انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت اسرائیل بن یونس کوفیؒ نام ونسب اسرائیل نام اورابو یوسف کنیت تھی،پورا سلسلۂ نسب یہ ہے،اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق،عمروبن عبداللہ بن علی بن احمد بن ذی یحمد بن سبیع بن سبیع بن صعب بن معاویہ بن کثیر بن مالک بن جشم بن حاشد بن جشم بن خیوان بن نوف بن ہمدان۔ (ابن سعد:۶/۲۱۹،تاریخ بغداد:۷/۲۰) ولادت ۱۰۰ھ میں کوفہ کی مردم خیز سر زمین میں پیدا ہوئے۔ (تہذیب التہذیب:۱/۲۶۳) فضل وکمال انہوں نے مرکزِ علم کوفہ میں نشوونماپائی اوراپنے فطری علمی ذوق کی بنا پر وقت کے اکابر علماء کے فیض صحبت سے مالا مال ہوئے،خود ان کا خانوادہ بھی علم و فضل میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا؛چنانچہ ان کے دادا ابو اسحاق سبیعی کا شمار جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے،تمام علماء ومحققین نے بالاتفاق ان کی توثیق کی ہے۔ اسرائیل بن یونس اپنے انہی شہر ہ آفاق جدامجد سے خاص طور سے مستفید ہوئے ؛چنانچہ ابو اسحاق سبیعی کی تمام مرویات انہیں ازبرتھیں،عیسیٰ بن یونس کہتے ہیں کہ: قال لی اخی اسرائیل کنت احفظ حدیث ابی اسحاق کما احفظ سورۃ من القران (میزان الاعتدال:۱/۹۷،تذکرۃ الحفاظ :۱/۱۹۳) مجھ سے میرے بھائی اسرائیل نے بیان کیا کہ میں ابو اسحاق سبیعی کی روایتوں کو اس طرح یاد کرتا تھا جیسے قرآن کی سورۃ حفظ کرتا ہوں۔ شیوخ ابو اسحاق سبیعی کے علاوہ انہوں نے جن مشاہیر اہل علم سے اکتساب فیض کیا ،ان میں سے کچھ نام یہ ہیں، سماک بن حرب،منصوربن المعتمر،ابراہیم بن مہاجر،سلیمان الاعمش ،زیاد بن علاقہ،زید بن جبیر،عاصم بن بہدلہ،اسمعیل السدی ،مجزاۃ بن زاہرالاسلمی،عاصم الاحول،ہشام بن عروہ،یوسف بن ابی بردہ (تاریخ بغداد:۷/۲۰،تہذیب التہذیب:۱/۲۶۱) درس وافادہ اسرائیل بن یونس نے خود بھی مختلف مقامات پر درسِ حدیث کی مجلسیں گرم کیں،خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں ان کے بغداد کے درس کا ذکر کیا ہے،وہاں شائقین علم کا گروہ ان کے گرد اکٹھا رہتا تھا،ان سے مستفید ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے، جن میں درج ذیل ائمہ و علماء مشہور ہیں۔ اسماعیل بن جعفر،وکیع بن الجراح،عبدالرحمن بن مہدی،عبید اللہ بن موسیٰ،ابو نعیم الفضل بن دکین، اسود بن عامر شاذان،محمد بن سابق، عبداللہ بن صالح بعجلی، ابو احمد الزبیری، نضر بن شمیل،ابوداؤد الطیالسی، عبدالزاق بن ہمام، یحییٰ بن آدم،محمد بن یوسف الفریابی،عبداللہ بن رجاء السعدانی،احمد بن یونس بن الجعد۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۳ تاریخ بغداد:۷/۲۰،تہذیب التہذیب:۱/۲۶۱) قوتِ حافظہ انہوں نے قوتِ حافظہ بھی نہایت قوی پائی تھی، امام احمد بن حنبل ان کی غیر معمولی قوتِ حافظہ پر تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے۔ (میزان الاعتدال:۱/۹۷) یحییٰ بن آدم کہتے ہیں کہ: کنا نکتب من اتقن اصحاب ابی اسحاق (میزان الاعتدال:۱/۹۷) وہ ابو اسحاق سبیعی کے تلامذہ میں سب سے زیادہ صدوق اورعادل ہیں۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: اسرائیل ثبت الحدیث اسرائیل ثقۃ راوی ہیں عجلی کا قول ہے "کوفی ثقۃ" امام نسائی کا بیان ہے "لیس بہ بأس"(تاریخ بغداد:۷/۲۱)ابنِ سعد لکھتے ہیں: کان ثقۃ وحدث عنہ الناس حدیثاً کثیرا (تہذیب التہذیب:۱/۲۶۳) وہ ثقۃ تھے لوگ ان سے بکثرت حدیثیں روایت کرتے تھے۔ ابن عدی کا بیان ہے "ھو ممن یحتج بہ" ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیا ہے۔ ان کے علاوہ یحییٰ بن معین، ابو نعیم، امام ابو داؤد اورنسائی وغیرہ نے بہت ہی واضح الفاظ میں اسرائیل بن یونس کو اصح الحدیث اور ثقۃ صدوق لکھا ہے،مزید برآں امام الجرح والتعدیل عبدالرحمن بن مہدی بھی ان سے روایت کرتے ہیں۔ (میزان الاعتدال:۱/۹۷) جن بعض علماء نے ان کی ثقاہت پر کلام کیا ہے ان کے بارے علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ اسرائیل بن یونس پر جرح کرنے والوں کا اعتبار نہیں کیا جائے گا؛کیونکہ ان کی ثقاہت مسلم ہے؛چنانچہ وہ رقمطراز ہیں: کان حافظاً صالحاً خاشعاً من اوعیۃ العلم ولا عبرۃ بقول من لینہ فقد اجتج بہ الشیخان وہ حافظ ،صالح، متورع، اورعلم کا ایک ظرف تھے، جو لوگ ان پر کلام کرتے ہیں ان کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا؛کیونکہ شیخین نے ان کو سند بنایا ہے۔ علامہ ذہبی علاوہ ازیں میزان میں جرح کرنے والوں کے تفصیلی تذکرے کے بعد لکھتے ہیں: قلت اسرائیل اعتمدہ البخاری فی الاصول وھو فی الثبت کا الاسطوانۃ یلتفت الی تضعیف من ضعفہ،نعم،شعبۃ الثبت منہ الا فی ابی اسحاق۔ (میزان الاعتدال:۱/۱۹۸) اسرائیل بن یونس پر امام بخاری ومسلم نے بھی اعتماد کیا ہے اورفی الحقیقت وہ تثبت میں ستون کی مانند اٹل ہیں لہذا تضعیف کرنے والوں کی بات کی طرف دھیان نہیں دیا جائے گا، ہاں یہ صحیح ہے کہ شعبہ ان سے زیادہ قوی ہیں لیکن مرویات ابی اسحاق میں وہ بھی اسرائیل کے ہمسر نہیں۔ ائمہ کا اعتراف علماء نے ان کے فضل وکمال کا برملا اعتراف کیا ہے، امام شعبہ سے کسی نے ابو اسحاق سبیعی کی روایت کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: سلوافیھا اسرائیل فانہ اثبت فیھا منی اس کے بارے میں اسرائیل سے رجوع کرو کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ قوی ہیں۔ عبدالرحمن بن مہدی انہیں ابو اسحاق کی مرویات کے سلسلہ میں شعبہ اورسفیان ثوری پر بھی فوقیت دیتے ہیں (تہذیب التہذیب:۱/۲۵۳)ابو نعیم کہتے ہیں "اسرائیل اثبت من ابی عوانہ" یحییٰ بن معین کا قول ہے کہ"اسرائیل اثبت حدیثاً من شریک" زہد وورع تقویٰ و پاکبازی خشوع وبے نفسی اسرائیل بن یونس کے دفتر کمال کے نمایاں ابواب ہیں، علم و فضل کی دولت کے ساتھ وہ عمل کے زیور سے بھی آراستہ تھے،علامہ ذہبی لکھتے ہیں: وکان اسرائیل مع حفظ وعلمہ خاشعا للہ کبیر القدر (میزان الاعتدال :۱/۹۸) اپنے علم اور قوتِ حافظہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل انتہائی خاشع اورعظیم المرتبت تھے۔ شفیق بلخی ان کے خشوع وخضوع کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ: اخذت الخشوع عن اسرئیل کنا حولہ لا یعرف من عن یمینہ ولا من عن شمالہ لتفکرہ فی الاخرۃ فعلمت انہ رجل صالح میں نے خشوع اسرائیل سے حاصل کیا، ہم لوگ ان کے ارد گرد رہتے تھے لیکن انہیں فکر آخرت میں ڈوبے رہنے کی بنا پر دائیں بائیں کی کچھ خبر نہیں رہتی تھی،بس اس وقت میں سمجھ گیا کہ وہ بہت نیک شخص ہیں۔ وفات اسرائیل بن یونس کی وفات باختلاف روایت ۱۶۰ھ یا ۱۶۲ھ میں ہوئی۔ (تاریخ بغداد:۷/۲۴،و تہذیب التہذیب:۱/۶۳)