انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اسلام اور ہجرت اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خلعت نبوت عطاہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخفی طورپر احباب مخلصین اور محرمان راز کے سامنے اس حقیقت کو ظاہر فرمایا تو مردوں میں سے حضرت ابوبکر ؓ نے سب سے پہلے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا ، بعض ارباب سیر نے ان کے قبول اسلام کے متعلق بہت سے طویل قصے نقل کئے ہیں ؛لیکن یہ سب حقیقت سے دور ہیں،اصل یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کا آئینہ دل پہلے سے صاف تھا، فقط خورشید حقیقت کی عکس افگنی کی دیرتھی،گذشتہ صحبتوں کے تجربوں نے نبوت کےخط وخال کو اس طرح واضح کردیا تھا کہ معرفت حق کے لئے کوئی انتظار باقی نہ رہا، البتہ ان کے اول مسلمان ہونے میں بعض مورخین اور اہل آثار نے کلام کیا ہے، بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کا اسلام سب سے مقدم ہے، بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اولیت کا فخرحاصل ہے اوربعض کا خیال ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ بھی حضرت ابوبکرؓ سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے؛ لیکن اس کے مقابلہ میں ایسے اخباروآثار بھی بکثرت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیت کا طغرائے شرف وامتیاز صرف اسی ذات گرامی کے لئے مخصوص ہے، حضرت حسان بن ثابت ؓ کے ایک قصیدہ سے بھی اسی خیال کی تائید ہوتی ہے: اذاتذکرۃ شجوامن اخی ثقۃ فاذکراخاک ابابکر بمافعلا جب تمہیں کسی سچے بھائی کا غم آوے تو اپنے بھائی ابوبکر کو یاد کروانکے کارناموں کی بناپر خیر البریۃ اتقا ہاواعدلھا بعدالنبی واوفاھابماحملا وہ تمام مخلوق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقویٰ اور عدل کے لحاظ سے بہتر تھے اور انہوں نے جو کچھ اٹھایا اس کو پورا کرکے چھوڑا۔ والثانی التالی المحمود مشھدہ واول الناس منھم صدق الرسلا وہی ثانی اور آپ کے بعد متصل ہیں جن کی مشکلات میں موجودگی کی تعریف کی گئی اور وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے رسولوں کی تصدیق کی ہے۔ محققین نے ان مختلف احادیث وآثار میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ عورتوں میں ، حضرت علی ؓ بچوں میں ، حضرت زید بن حارثہ ؓ غلاموں میں اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ آزاد اور بالغ مردوں میں سب سے اول مومن ہیں۔(فتح الباری ج ۷ ص ۱۳۰) اشاعت اسلام حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی دین حنیف کی نشر واشاعت کے لئے جدوجہد شروع کردی اور صرف آپ کی دعوت پر حضرت عثمان بن عفان ؓ ، حضرت زبیر بن العوام ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ، حضرت طلحہ بن عبداللہ ؓ جو معدن اسلام کے سب سے تاباں ودرخشاں جواہر ہیں مشرف باسلام ہوئے، حضرت عثمان بن مظعون ؓ ،حضرت ابوعبیدہ ؓ،حضرت ابو سلمہ ؓ اور حضرت خالد بن سعیدبن العاص ؓ بھی آپ ہی کی ہدایت سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے ، یہ وہ اکابرصحابہ ہیں جو آسمان اسلام کے اخترہائے تاباں ہیں ؛لیکن ان ستاروں کا مرکزشمسی حضرت ابوبکر ؓ صدیق ہی کی ذات تھی، اعلانیہ دعوت کے علاوہ ان کا مخفی روحانی اثر بھی سعید روحوں کو اسلام کی طرف مائل کرتا تھا؛چنانچہ اپنے صحن خانہ میں ایک چھوٹی سی مسجد بنائی تھی اور اس میں نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ عبادت الہیٰ میں مشغول رہتے تھے، آپ ؓ نہایت رقیق القلب تھے،قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتےلوگ آپ کے گریہ وبکاکو دیکھ کر جمع ہوجاتے اور اس پر اثرمنظر سے نہات متاثر ہوتے۔ (بخاری باب الہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ الی المدینہ) مکہ کی زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد کفار کی ایذارسانی کے باوجود تیرہ برس تک مکہ میں تبلیغ ودعوت کا سلسلہ جاری رکھا، حضرت ابوبکرؓ اس بے بسی کی زندگی میں جان،مال،رائے ومشورہ،غرض ہر حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ سلم کے دست وبازو اور رنج وراحت میں شریک رہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ صبح وشام حضرت ابوبکر ؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور دیر تک مجلس راز قائم رہتی۔(ایضاً) قبائل عرب اور عام مجمعوں میں تبلیغ وہدایت کے لئے جاتے تو یہ بھی ہمرکاب ہوتے اور نسب دانی اور کثرت ملاقات کے باعث لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کراتے ۔ (کنزالعمال ج ۶ : ۳۱۹ فضائل ابی بکر صدیق ؓ) مکہ میں ابتداءً جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی جو اپنے مشرک آقاؤں کے پنجۂ ظلم وستم میں گرفتار ہونے کے باعث طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا تھے، حضرت ابوبکر ؓ نے ان مظلوم بندگان توحید کو ان کے جفاکار مالکوں سے خرید کر آزاد کردیا؛چنانچہ حضرت بلال ؓ ،عامربن فہیرہ ؓ ،نذیرہ ؓ، نہدیہ ؓ، جاریہ ؓ ، بنی مومل ؓ اور بنت نہدیہ وغیرہ نے اسی صدیقی جودوکرم کے ذریعہ سے نجات پائی۔ کفار جب کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر دست تعدی دراز کرتے تو یہ مخلص جانثارخطرہ میں پڑکر خود سینہ سپر ہوجاتا، ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تقریر فرمارہے تھے مشرکین اس تقریر سے سخت برہم ہوئے اور اس قدر مارا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوگئے ، حضرت ابوبکر ؓ نے بڑھ کر کہا”خداتم سے سمجھے کیا تم صرف ان کو اس لئے قتل کردو گے کہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں(فتح الباری ج ۷ : ۱۲۹)، اسی طرح ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھ رہے تھے کہ اسی حالت میں عقبہ بن معیط نے اپنی چادر سے گلوئے مبارک میں پھنداڈال دیا، اس وقت اتفاقا ًحضرت ابوبکر ؓ پہنچ گئے اور اس ناہنجار کی گردن پکڑ کر خیرالانام علیہ السلام سے علیحدہ کیا اور فرمایا کیا تم اس کو قتل کروگے جو تمہارے پاس خدا کی نشانیاں لایا اور کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ (بخاری باب مالقی النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ من المشرکین بمکہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر ؓ میں رشتہ مصاہرت مکہ ہی میں قائم ہوا یعنی حضرت ابوبکر ؓ کی صاحبزادی حضرت عائشہ ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں ؛لیکن رخصتی ہجرت کے دوسال بعد ہوئی۔ ہجرت حبشہ کا قصد اور واپسی ابتداءً مشرکین قریش نے مسلمانوں کی قلیل جماعت کو چنداں اہمیت نہ دی ؛لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ روزبروزان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور اسلام کا حلقۂ اثروسیع ہوتا جاتا ہے تونہایت سختی سے انہوں نے اس تحریک کا سدباب کرنا چاہا، ایذا اور تکلیف رسانی کی تمام ممکن صورتیں عمل میں لانے لگے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے جانثاروں کو ان مصائب میں مبتلاپایا تو ستم زدوں کو حبش کی طرف ہجرت کی اجازت دی اور بہت سے مسلمان حبش کی طرف روانہ ہوگئے ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی باوجود وجاہت ذاتی اور اعزاز خاندانی کے اس داروگیر سے محفوظ نہ تھے؛چنانچہ جب حضرت طلحہ بن عبداللہ ان کی تبلیغ سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو حضرت طلحہ ؓ کے چچانوفل بن خویلدنے ان دونوں کو ایک ساتھ باندھ کرمارا اور حضرت ابوبکر ؓ کے خاندان نے کچھ حمایت نہ کی(طبقات ابن سعدقسم اول جزوثالث : ۱۹۳ یہ واقدی کی روایت ہے) ان اذیتوں سے مجبور ہوکر آپ ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی اور رخت سفر باندھ کر عازم حبش ہوئے ، جب مقام برک النعما میں پہنچے تو ابن الدغنہ رئیس قارہ سے ملاقات ہوئی ، اس نے پوچھا ابوبکر کہاں کا قصد ہے ؟آپ نے فرمایا کہ قوم نے مجھے جلاوطن کردیا ہے، اب ارادہ ہے کہ کسی اور ملک کو چلاجاؤں اور آزادی سے خدا کی عبادت کروں، ابن الدغنہ نے کہا کہ تم ساآدمی جلاوطن نہیں کیا جاسکتا تم مفلس وبےنواکی دست گیری کرتے ہو، قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو، مصیبت زدوں کی اعانت کرتے ہو، میرے ساتھ واپس چلو اور اپنے وطن ہی میں اپنے خداکی عبادت کرو؛چنانچہ آپ ابن الدغنہ کے ساتھ پھر مکہ واپس آئے ابن الدغنہ نے قریش میں پھر کر اعلان کردیا کہ آج سے ابوبکر ؓ میری امان میں ہیں، ایسے شخص کو جلاوطن نہ کرنا چاہئے جو محتاجوں کی خبرگیری کرتا ہے ،قرابت داروں کا خیال رکھتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے اور مصائب میں لوگوں کے کام آتا ہے ، قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو تسلیم کیا ؛لیکن فرمائش کی کہ ابو بکرکو سمجھادوکہ وہ جب اور جس طرح جی چاہے اپنے گھر میں نمازیں پڑھے اور قرآن کی تلاوت کریں ؛لیکن گھر سے باہر نمازیں پڑھنے کی ان کو اجازت نہیں مگر جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عبادت الہیٰ کے لئے اپنے صحن خانہ میں ایک مسجد بنالی تھی، کفار کو اسپر بھی اعتراض ہوا، انہوں نے ابن الدغنہ کو خبردی کہ ہم نے تمہاری ذمہ داری پر ابوبکر ؓ کو اس شرط پرامان دی تھی کہ وہ اپنے مکان میں چھپ کر اپنے مذہبی فرائض ادا کریں ، لیکن اب وہ صحن خانہ میں مسجد بناکر اعلان کے ساتھ نمازپڑھتے ہیں، اس سے ہم کوخوف ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہو کر اپنے آبائی مذہب سے بدعقیدہ نہ ہوجائیں، اس لئے تم انہیں مطلع کردو کہ اس سے باز آجائیں ورنہ تم کو ذمہ داری سے بری سمجھیں ، ابن الدغنہ نے ابوبکر صدیق ؓ سے جاکر کہا، تم جانتے ہو کہ میں نے کس شرط پر تمہاری حفاظت کا ذمہ لیا ہے ، اس لئے یا تو تم اس پر قائم رہو یا مجھے ذمہ داری سے بری سمجھو ، میں نہیں چاہتا کہ عرب میں مشہور ہوکہ میں نے کسی کے ساتھ بدعہدی کی، لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے نہایت استغنا کے ساتھ جواب دیا کہ”مجھے تمہاری پناہ کی حاجت نہیں میرے لئے خدااور اسکے رسول کی پناہ کافی ہے۔ (بخاری جلد اول باب ہجرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ) ہجرت مدینہ اور خدمت رسول کفارومشرکین کادست ستم روزبروز زیادہ دراز ہوتا گیا تو آپ نے پھر دوبارہ ہجرت کا قصدفرمایا اس وقت تک مدینہ کی سرزمین نوراسلام سے منور ہوچکی تھی اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو نہایت خلوص و محبت کے ساتھ اپنے دامن میں پناہ دے رہی تھی، اس لئے اس دفعہ آپ نے مدینہ کو اپنی منزل قراردیا اور ہجرت کی تیاری شروع کردی ، لیکن بارگاہ نبوت سے یہ حکم ہوا کہ ابھی عجلت سے کام نہ کرو، امید ہے کہ خدائے پاک کی طرف سے مجھے بھی ہجرت کا حکم ہوگا، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نہایت تعجب سے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا آپ کو بھی ہجرت کا حکم ہوگا؟ارشاد ہوا،"ہاں"عرض کیا”یارسول اللہ!مجھے ہمراہی کا شرف نصیب ہو،"فرمایا”ہاں!تم ساتھ چلوگے"اس بشارت کے بعد ارادہ ملتوی کردیا اور چارماہ تک منتظر رہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموما ًصبح وشام حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے گھر تشریف لایا کرتےتھے، ایک روز منہ کو چھپائے ہوئے خلاف معمول ناوقت تشریف لائے اور فرمایا کہ کوئی ہو تو ہٹادو میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے عرض کی کہ گھر والوں کے سوا اور کوئی نہیں ہے ، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہوگیا ہے، حضرت ابوبکر ؓ نے پھر ہمراہی کی تمنا ظاہر کی،ارشاد ہوا ہاں تیار ہوجاؤ وہ تو چار