انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نماز نمازکی اہمیت وفضیلت اوراس کے ترک پر وعید کا بیان اہمیتِ نماز حضراتِ انبیاءؑ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، کمالات واحسانات اور اس کی تقدیس وتحمید کے بارے میں جو کچھ بتلاتے ہیں اس کو مان لینے اور اس پر ایمان لے آنے کا پہلا قدرتی اور بالکل فطری تقاضہ یہ ہے کہ انسان اس کے حضور میں اپنی فدویت وبندگی، محبت وشیفتگی اور محتاجی ودریوزہ گری کا اظہار کرکے اس کا قرب اور اس کی رحمت ورضا حاصل کرنے کی کوشش کرے اور اس کی یاد سے اپنے قلب وروح کے لیے نور اورسرور کا سرمایہ حاصل کرے، نماز کا اصلی موضوع دراصل یہی ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ نماز اس مقصد کے حصول کا بہترین وسیلہ ہے اس لیے ہرنبی کی تعلیم میں اور ہرآسمانی شریعت میں ایمان کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے اور اسی لیے اللہ کی نازل کی ہوئی آخری شریعت (شریعت محمدیؐ) میں نماز کے شرائط وارکان اور سنن وآداب اور اسی طرح اس کے مفسدات ومکروہات وغیرہ کے بیان کا اتنا اہتمام کیا گیا ہے اور اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے جو اس کے علاوہ کسی دوسری طاعت وعبادت کو بھی نہیں دی گئی۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ "حجۃ اللہ البالغہ" میں نماز کا بیان شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اعلم أن الصلاة أعظم العبادات شأنا وأوضحها برهانا وأشهرها في الناس وأنفعها في النفس، ولذلك اعتنى الشارع ببيان فضلها وتعيين أوقاتها وشروطها وأركانها وآدابها ورخصها ونوافلها اعتناء عظيم لم يفعل في سائر أنواع الطاعات، وجعلها من أعظم شعائر الدين"۔ (حجۃ اللہ البالغہ، من ابواب الصلاۃ:۱/۳۹۴، مصنف: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ) ترجمہ:" نماز تمام عبادتوں میں شان کے اعتبار سے بڑی ہے اور دلیل کے اعتبار سے زیادہ واضح ہے اور عبادت میں سب سے زیادہ لوگوں میں مشہور ہے اور نفس کے لیے سب سے زیادہ مفید ہے اور اسی وجہ سے شارع نے اس کی فضیلت اور اس کے اوقات وشروط اور اس کے ارکان وآداب اور اس کی رخصتوں اور نفلوں کو بیان کرنے کا اس طرح اہتمام کیا ہے، اس کی مانند دیگر طاعات کی انواع میں اتنا اہتمام نہیں کیا اور اس کو دین کے اہم شعائر میں سے شمار کیا ہے"۔ نماز اسلام کا دوسرا رکن ہے، نماز کی اہمیت اسلام میں بہت آئی ہے، قرآن شریف میں اس کا ذکر آیا ہے اور احادیث میں بھی کثرت سے اس کی تاکید آئی ہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسترمرگ پر بھی بیہوشی کی حالت سے ہوش میں آتے تب بھی نماز کی تاکید فرماتے (ابوداؤد، باب فی حق المملوک،حدیث نمبر:۴۴۸۹) نماز کسی بھی حال میں معاف نہیں کی گئی، اچھی طرح وقت پر اور ہمیشہ پڑھنا ضروری قرار دیا گیا؛ اگر باقاعدہ نماز پڑھنے میں کسی دشمن وغیرہ کا اندیشہ ہو تو کھڑے کھڑے یاسواری پر جس طرح بن پڑے خواہ قبلہ کی طرف منھ نہ ہو اسی طرح اگر رکوع وسجدہ صرف اشارہ ہی سے ممکن ہو تو پڑھنا لازم قرار دیا گیا اس کو چھوڑنے کی بالکل گنجائش نہیں دی گئی؛ اگر دشمن کے مقابلہ کے موقع پر اندیشہ ہو کہ سب نماز میں لگ جائیں گے تو دشمن موقع پاکر حملہ کربیٹھے گا تو ایسی حالت میں یوں حکم ہوا کہ جماعت کے دوگروہ ہوجائیں؛ پھر ان میں سے ایک گروہ تو آپ ﷺ کے ساتھ (جب آپ عالم دنیا میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کے بعد جو امام ہو اس کے ساتھ نماز میں) کھڑے ہوجائیں اور دوسرا گروہ نگہبانی کے لیے دشمن کے مقابل کھڑے ہوجائیں؛ تاکہ دشمن کو دیکھتے رہیں؛ پھرجب یہ لوگ (آپؐ کے ساتھ) سجدہ کرچکیں (ایک رکعت پوری کرلیں) تو یہ لوگ (نگہبانی کے لیے) تمہارے پیچھے ہوجائیں اور دوسرا گروہ جنہو ں نے ابھی نماز نہیں پڑھی (شروع بھی نہیں کی) وہ پہلے گروہ کی جگہ آجائیں اور آپ کے ساتھ نماز (کی ایک رکعت جو باقی رہی ہے اس کو) پڑھ لیں (یہ دوگروہ کی ایک ایک رکعت ہوئی) اور جب امام دورکعت پر سلام پھیر دیں تو دونوں گروہ اپنی اپنی ایک ایک رکعت خود ہی پڑھ لیں اور اگر امام چار رکعت پڑھے تو ہرگروہ کو دو دو رکعت پڑھائے اور دودو اپنے طور پر پڑھ لیں اور مغرب میں ایک گروہ کو دورکعت پڑھائے اور ایک گروہ کو ایک رکعت۔ "الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُـقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ" البقرۃ:۳۔ "حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰى وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَo فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللہَ کَـمَاعَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ" (البقرۃ: ۲۳۸،۲۳۹) غور کیجئے کہ نماز کس درجہ ضروری چیز ہے کہ ایسی کشاکشی میں چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی؛ البتہ ہماری مصلحت کے لیے اس کی صورت بدل دی گئی، بیماری کی وجہ سے نماز کے لیے وضو اور غسل دشوار ہو، پانی کا استعمال مضرہو یاکوئی اور عذر ہو تو شریعت میں پانی کے بجائے مٹی کے استعمال کی اجازت دی گئی۔ "وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ" (المائدہ:۶) نماز کی اہمیت ہی کی وجہ سے جو چیز اس کو روکنے والی تھی اس کو حرام کردیا تاکہ نماز میں خلل نہ ہو جیسے شراب اور جوئے کے حرام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بتلائی گئی کہ (شیطان چاہتا ہے کہ اس شراب اور جوئے کے ذریعہ) اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے (جوکہ اللہ تعالیٰ کی یاد کا سب سے افضل طریقہ ہے) تم کو باز رکھے (المائدہ:۹،۹۱) اور نماز کو اسلام کی علامت فرمایا ہے؛ یہاں تک کہ اگر کسی کافر کو کسی نے کلمہ پڑھتے نہ سنا ہومگر نماز پڑھتے دیکھے تو سب علماء کے نزدیک واجب ہے کہ اس کو مسلمان سمجھیں، اس بات کی طرف یہ آیت رہنمائی کرتی ہے، "اگر یہ لوگ (کفر سے) توبہ کرلیں (یعنی مسلمان ہوجائیں) اور (اس اسلام کو ظاہر بھی کردیں مثلاً) نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہوجائیں گے۔ "فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَۃَ وَآتَوُاْ الزَّکَاۃَ" )التوبہ:۱۱) حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی ایک نماز فوت ہوگئی وہ ایسا ہے کہ گویا اس کے گھر کے لوگ اور مال ودولت سب چھین لیا گیا ہو۔ ("عن نوفل بن معاوية أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من فاتته الصلاة فكأنما وتر أهله وماله" صحیح ابن حبان، باب ذکر الزجر عن ترک مواظبۃ المرء،حدیث نمبر:۱۴۶۸) نماز کا ضائع کرنا اکثر بال بچوں کی وجہ سے ہوتا ہے کہ ان کی خیرخبر میں مشغول رہے یامال ودولت کمانے کے لالچ میں ضائع کی جاتی ہے، حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز کا ضائع کرنا انجام کے اعتبار سے ایسا ہی ہے؛ گویا بال بچے اور مال ودولت سب ہی چھین لیا گیا اور اکیلا کھڑا رہ گیا، یعنی جتنا خسارہ اور نقصان اس حالت میں ہے اتنا ہی نماز کے چھوڑنے میں ہے یاجس قدر رنج وصدمہ اس حالت میں ہو، اتنا ہی نماز کے چھوٹنے میں ہونا چاہیے۔ (فتح الباری، باب إثم من فاتتہ العصر: ۲/۳۲۵) فضیلتِ نماز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا بتلاؤ اگر کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو اور اس میں وہ ہرروز پانچ بارغسل کیا کرے تو کیا اس کا کچھ میل کچیل باقی رہ سکتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی میل نہ رہیگا، تو آپ نے فرمایا: پانچوں وقت نمازوں کی یہی حالت ہے اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ ("عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَاتَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ قَالُوا لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا قَالَ فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا" بخاری، باب الصلوات الخمس کفارۃ، حدیث نمبر:۴۹۷۔ "عَنْ جَابِرٍ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ كَمَثَلِ نَهْرٍ جَارٍ غَمْرٍ عَلَى بَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ قَالَ قَالَ الْحَسَنُ وَمَا يُبْقِي ذَلِكَ مِنْ الدَّرَنِ" مسلم، بَاب الْمَشْيِ إِلَى الصَّلَاةِ تُمْحَى بِهِ الْخَطَايَا وَتُرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتُ، حدیث نمبر:۱۰۷۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں؛ جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے تمام گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جبکہ ان اعمال کو کرنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے۔ ("عن أبِی ہریرۃ أن رسول اللہﷺ قال الصلاۃ الخمس"الخ، مسلم، باب الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ،حدیث نمبر:۳۴۲) حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ سردی کے موسم میں باہرتشریف لائے اور پتے درختوں پر سے گررہے تھے، آپﷺ نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی اس کے پتے اور بھی گرنے لگے آپ ﷺ نے فرمایا: "اے ابوذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس سے اس کے گناہ ایسے ہی گرتے ہیں جیسے یہ پتے درخت سے گررہے ہیں"۔ ("عن أبِی ذر أَن النبِیﷺ خرج زمن الشِتاءِ والورق"الخ، مسنداحمد، حدیث نمبر:۲۱۵۹۶) حضرت ابومسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ مسجد میں تشریف فرماتھے میں نے عرض کیا کہ مجھ سے ایک صاحب نے آپ کی طرف سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے نبی کریمﷺ سے یہ ارشاد سنا ہے کہ جو شخص اچھی طرح وضوکرے اور پھر فرض نماز پڑھے تو حق تعالیٰ شانہ اس دن وہ گناہ جو چلنے سے ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس کے ہاتھوں نے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے کانوں سے صادر ہوئے ہوں اور وہ گناہ جن کو اس نے آنکھوں سے کیا ہو اور وہ گناہ جو اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں سب کو معاف فرمادیتے ہیں، حضرت ابوامامہ نے فرمایا میں نے یہ مضمون نبی کریمﷺ سے کئی دفعہ سنا ہے۔ ("ثنا أبومسلم قال: دخلت علی أبی أمامۃ وہویتفلی فی المسجد ویدفن القمل"الخ، مسنداحمد، حدیث نمبر:۲۲۳۲۶) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ان پانچ فرض نمازوں کو پابندی سے پڑھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رہنے والوں میں شمار نہیں ہوتے۔ ("عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من حافظ على هؤلاء الصلوات المكتوبات لم يكتب من الغافلين، ومن قرأ في ليلة مائة آية لم يكتب من الغافلين، أو كتب من القانتين" صحیح ابن خزیمہ، باب جماع أبواب صلاۃ التطوع باللیل، حدیث نمبر:۱۰۷۹) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریمﷺ نے نماز کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگی اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی، جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہوگا نہ (اس کے پورے ایمان دار ہونے کی) کوئی دلیل ہوگی نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا اور وہ قیامت کے دن فرعون، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، باب ذکر الزجر عن ترک المرء، حدیث نمبر:۱۴۶۷ "حدثنی کعب بن علقمۃ عن عیسی بن ہلال الصدفی عن عبد اللہ بن عمرو عن رسول اللہﷺ أنہ ذکر الصلاۃ یوما فقال: من حافظ علیہا کانت لہ نوراً"الخ۔ مسنداحمد، حدیث نمبر:۶۲۸۸ "عن بن عمر قال: أدرک رسول اللہﷺ عمر بن الخطاب وہوفی رکب وہویحلف"الخ۔ دارمی، حدیث نمبر:۲۷۷۷ "عن عبدِ اللہ بنِ عمرو عنِ النبیﷺ أنہ ذکر الصلاۃ یوما"الخ) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جومسلمان فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرے؛ پھرپورے خشوع اور اچھی طرح رکوع وسجود کے ساتھ نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے واسطے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائیگی جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہوا ہو اور نماز کی یہ برکت اس کو ہمیشہ ہمیش حاصل ہوتی رہے گی۔ (مسلم، باب فضل الوضوء والصلاۃ عقبۃ، حدیث نمبر:۳۳۵ "عن أبِیہِ قال کنت عِند عثمان فدعا بِطہور فقال سمِعت رسول اللہﷺ یقول مامِن امرِیٔ"الخ۔ صحیح ابن حبان، حدیث نمبر:۱۰۴۴) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کی یہ تاثیر اور برکت ہے کہ وہ سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور پچھلے گناہوں کی گندگی کو دھوڈالتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو؛ کیونکہ ان گناہوں کی نحوست اتنی غلیظ اور اس کے ناپاک اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں جن کا ازالہ صرف توبہ ہی سے ہوسکتا ہے، ہاں اللہ تعالیٰ چاہے تو یونہی معاف فرمادے اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اچھی طرح وضو کرے پھر اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہوکر پوری قلبی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دورکعت نماز پڑھے تو جنت اس کے لیے ضرور واجب ہوجائیگی۔ (مسلم، باب الذکرالمستحب عقب الوضو، حدیث نمبر:۳۴۵۔ مسنداحمد، حدیث نمبر:۱۶۷۵۲) مذکورہ احادیث کے علاوہ بے شمار احادیث ہیں جو نماز کی فضیلت کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں؛ چونکہ عمل کے لیے اتنی کافی ہیں، اس لیے اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔ افسوس کیسی بدبختی ہے نماز کے بارے میں رسول اللہﷺ کے ان تربیتی اور ترغیبی ارشادات کے باوجود امت کی بڑی تعداد آج نماز سے غافل اور بے پرواہ ہوکر اپنے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے الطاف وعنایات سے محروم اور اپنی دنیاوآخرت کو برباد کررہی ہے "وَمَاظَلَمَھُمُ اللہ وَلٰکِنْ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ"۔ ( آل عمران:۱۱۷) "ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی اپنے آپ کو ضرر پہنچا رہے تھے"۔ ترکِ نماز پر وعید حضرت جابرؓ سے رویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندے اور کفر کو ملانے والی چیز نماز کا چھوڑنا ہے۔ (مسلم، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، حدیث نمبر:۱۱۶۔ ترمذی، حدیث نمبر:۲۵۴۳۔ ابوداؤد، حدیث نمبر:۴۰۵۸) حضرت عبادہؓ کہتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب حضورﷺ نے سات نصیحتیں کیں، جن میں سے چار یہ ہیں؛ اوّل یہ کہ اللہ کا شریک کسی کو نہ بناؤ چاہے تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں یاتم جلادئیے جاؤ یاسولی چڑھادیے جاؤ، دوسرے یہ کہ جان بوجھ کر نماز نہ چھوڑو، جو جان بوجھ کر نماز چھوڑدے وہ مذہب سے نکل جاتا ہے، تیسری یہ کہ اللہ کی نافرمانی نہ کرو کہ اس سے حق تعالیٰ ناراض ہوجاتے ہیں، چوتھی یہ کہ شراب نہ پیو کہ وہ ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ (ابن ماجہ، باب الصبر علی البلاء، حدیث نمبر:۴۰۲۴ عن ابی الدرداء۔ مستدرک حاکم علی الصحیحین، باب ذکر أمیمۃ مولاۃ رسول اللہﷺ، حدیث نمبر:۶۸۳۰) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ کا ارشا دہے کہ جو شخص دونمازوں کو بلاکسی عذر کے ایک وقت میں پڑھے وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر پہونچ گیا۔ (مستدرک حاکم، باب التامین، حدیث نمبر:۱۰۲۰) جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ پانچ طرح سے اس کااکرام واعزاز فرماتے ہیں، ایک یہ کہ اس پر سے رزق کی تنگی ہٹادی جاتی ہے، دوسرے یہ کہ اس سے عذابِ قبر ہٹادیا جاتا ہے، تیسرے یہ کہ قیامت کو اس کے اعمال نامے داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے (جن کا حال الحاقہ میں مفصل مذکور ہے: کہ جن لوگوں کے نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے وہ نہایت خوش وخرم ہرشخص کو دکھاتے پھرینگے "الحاقۃ:۱۹") اور چوتھے یہ کہ پل صراط پر سے بجلی کی طرح گزرجائیں گے، پانچویں یہ کہ حساب سے محفوظ رہیں گے اور جو شخص نماز میں سستی کرتا ہے اس کو پندرہ طریقہ سے عذاب ہوتا ہے، پانچ طرح دنیا میں اور تین طرح سے موت کے وقت اور تین طرح قبر میں اور تین طرح قبر سے نکلنے کے بعد، دنیا کے پانچ تو یہ ہیں: اوّل یہ کہ اس کی زندگی میں برکت نہیں رہتی، دوسرے یہ کہ صلحاء کا نور اس کے چہرے سے ہٹالیا جاتا ہے، تیسرے یہ کہ اس کے نیک کاموں کا اجر ہٹادیا جاتا ہے، چوتھے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، پانچویں یہ کہ نیک بندوں کی دعاؤں میں اس کا استحقاق نہیں رہتا۔ موت کے وقت کے تین عذاب یہ ہیں: اوّل ذلت سے مرتا ہے، دوسرے بھوکا مرتا ہے، تیسرے پیاس کی شدت میں موت آتی ہے؛ اگر سمندر بھی پی لے تو پیاس نہیں بجھتی۔ قبر کے تین عذاب یہ ہیں: اوّل اس پر قبر اتنی تنگ ہوجاتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں، دوسرے قبر میں آگ جلادی جاتی ہے، تیسرے قبر میں ایک سانپ اس پر ایسی شکل کا مسلط ہوتا ہے جس کی آنکھیں آگ کی ہوتی ہیں اور ناخن لوہے کے اتنے لانبے کہ ایک دن پورا چل کر ان کے ختم تک پہونچا جائے، اس کی آواز بجلی کی کڑک کی طرح ہوتی ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ مجھے میرے رب نے تجھ پر مسلط کیا ہے کہ تجھے صبح کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے آفتاب کے نکلنے تک مارے جاؤں اور ظہر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عصر تک مارے جاؤں اور پھر عصر کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے غروبِ آفتاب تک اور مغرب کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے عشاء تک اور عشاء کی نماز ضائع کرنے کی وجہ سے صبح تک مارے جاؤں، جب وہ ایک دفعہ اس کو مارتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ مردہ ستر ہاتھ زمین میں دھنس جاتا ہے، اسی طرح قیامت تک اس کو عذاب ہوتا رہے گا۔ قبر سے نکلنے کے بعد کے تین عذاب یہ ہیں: ایک حساب سختی سے کیا جائیگا دوسرے حق تعالیٰ شانہ کا اس پر غصہ ہوگا، تیسرے جہنم میں داخل کردیا جائیگا (یہ کل میزان چودہ ہوئیں، ممکن ہے کہ پندھواں بھولے سے رہ گیا ہو) اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس کے چہرہ پر تین سطریں لکھی ہوتی ہیں: پہلی سطر: او اللہ کے حق کو ضائع کرنے والے۔ دوسری سطر: او اللہ کے غصے کے ساتھ مخصوص۔ تیسری سطر: جیسا تو نے دنیا میں اللہ کے حق کو ضائع کیا آج تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، باب الکبیرۃ السابعۃ والسبعون:۱/۳۵۲)