انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضر قتیبہ بن سعید الشقفیؒ نام ونسب بعض کے نزدیک ان کا نام یحییٰ اوربعض کے نزدیک علی تھا اورقتیبہ لقب؛ لیکن صحیح تر قول یہ ہے کہ نام قتیبہ تھا اور ابو رجاء کنیت تھی،نسب نامہ اس طرح ہے قتیبہ بن سعید بن جمیل بن طریف بن عبداللہ۔ (تاریخ بغداد:۱۲/۴۶۴) ان کے داد اجمیل بن طریف عراق کے مشہور اموی گورنر حجاج بن یوسف الثقفی کے غلام تھے،حجاج انتہائی ظالم وجابر اورتند مزاج ہونے کے باوجود جمیل کی بڑی تکریم کرتا تھا،انتہا یہ ہے کہ جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھتا تو قتیبہ کے دادا کو اپنے دائیں جانب ایک علیحدہ کرسی پر بٹھادیا کرتا تھا۔ (ایضاً:۴۶۸) بنو ثقیف کے ساتھ تعلق غلامی کی وجہ سے ثقفی کہے جاتے ہیں۔ ولادت شیخ قتیبہ کی ولادت ۱۵۰ھ میں ان کے وطن بغلان میں ہوئی(جو بلغ کا ایک گاؤں ہے)ایک روایت میں ان کا سنہ ولادت ۱۴۸ ھ بتایا گیا ہے،لیکن خود شیخ قتیبہ کے بیان سے اول الذکر ہی کی تائید ہوتی ہے، اس لیے حافظ ابن حجرؒ نے اسی کو اصح قرار دیا ہے(تہذیب التہذیب:۸/۳۶۰)ان کا اصل وطن تو بغلان تھا لیکن عراق آکر مستقل سکونت اختیار کرلی اور وہیں آباد ہوگئے تھے، کبھی اپنے وطن جاتے تو ایک دو دن رہ کر چلے آتے تھے؛چنانچہ خود فرماتے ہیں: ماکان مثلی فی بغلان مسکنۃ ولا یمربھا الا علیٰ سفر (تاریخ بغداد:۱۲/۴۷۰) (ترجمہ)میری طرح بغلان میں کوئی ایسا نہ ہوگا جس کا وطن ہو تو بغلان مگر وہ وہاں آئے مسافر کی طرح۔ میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو! کہ اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آیا ہوں تعلیم وتربیت شیخ قتیبہ کے والد سعید بن جمیل نہایت نیک اطوار اورخوش خو تھے ایک بار انہوں نے عالمِ خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت کی،آپ ﷺکے دستِ مبارک میں ایک رجسٹر(صحیفہ)تھا،سعیدؒ نے دریافت کیا:"یا رسول اللہ یہ کیا ہے؟ ارشاد ہوا: اس میں علماء کے نام درج ہیں، انہوں نے عرض کیا:ذرایہ مجھے مرحمت فرمادیں کہ میں دیکھوں،اس میں میرے لڑکے کا نام ہے یا نہیں؟ دیکھا تو اس میں ان کے فرزند قتیبہؒ کا اسم گرامی بھی شامل ہے(تاریخ بغداد:۱۲/۴۶۸) ایسے نیک بخت اورحوصلہ مند باپ کے فرزند ہونے کی بنا پر قتیبہ کو اسلامی علوم و فنون کے ساتھ قلبی لگاؤ تھا؛چنانچہ انہوں نے اس ذوق وشوق میں وطن سے نکل کر عراق مدینہ،مکہ،شام اورمصر تک کا سفر کیا اوروہاں کے کبار ائمہ سے سماع کا شرف حاصل کیا۔ شیوخ شیخ قتیبہ کو مختلف امصار وبلاد کے جن ائمہ سے کسبِ فیض کا موقع بہم پہنچا ،ان میں درجِ ذیل نام ملتے ہیں: امام مالک بن انس،لیث بن سعد،ابن لہیعہ ،شریک (تذکرۃ الحفاظ:۲/۳۳) بکر بن مضر،مفضل بن فضالہ، عبدالوارث بن سعید، حماد بن زید، عبدالعزیز بن ابی حازم، حفص بن غیاث ،حمید بن عبدالرحمن الرواسی، عبدالوہاب الثقفی، فضیل بن عیاض، جعفر بن سلیمان الضبعی،ہشیم، ابو عوانہ، یزید بن زریع،اسماعیل بن علیہ، ابن عیینہ، امام وکیع ابن الجراح وغیرہم۔ (تہذیب التہذیب:۸/۳۵۹) انہوں نے اپنے علمی سفر کا آغاز صغر سنی ہی میں کردیا تھا؛چنانچہ جب وہ عراق آئے تو ان کی عمر صرف ۲۳ سال کی تھی،خود ان کا بیان ہے کہ: انحدرت إلى العراق أول خروجي سنة ۱۷۲ وكنت يومئذ ابن ۲۳ سنة (تہذیب التہذیب،باب حرف القاف:۸/۳۲۲) میں جب سب سے پہلی مرتبہ ۱۷۲ھ میں عراق آیا تھا تو اس وقت میری عمر صرف ۲۳ سال کی تھی۔ علم وفضل تحصیل علم میں ان کی غایت درجہ محنت اوراکابر امت سے استفادہ نے انہیں علم کا سرچشمہ بنادیا تھا، حافظ ذہبی انہیں "الشیخ الحافظ محدث خراسان" لکھتے ہیں اوراس کے بعد فرماتےہیں کہ وہ ثقہ عالم، صاحبِ حدیث اورکثرت سے سفر کرنے والے تھے (تذکرۃ الحفاظ:۲/۳۰) (یعنی تحصیل علم کے لیے)ابن عماد حنبلی رقمطراز ہیں کہ: الیہ المتھی فی الثقۃ (شذرات الذہب :۲/۹۵) ثقاہت میں ان کا آخری درجہ تھا۔ درسِ حدیث امام قتیبہ جہاں بھی تشریف لے جاتے،علم وفضل کا دفتر کھل جاتا ؛چنانچہ بغداد میں تشریف فرما ہوتے تو امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین جیسے ائمہ روزگار نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر حدیث کا درس لیا اور جو لوگ ان سے استفادہ کے موقع کو ضائع کردیتے تھے وہ اس پرکفِ افسوس ملتے تھے،عمر وبن علی الفلاس بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ منی میں حضرت قتیبہ کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ عباسی العنبری ان کے پاس بیٹھے حدیث لکھ رہے تھے، میں اس وقت گذر گیا اور ان سے سماع نہیں کیا، لیکن بعد میں مجھ کو اپنے تساہل پر بڑی ندامت ہوئی۔ (تاریخ بغداد:۱۲/۴۶۸) تلامذہ ان کی عظمت وبزرگی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان کے حلقہ تلامذہ میں اس عہد کے بڑے بڑے ائمہ حدیث داخل ہیں،کچھ ممتاز اسمائے ابو حاتم الرازی،ان کے علاوہ امام بخاری نے ان کی روایت کی ہوئی تین سو آٹھ ۳۰۸ اورامام مسلم نے چھ سو اڑ سٹھ احادیث صحیحین میں درج کی ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۸/۳۶۱) شیخ قتیبہ نے امام احمد بن حنبل اوریحییٰ بن معین کی روایتوں کے لیے اپنےصحیفہ میں الگ الگ علامتیں مقرر کررکھی تھیں؛چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ احمد بن محمد بن زیاد الکرمینی سے فرمایا کہ تم کو میری جن روایتوں پر سُرخ نشان ملے سمجھنا کہ میں نے وہ روایتیں امام احمد بن حنبلؒ کے سامنے روایت کی ہیں اورجن روایتوں پر سبز نشان ہے وہ یحییٰ بن معین کی روایت کی ہوئی ہیں۔ (تاریخ بغداد:۱۲/۴۶۶) لیکن ابو العباس السراج کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں دو قسم کی نہیں ؛بلکہ سات قسم کی تھیں،ان سات میں سے دو تو امام احمد بن حنبل اوریحییٰ بن معین کے لیے ہی مخصوص تھیں، باقی پانچ نشانیاں ابو خثیمہ،ابوبکر بن ابی شیبہ،یحییٰ الحمانی،ابو زرعہ عبید اللہ بن عبدالکریم الرازی اور ابوالحسین مسلم بن الحجاج نیشا پوری کے لیے مخصوص تھیں ۔ (ایضاً) عبیداللہ بن سیار بیان کرتے ہیں کہ عراق میں کوئی بڑا امام ایسا نہیں ہے جس نے قتیبہ بن سعید سے روایت نہ کی ہو اوروہ بڑے سچے تھے۔ (ایضاً) کثرتِ حدیث جیسا کہ مذکور ہواشیخ قتیبہ نے حدیث کی جستجو میں ان تمام ملکوں کا سفر کیا تھا جہاں ان کو حدیثوں کے ملنے کی امید ہوسکتی تھی ان سفروں میں انہوں نے احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ فراہم کرلیا کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا، اگر تم اس موسم سرما میں میرے پاس قیام کرو تو میں تم کو پانچ شخصوں کی روایت کی ہوئی، ایک لاکھ حدیثیں سناؤں گا،شاگرد نے عرض کیا کہ غالباً ان میں ایک بزرگ تو عمر بن ہارون ہوں گے،فرمایا نہیں صرف عمر بن ہارون سے تو میں نے الگ سے تیس ہزار حدیثیں لکھی ہیں، یہ ایک لاکھ حدیثیں تو وکیع بن الجراح عبدالوہاب الثقفی ،جریر الرازی،محمد بن بکر البر ساخی سے منقول ہیں، راوی کا بیان ہے کہ قتیبہ ابن سعید نے پانچویں بزرگ کا بھی نام لیا تھا لیکن میں اس کو بھول گیا۔ (ایضاً:۴۶۹) ایک عجیب واقعہ امام قتیبہ کی علمی زندگی کا ایک قابلِ ذکر واقعہ یہ ہے کہ وہ شروع شروع میں قیاسی مسائل کی جستجو میں زیادہ رہتے تھے ایک مرتبہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک توشہ دان لٹک رہا ہے،لوگ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرہے ہیں لیکن اس تک پہنچنے سے عاجز ہیں،پھر میں (قتیبہ نے)اس کو لینا چاہا تو میں اپنی سعی میں کامیاب ہوگیا، اب میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تو مجھے مشرق ومغرب کے درمیان کی کل کائنات نظر آگئی، صبح کے وقت میں ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا، جو خواب کی تعبیر بتانے میں بڑی شہرت رکھتے تھے،میں نے ان سے اپنا خواب بیان کیا،انہوں نے سُن کر فرمایا: بیٹے اب تم روایات وآثار کی طلب میں مشغول ہوجاؤ؛کیونکہ صرف روایات وآثار ہی مشرق ومغرب تک پہنچ سکتی ہیں،قیاسی مسائل میں اس درجہ وسعت کہاں؟ تموّل عام اہلِ علم کے برخلاف شیخ قتیبہ بڑے مالدار تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں:"وکان غنیا متمولا"(تذکرۃ الحفاظ:۲/۳۰)ان کے پاس کے پاس اونٹ بکریاں گائیں اور گھوڑے وغیرہ بڑی کثرت سے تھے۔ (تاریخ بغداد:۱۲/۴۶۸) حلیہ ان کا حلیہ یہ تھامیانہ قد وقامت سر کے بال آگے سے غائب،پُر رونق چہرہ،خوش وضع ڈاڑھی،اخلاق وعادات کے لحاظ سے بڑے مہمان نواز اورخوش خلق تھے۔ (ایضاً) وفات ۲شعبان ۲۴۰ھ میں اپنے وطن بغلان میں وفات پائی، اس وقت عمر ۹۱ سال تھی۔ (تہذیب التہذیب:۸/۳۶۰،وتذکرۃ الحفاظ:۲/۳۱)