انوار اسلام |
س کتاب ک |
تراویح میں سجدۂ تلاوت کا اعلان کریں یا نہ کریں؟ خیر القرون میں عرب و عجم میں کثیر تعداد میں جہلاء اور نومسلم ہونے کے باوجود سلف صالحین سے ایسا اعلان ثابت نہیں، حالانکہ وہ اسلامی اعمال کی تبلیغ میں چست اور عبادات کی درستگی کے بڑے حریص تھے، فقہاء نے بھی اس طرح کے اعلان کی ہدایت نہیں کی ہے، اگر ضرورت ہوتی تو ضرور تاکید فرماتے، جیسے کہ مسافر امام کو خصوصی طور پر تاکید فرمائی ہے کہ نمازیوں کو اپنے مسافر ہونے کی اطلاع دیدے، چاہے نماز سے پہلے ہو یا بعد میں کہ ‘‘میں مسافر ہوں’’ ، کیونکہ یہاں ضرورت ہے، لیکن سجدۂ تلاوت میں عام طور پر ایسی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر بلاضرورت یہ طریقہ جاری ہا تو قوی اندیشہ ہے کہ جس طرح بعض شہروں کا رواج ہے کہ نماز جمعہ کے وقت اعلان کیا جاتا ہے:الصلوٰۃ سنۃ قبل الجمعۃ ۔ یا یہ کہا جاتا ہے کہانصتوا رحمکم اللہ ۔ اور دوسرا اعلان سنت یا فعلِ حسن سمجھا جاتا ، اسی طرح سجدۂ تلاوت کا یہ اعلان بھی ضروری اور بہت ممکن ہے سنت سمجھا جانے لگے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ مباح چیز کو ضروری سمجھنے سے دیگر خرابی کے سواء اس بات کا احتمال ہے کہ مباح کو مسنون سمجھ لیا جائے اور غیر مسنون کو مسنون سمجھ لینا تحریفِ دین ہے۔ (ازالۃ الخفاء مجلس :۱، فصل:۵) البتہ اگر مجمع کثیر ہو جیسا کہ بڑے شہروں میں ہوتا ہے کہ صفیں دور تک ہوتی ہیں، کچھ صفیں بالائی منزل پر بھی ہوتی ہیں اور وہاں مغالطہ کا قوی احتمال رہتا ہے کہ لوگوں کو سجدۂ تلاوت کا پتہ نہ چلے اور سجدہ کے بجائے رکوع کرنے لگیں تو ایسے موقع پر بے شک بموجب "الضرورات تبیح المحذورات" اعلان کی اجازت دی جاسکتی ہے، مگر ہر جگہ کا یہ حکم نہیں ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۵/۱۹۹، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۴۲۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)