انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عمل راوی کے اختلاف سے اعتماد روایت میں کمی قبولیت روایت میں اعتماد کواتنی اُصولی حیثیت حاصل رہی ہے کہ اگرکوئی حدیث ثقہ راویوں سے بھی منقول ہوتمام راویوں میں اتصال بھی پایا جاتا ہو، صیغہ تحدیث بھی ہرجگہ موجود ہو عن کا مظنہ کہیں نہ ہو، روایت اصولی طور پر بالکل صحیح ہومگر اس صحابی کا اپنا عمل اس روایت کے خلاف ہوتوفوراً شبہ اُٹھے گا کہ شاید یہ حدیث منسوخ العمل ہو یااس زمانے سے تعلق رکھتی ہو، جب شریعت تکمیل کے تدریجی مراحل طے کررہی تھی بعض احکام منسوخ ہوجاتے تھے اور اُن کی جگہ نئے آجاتے تھے۔ پہلے دور کی کوئی بات ثقہ راویوں سے منقول ہو وہ صحیح توہوگی؛ لیکن بعد کے احکام کی روشنی میں حجت اور لائقِ عمل نہ سمجھی جائے گی؛ اسی طرح اگر کسی صحابی کا اپنا عمل اس کی اپنی روایت کے خلاف ہوتوظاہر ہے کہ صحت اسناد کے باوجود اعتماد روایت میں کچھ کمی ضرور آئے گی اس وقت اس اصول پر بحث کرنا مقصود نہیں، یہاں بتلانا صرف یہ ہے کہ قبولیت روایت میں اصل الاصول ہمیشہ اعتماد رہا ہے اور اسے کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں: "راوی الحدیث اعرف بالمراد بہ من غیرہ ولاسیما الصحابی المجتہد"۔ (فتح الباری جلد:۱/۴۴۵) ترجمہ: حدیث کا راوی اس کی مراد کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے، خصوصاً جب کہ وہ صحابی مجتہد ہو۔