مہینے سے اسی انتظار میں بیٹھے ہوئےتھے،فوراًتیار ہوگئے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت اسماء ؓ نے جلدی جلدی رخت سفر درست کیا، حضرت اسماء ؓ کو توشہ دان باندھنے کے لئے کوئی چیز نہیں ملی تو انہوں نے اپنا کمر بند بھاڑ کر باندھا اور دربارنبوت سے ذات النطاقین کا خطاب پایا ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پہلے ہی سے دو اونٹ تیار کرلئے تھے ،ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور ایک پر خود سوار ہوئے ، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم وصدیق ؓ کا مختصر قافلہ راہی مدینہ ہوا۔ (بخاری جلد۳ باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدنیۃ) اس قافلہ کی پہلی منزل غارثور تھی، حضرت ابوبکر ؓ نے غار میں پہلے داخل ہوکر اس کو درست کیا، جو سوراخ اوربھٹ نظرآئے ان کو بندکیا ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اندرتشریف لانے کے لئے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں داخل ہوئے اور اپنے رفیق مونس کے زانوپر سر مبارک رکھ کر مشغول استراحت ہوگئے، اتفاقاً اسی حالت میں ایک سوراخ سے جو بند ہونے سے رہ گیا تھا ایک زہریلے سانپ نے سرنکالا، لیکن اس خادم جاں نثار نے اپنے آقا کی راحت میں خلل انداز ہونا گوارہ نہ کیا اور خود اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس پر پاؤں رکھ دیا ، سانپ نے کاٹ لیا زہر اثر کرنے لگا دردوکرب کے باعث آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے ؛لیکن اس وفا شعار رفیق نے اپنے جسم کو حرکت نہ دی کہ اس سے خواب راحت میں خلل اندازی ہوگی، اتفاقا آنسوکا ایک قطرہ ڈھلک کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر ٹپکا جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے اور اپنے مخلص غمگسار کو بے چین دیکھ کر فرمایا ابوبکر کیا ہے؟ عرض کیا “میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں، سانپ نے کاٹ لیا،”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اس مقام پر اپنا لعاب دہن لگادیا، اس تریاق سے زہر کا اثردور ہوگیا۔ (زرقانی ج۱ :۳۸۹) حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ ؓ کو ہدایت کردی تھی کہ دن کو مکہ میں جوواقعات پیش آئیں رات کو ہمارے پاس آکر ان کی اطلاع کرتے رہنا، اسی طرح اپنے غلام عامر بن فہیرہ ؓ کو حکم دیا تھا کہ مکہ کی چراگاہ میں بکریاں چرائیں اور رات کے وقت غار کے پاس لے آئیں ، چنانچہ صبح کے وقت جب حضرت عبداللہ ؓ واپس آتے تو حضرت عامر بن فہیرہ ؓ ان کے نشان قدم پر بکریاں لائے تاکہ نشان مٹ جائے اور کسی کو شبہ نہ ہو،رات کے وقت انہی بکریوں کا تازہ دودھ غذاکے کام آتا غرض تین دن اور تین راتیں اسی حالت میں بسر ہوئیں اور یہ تمام کاروائی اس احتیاط سے عمل میں آتی تھی کہ قریش کو ذرا بھی شبہ نہ ہوا۔ اس عرصہ میں کفار بھی اپنی کوششوں سے غافل نہ تھے جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی ہے اسی روز قریش کی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا فتویٰ صادر ہوچکا تھا اور تمام ضروری تدبیریں عمل میں آچکی تھیں ؛چنانچہ ابو جہل وغیرہ نے اس روز رات بھرکاشانۂ اقدس کا محاصرہ رکھا ؛لیکن جب وقت معین پر خواب گاہ میں داخل ہوئے تو وہ گوہر مقصودسے خالی تھا، وہاں سے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دولت کدہ پر گئے اور حضرت اسماء ؓ سے ان کے والد کو دریافت کیا، انہوں نے لاعلمی ظاہر کی تو ابو جہل نے غضبناک ہوکر زور سے ایک طمانچہ مارااور اسے یقین ہوگیا کہ یہ دونوں ایک ساتھ یہاں سے روانہ ہوگئے ۔ (سیرت ابن ہشام ج ۱ : ۲۶۹) قریش اپنی ناکامی پر سخت برہم ہوئے ، اسی وقت اعلان کیا گیا کہ جوشخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرکے لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دیئے جائیں گے ؛چنانچہ متعدد بہادروں نے مذہبی جوش اور انعام کی طمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش شروع کی، مکہ کے اطراف میں کوئی آبادی ،ویرانہ،جنگل اور پہاڑیاں، سنسان میدان ایسا نہ ہوگا جس کا جائزہ نہ لیا گیا ہو، یہاں تک کہ ایک جماعت غار کے پاس پہنچی، اسوقت حضرت ابوبکرصدیق ؓ کونہایت اضطراب ہوا اور حزن ویاس کے عالم میں بولے "اگر وہ ذرابھی نیچے کی طرف نگاہ کریں گے تو ہم دیکھ لئے جائیں گے"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو تشفی دی اور فرمایا مایوس وغمزدہ نہ ہوں ، ہم صرف دو نہیں ہیں، ایک تیسرا (یعنی خدا) بھی ہمارے ساتھ ہے(مسلم فضائل ابی بکر الصدیق ؓ)، اس تشفی آمیز فقرہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اطمینان ہوگیا اور ان کا مضطرب دل امدا دغیبی کے تیقن پر لازوال جرأت واستقلال سے مملو ہوگیا، خدا کی قدرت کہ کفار جو تلاش کرتے ہوئے اس غارتک پہنچے تھے ، ان کو مطلق محسوس نہ ہوا کہ ان کا گوہر مقصود اسی کان میں پنہاں ہے اور وہ ناکام واپس چلے گئے۔ چوتھے روز یہ کارواں آگے روانہ ہوا، اب اس میں بجائے دو کے چار آدمی تھے ، حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے غلام عامر بن فہیرہ کو راستہ کی خدمات کے لئے پیچھے بٹھا لیا ہے ، عبدبن اریقط آگے آگے راستہ بناتا جاتا ہے ، حضرت ابوبکر ؓ مہبط وحی والہام کی حفاظت کے لئے کبھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور کبھی پیچھے ہوجاتے ہیں، اسی اثنا میں سراقہ بن جعشم قریش کا ہرکارہ گھوڑا اڑاتاہوا قریب پہنچ گیا، حضرت ابوبکر ؓ نے خوفزدہ ہوکر کہا"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوار قریب پہنچ گیا"ارشاد ہوا، غمگین نہ ہو، خدا ہمارے ساتھ ہے"بارگاہ رب العالمین میں دعا کی، اس کا اثر یہ ہوا کہ سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے ، اترکر پانسہ پھینک کرفال نکالی، جواب آیا کہ اس تعاقب سے دستبردار ہوجاؤ نہ مانا،پھرآگے بڑھا،پھر وہی واقعہ پیش آیا ،مجبور ہوکر امان طلب کی اور واپس آگیا۔ (بخاری باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ ) حضرت ابوبکر صدیق ؓ نہایت کثیرالاحباب تھے راہ میں بہت سے ایسے شناسا ملے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے وہ پوچھتے تھے کہ ابوبکر ؓ یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ آپ گول مول جواب دیتے کہ یہ ہمارے رہنماہیں غرض اس طرح پہلی منزل ختم ہوئی ، حضرت ابوبکر ؓ نے ایک سایہ دار چٹان کے نیچے فرش درست کر کے اپنے محبوب آقا کے لئے استراحت کا سامان بہم پہنچایا اور خود کھانے کی تلاش میں نکلے،اتفاق سے ایک گڈریا اسی چٹان کی طرف آرہاتھا اس سے پوچھا کہ یہ بکریاں کس کی ہیں؟ اس نے ایک شخص کا نام لیا پھر دریافت فرمایا کہ اس میں کوئی دودہاری بکری بھی ہے؟ اس نے کہاہاں : آپ نے فرمایا ہمیں دودھ دوگے؟ اس نے رضامندی ظاہر کی تو آپ نےہدایت کی کہ پہلے تھن کو اور ہاتھوں کو گردوغبار سے اچھی طرح صاف کرلو، اس نے حسب ہدایت وہ دودھ دوہ کر پیش کیا ، آپ نے ٹھنڈا کرنے کے لئے اس میں تھوڑا ساپانی ملایا اور کپڑے سے چھان کر خدمت بابرکت میں لائے ، آپ نے نوش کیااور دوسری منزل کے لئےچل کھڑے ہوئے۔ (ایضاً) اسی طرح یہ مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتاہوا بارہویں ربیع الاول سنہ نبوت کے چودہویں سال مدینہ کے قریب پہنچا،انصارکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کا حال معلوم ہوچکا تھا وہ نہایت بے چینی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر کے قریب پہنچے تو انصار استقبال کے لئے نکلے اور ہادی برحق کو حلقہ میں لے کر شہر قبا کی طرف بڑھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جلوس کو داہنی طرف مڑنے کا حکم دیا اور بنی عمروبن عوف میں قیام پذیر ہوئے یہاں انصار جوق درجوق زیارت کے لئے آنے لگے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی کے ساتھ تشریف فرماتھے اور حضرت ابوبکر ؓ کھڑے ہوکر لوگوں کا استقبال کررہے تھےبہت سے انصار جو پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف نہیں ہوئے تھے وہ غلطی سے حضرت ابوبکر ؓ کے گرد جمع ہونے لگے یہاں تک کہ جب آفتاب سامنے آنے لگا اور جاں نثار خادم نے بڑھ کر اپنی چادر سے آقائے نامدارپر سایہ کیا تو اس وقت خادم ومخدوم میں امتیاز ہوگیا اور لوگوں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا۔ (بخاری باب ہجرۃ النی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ) حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں چندروز مقیم رہ کر مدینہ تشریف لائے اور حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے ہاں مہمان ہوئے ، حضرت ابوبکر ؓ بھی ساتھ آئے اور حضرت خارجہ بن زید ابن ابی زہیر ؓ کے مکان میں فروکش ہوئے (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : ۱۲۳)کچھ عرصہ کے بعد آپ کے اہل وعیال بھی حضرت طلحہ ؓ کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے ،(ایضاً ۱۵۳) لیکن مدینہ کی آب وہوامہاجرین کے لئے نہایت ناموافق ہوئی، خصوصا حضرت ابوبکر ؓ ایسے شدید بخار میں مبتلاہوئے کہ زندگی سے مایوس ہوگئے، ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ نے حال پوچھا تو اس وقت یہ شعر ورد زبان تھا۔ کل امرءٍ مصبح فی اھلہ والموت ادنی من شراک نعلہ ہرآدمی اس حالت میں ساتھ اپنے اہل وعیال میں صبح کرتا ہے کہ موت جوتے کے تسمہ سے بھی قریب ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ یہ حال دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کیفیت عرض کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: اللھم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکۃ اواشدوصححھاوبارک لنافی صاعھا ومدھاوانقل حماھافاجعلھا بالحجفۃ (بخاری باب مقدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینہ) ‘اے خداتومکہ کی طرح یا اس سےبھی زیادہ مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں پیداکر،اسکو بیماریوں سے پاک فرما،اسکے صاع اور مدمیں برکت دے اور اسکے(وبائی) بخارکو حجفہ میں منتقل کردے" دعا مقبول ہوئی حضرت ابوبکر ؓ بسترمرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ کی ہوامہاجرین کے لئے مکہ سے بھی زیادہ خوش آئند ہوگئی۔ مواخات مدینہ پہنچنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصارکی باہمی اجنبیت وبیگانگی دورکرنے کے لئے ایک دوسرےسے بھائی چارہ کرادیا، اس مواخات میں طرفین کے اعزازومرتبہ کاخاص طورپر لحاظ کیا گیا؛چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ کی برادری حضرت حارثہ بن زہیر رضی اللہ تعالی عنہ سے قائم کی گئی جو مدینہ میں ایک معزز شخصیت کے آدمی تھے۔ (اسدالغابہ تذکرۂ خارجہ بن زہیر ؓ) تعمیرمسجد مدینہ اسلام کے لئے آزادی کی سرزمین تھی،فرزندان توحیدجوکفارکے خوف سے ادھر ادھر منتشر ہوگئے تھے آہستہ آہستہ اس مرکز پر جمع ہونے لگے اور اب آزادی واجتماع کے ساتھ معبود حقیقی کی پرستش کا موقع حاصل ہوا، اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے تعمیر مسجد کا خیال پیدا ہوا،اس کے لئے جو زمین منتخب ہوئی وہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی، گوان کے اولیاء واقرباء بلاقیمت پیش کرنے پر مصر تھے، تاہم رحمت اللعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے یتیموں کا ما ل لینا پسند نہ فرمایا اور حضرت ابوبکر ؓ سے اس کی قیمت دلوادی۔ (فتح الباری ج ۷ : ۱۹۳) اس طرح مدینہ پہنچنے کے بعد بھی سب سے پہلےصدیق اکبر ؓ ہی کے ابرکرم نے اسلام کے لئے جودوسخا کی بارش کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ یہ پیرمرداس کی تعمیر میں بھی نوجوانوں کے دوش بدوش سرگرم کاررہا۔