۳۱۰۷، شاملہ، موقع الإسلام) انصار کے مورثوں میں ایک شخص کا نام تیم اللات ہے، اس کی نسبت ایک روایت ہے کہ اس نے بھی اپنے ہاتھ سے ختنہ کیا تھا اور اسی وجہ سے نجار مشہور ہوا (عمدۃ القاری، عرف عینی:۸/۹) اس کے ماسوا انصار نے مسلمان ہونے کے بعد اسلام کے تمام اوامر ونواہی پر عمل کیا ہے؛ لیکن یہ کہیں مذکور نہیں کہ ان لوگوں نے مسلمان ہوکر ختنہ بھی کیا تھا۔ (۴)نام ہرقوم کے ناموں میں کچھ نہ کچھ خصوصیات اور امتیاز پایا جاتا ہے، قحطانی اور اسماعیلی قوموں کے ناموں میں بھی صریح تفاوت موجود ہے، قحطانیوں کے نام حمورابیوں یابابلیوں سے ملتے جلتے تھے، جیسے، اب یذع، الیفع، ثیع، یل، معدی کرب، ابوکرب، علیہان، الیشرح، کرب ایل، ذمر علی، وہب، یل، یاسر، نعم، شمریرعش، بخلاف اس کے اسماعیلیوں کے نام ان سے بالکل الگ ہوتے تھے، مثلاً، اسد، تمر، ثعلبہ، کلب، بکر، صخر، ثعبان، حیل، وغیرہ اس اختلاف کی ایک وجہ یہ تھی کہ قحطانی مدت سے صاحب حکومت تھے اور انہوں نے مال ودولت کے آغوش میں پرورش پائی تھی، اس لیے ان کے ناموں میں تمدن کی جھلک نظر آتی تھی، بخلاف اس کے اسماعیلی ازل سے بدو تھے، اس لیے حالاتِ گردوپیش کے اثر سے کتا، بھیڑیا، شیر، چیتا، پہاڑ، پتھر وغیرہ نام رکھتے تھے؛ کیونکہ یہی چیزیں ہروقت ان کی نگاہ کے سامنے رہتی تھیں، انصار، قریش اور نبطیوں کے ناموں میں یہ فرق صاف معلوم ہوگا، مثلاً قریش کے نام یہ ہیں: فہر، کنانہ، نزار، اسد، زہرہ، عدی، کعب، سعد، عمرو، عثمان، حرب، خالد، نبطیوں کے نام یہ ہیں: حارث، عبادہ، مالک، جمیلہ، انصار کے نام یہ ہیں: غضب، خزرج، اوس، خالد، زید، کلیب، ثعلبہ، خنم، عبادہ، عمرو، عامر، حارثہ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انصار اور قریش کے نام قحطانیوں کی بہ نسبت نبطیوں سے زیادہ ملتے ہیں۔ (۵)قرابت یہ مسلم ہے کہ عرب میں خاندان اور کفو کا بڑا لحاظ کیا جاتا تھا، انصار کے اسماعیلی ہونے کا یہ بھی ایک ثبوت ہے، مکہ ان کی قرابتیں، مکہ میں اور خاص قریش میں ہوتی تھیں؛ چنانچہ اس کو ہم کسی قدر تفصیل سے لکھنا چاہتے ہیں: انصار کے مورثین میں ایک شخص کا نام ازو ہے، جس کی نسبت حضرت حسانؓ کہتے ہیں ؎ إمَّا سَألت فَإنَّا مَعْشَرٌ نُجُبٌ الأزْدُ نِسْبَتُنَا، والماء غَسَّانُ (سیرۃ ابنِ ہشام،مَوْطِنُ عَكّ:۱/۸، شاملہ، موقع الإسلام) قریش کے اس کی اولاد سے قرابتیں نہایت قدیم زمانہ سے چلی آتی ہیں؛ چنانچہ کنانہ بن خزیمہ کی شادی ہالہ بنت سوید سے ہوئی تھی، جوحارثۃ الغطریف کی حقیقی پوتی تھی (تاریخ یعقوبی:۱/۴۶۷) کنانہ کے بعد غالب بن فہر نے قبیلۂ خزاعہ میں شادی کی (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۵۶) اور خزاعہ کی نسبت مشہور ہے کہ وہ عمروہ مزیقیا کی اولاد تھا (تاریخ یعقوبی:۱/۲۳۰) مرہ بن کعب نے جوغالب کی نسل سے تھا، ام تیم بنت سریر سے نکاح کیا، جوبارق کے خاندان سے تھی اور بارق متفقاً مزیقیاء کی نسل تسلیم کیا جاتا تھا (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۶) قضی بن کلاب نے بھی خزاعہ میں نکاح کیا تھا، جن سے عبدمناف پیدا ہوئے (طبری:۲/۱۰۹۱) ہاشم بن عبدمناف نے سلمی بنت عمرو سے شادی کی جوخاندانِ بنونجار سے تھیں، عبدالمطلب جوآنحضرتﷺ کے جدبزرگوار تھے، انہی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے ؎ عرفت شيبة والنّجّار قد جعلت أبناءها حوله بالنّبل تنتضل (تاریخ الطبری، ابن عبدالمطلب:۱/۵۰۱، شاملہ) ہاشم نے ثعلبہ بن خزرج میں بھی ایک شادی کی تھی اور ابوصیفی انہی سے پیدا ہوئے تھے (سیرۃ ابنِ ہشام:۱/۲۳۰) عبدالمطلب نے قبیلہ خزاعہ میں دوشادیاں کی تھیں، جن سے ابولہب اورجحل پیدا ہوئے تھے (تاریخ یعقوبی:۱/۲۹۱) عبدالمطلب کے بیٹوں میں مقوم اور حضرت حمزہؓ کا نکاح مدینہ میں ہوا؛ چنانچہ مقوم کی بیوی مالک بن نجار کے خاندان سے تھیں، حضرت حمزہؓ کی دوشادیاں ہوئیں اور دونوں انصار میں ہوئیں، ایک بیوی بنونجار سے تھیں اور دوسری قبیلۂ اوس سے (زرقانی:۳/۳۱۵) جوبنونجار سے تھیں، ان کا نام خولہ بنتِ قیس تھا۔ (اسد الغابہ:۵/۴۱۴) ان لوگوں کے علاوہ انصار کے متعدد اشخاص نے بھی قریش میں نکاح کئے تھے؛ چنانچہ ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں: انیس بن قتادہ، عمروبن عوف کے خاندان سے تھے، ان کی شادی جثامہ بنت وہب سے ہوئی، جوبنواسد (خزیمہ بن مدرکہ کی اولاد) سے تھیں (اسدالغابہ:۵/۴۱۴) ابوقیس بن اسلت قبیلہ اوس سے تھے، ارنب بنتِ اسد سے جوقصی بن کلاب کے خاندان سے تھیں، شادی کی، ارنب حضرت خدیجہؓ کی پھوپھی اور حضرت زبیربن عوامؓ کی دادی ہوتی تھیں (سیرۃ ابنِ ہشام:۳/۱۴۸) خیر یہ تو زمانۂ جاہلیت کا زمانہ تھا، اسلام کے زمانہ میں مہاجرین سے مدینہ آکر جوقرابتیں کیں، وہ ان سے الگ ہیں، مہاجرین مکہ سے عموماً یکہ وتنہا آئے تھے؛ کیونکہ ان میں سے بہتوں کی بیویاں یاتوعلانیہ اسلام سے منحرف تھیں اور یاہجرت کرنے میں ان کے خاندان مزاحم تھے، اس بناء پر مدینہ آکر مہاجرین نے انصار میں شادیاں شروع کیں؛ چنانچہ مسنداحمد میں ہے: "لَمَّاقَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ الْمَدِينَةَ عَلَى الْأَنْصَارِ تَزَوَّجُوا مِنْ نِسَائِهِمْ"۔ (مسنداحمدبن حنبلؒ، بَاقِي مُسْنَدِ الْأَنْصَارِ،حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّﷺ،حدیث نمبر:۲۶۷۴۰، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) یعنی جب مہاجرین مدینہ آئے توانصار کی عورتوں سے شادیاں کیں۔ چونکہ مہاجرین عموماً قریشی تھے اور قریش سے انصار کی قدیم قرابتیں چلی آتی تھیں، اس لیے انصار کو ان سے قرابت کرنے میں کیا تامل ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت طلحہؓ نے انصار کے مختلف خاندانوں میں شادیاں کیں، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے دونکاح کئے، جن میں سے ایک کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے (بخاری، كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب قَوْلِ الرَّجُلِ لِأَخِيهِ انْظُرْ أَيَّ زَوْجَتَيَّ شِئْتَ حَتَّى أَنْزِلَ لَكَ،حدیث نمبر:۴۶۸۴، شاملہ،موقع الإسلام) البتہ آنحضرتﷺ نے انصار میں کوئی شادی نہیں کی؛ لیکن اس شرف سے نہ صرف انصار ؛بلکہ خود بنو ہاشم بھی محروم رہے؛ چنانچہ علامہ ابنِ اثیر نے تصریح کی ہے کہ آنحضرتﷺ نے اُمِّ حبیب (حضرت عباسؓ کی صاحبزادی) کودیکھا توفرمایا کہ اگریہ میری زندگی میں جوان ہوگئی تواس سے نکاح کرونگا؛ لیکن پھرآنحضرتﷺ خودہی انتقال فرماگئے (اسدالغابہ:۵/۵۷۲) انصار کے متعلق بھی اسی قسم کی ایک روایت ہے کہ حبیبہ بنت سہل سے آپ نکاح کرنا چاہتے تھے؛ لیکن جب انصار کی غیرت کا خیال آیا تو یہ خیال چھوڑ دیا۔ (طبقات ابنِ سعد:۸/۳۲۶) (۶)شکل وصورت انصار شکل وشباہت میں بھی اسماعیلیوں سے مشابہ تھے، ان کا عام حلیہ یہ تھا کہ وہ خوبصورت، سڈول، گورے یاگندمی، میانہ قد اور صاف ستھرے ہوتے تھے؛ چنانچہ قرآن مجید میں منافقین کے متعلق ہے: "وَإِذَارَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ"۔ (المنافقون:۴) اور تم جب ان کو دیکھتے ہوتو ان کے جسم تم کو بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری میں لکھا ہے: "كَانُوا رِجَالًا أَجْمَلَ شَيْءٍ"۔ (بخاری، كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ، بَاب وَإِذَارَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ،الخ، حدیث شریف:۴۵۲۳،شاملہ،موقع الإسلام) یعنی وہ نہایت خوبصورت لوگ تھے۔ یہ ظاہر ہے کہ منافقین انصار ہی کے قبیلوں سے تھے؛ چنانچہ عبداللہ بن ابی جو راس المنافقین تھا اور جس کی نسبت یہ آیت نازل ہوئی تھی خود انصار کے ایک قبیلہ کا سردار تھا، اس کے ماسوا انصار میں بہت سے بزرگوں کے حلیے ہم ان کے حالات میں لکھیں گے، ان کوپڑھ کر ایک مرتبہ قریش کے حلیوں پر نظر ڈالو توصاف معلوم ہوگا کہ دونوں قوموں کی شکل وشباہت میں کچھ فرق نہیں، بخلاف اس کے قحطانی چونکہ یمن میں رہتے تھے، اس لیے ان کا رنگ سیاہ اور قد نہایت دراز ہوتا تھا؛ چنانچہ عاد کے قدوقامت کی درازی کا خود قرآن مجید میں ذکر آیا ہے؛ بحرِحال انصار کے نسب نامہ کے متعلق ہماری جو رائے تھی، اس کو ہم نے نہایت تفصیل کے ساتھ لکھ دیا ہے، متقدمین کے اقوال بھی نقل کردیئے ہیں اور اب ناظرین کوموقع ہے کہ ان رایوں میں سے کسی ایک کوترجیح دے لیں۔