انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت انس بن مالکؓ نام ونسب اورابتدائی حالات انس نام،ابوحمزہ کنیت،خادم رسول اللہ لقب، قبیلہ نجار سے ہیں،جو انصار مدینہ کا معزز ترین خاندان تھا، نسب نامہ یہ ہے،انسؓ بن مالکؓ بن نضربن ضمضم بن زید بن حرام بن جنب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار، والدہ ماجدہ کا نام حضرت ام سلیم سہلہؓ بنت لمحان انصاریہ ہے جن کا سلسلۂ نسب تین واسطوں سے حضرت انسؓ کے آبائی سلسلہ میں مل جاتا ہے اور رشتہ میں وہ آنحضرتﷺ کی خالہ ہوتی تھیں۔ حضرت انسؓ ہجرت نبویﷺ سے دس سال پیشتر شہر یثرب میں پیدا ہوئے ۸،۹ سال کا سن تھا کہ ان کی ماں نے اسلام قبول کرلیا، ان کے والد بیوی سے ناراض ہوکر شام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا،ماں نے دوسرا نکاح ابو طلحہ سے کرلیا جن کا شمار قبیلۂ خزرج کے متمول اشخاص میں تھا اوراپنے ساتھ حضرت انسؓ کو ابو طلحہ کے گھر لے گئیں،حضرت انسؓ نے انہی کے گھر میں پرورش پائی۔ قبل اسلام عربوں کی جہالت کا یہ نقشہ تھا کہ باپ (ابوطلحہ) کی صحبت میں جب بادہ وجام کا دور چلتا تو بیٹا(انسؓ) ساقی گری کرتا، وہ پہلے دوسروں کو پلاتے اوربعد میں خود پیتے تھے اوراس دس سالہ بچے کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ (مسند احمد:۳/۱۸۱) حضرت انسؓ کا نام ان کے چچا انسؓ بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا؛لیکن کنیت نہ تھی وہ آنحضرتﷺ نے تجویز فرمائی،انسؓ ایک خاص قسم کی سبزی جس کا نام حمزہ تھا چنا کرتے تھے،ا ٓنحضرتﷺ نے اسی مناسبت سے ان کی کنیت ابو حمزہ پسند فرمائی۔ اسلام حضرت انسؓ کا سن ۸،۹ سال کا تھا کہ مدینہ میں اسلام کی صدا بلند ہوئی،بنو نجار نے قبول اسلام میں جو پیش دستی کی تھی اس کا اثر یہ تھا کہ اس قبیلہ کے اکثر افراد آنحضرتﷺ کے یثرب تشریف لانے سے قبل توحید ورسالت کے علمبردار ہوچکے تھے، حضرت انسؓ کی والدہ (ام سُلیمؓ) نے بھی عقبہ ثانیہ سے پیشتر دین اسلام اختیار کرلیا تھا اورجیسا کہ ابھی اوپر گذرچکا ہے کہ ان کے والد بت پرست تھے وہ بیوی کے اسلام پر برہم ہوکر شام چلے گئے تھے ،ادھر ام سلیم نے ابو طلحہ سے اس شرط پرنکاح کرلیا کہ وہ بھی مذہب اسلام قبول کریں؛چنانچہ وہ مسلمان ہوچکے تھے اورعقبہ ثانیہ میں آنحضرتﷺ کے دست حق پر ست پر مکہ جاکر بیعت کی تھی،اس طرح حضرت انسؓ کا پورا گھر نورایمان سے منور تھا ،ان کی جنتی ماں (ام سلیمؓ) شمع اسلام کی پروانہ تھیں اوران کے محترم باپ حضرت ابوطلحہؓ دین حنیف کے ایک پرجوش فدائی تھے بیٹے نے انہیں والدین کی آغوش محبت میں تربیت پائی اورمسلمان ہوا۔ خدمت رسولﷺ ۱۰ سال کی عمر ہوگی کہ وہ یوم مسعود آیا جس کے انتظار میں اہل یثرب نے مہینوں راتیں کاٹی تھیں،یعنی رسول اللہ ﷺ یثرب تشریف لائے اورشہر یثرب کو مدینۃ النبی ہونے کا شرف عطا فرمایا، حضرت انسؓ گو اس وقت صغیر السن تھے؛ لیکن پر جوش تھے جس ساعت سعید میں مدینہ طیبہ کا افق آفتاب نبوت کی نورانی شعاعوں سے منور ہورہا تھا،حضرت انسؓ اوربہت سے کم سن لڑکے جاء رسول اللہ ﷺ کا مژدہ جاں بخش اہل یثرب کو سنارہے تھے اورنہایت جوش میں خوشی خوشی شہرکا گشت لگا رہے تھے جاء محمد کی آواز کان میں آتی مڑکر دیکھتے (مسند احمد:۳/۲۳۲) کہ شاید کاروان قدس منزل مقصود پر خیمہ زن ہوا ہے ؛لیکن گرد کارواں کے سوا کچھ نظر نہ آتا، اتنے میں گرد ہٹی اورنہایت ہی شوکت وشان سے کو کبہ نبوت نمودار ہوا، حضرت انسؓ کی عقیدت مند نگاہ رخ انور پر پڑی اورتصدیق قلبی اور اقرار لسانی نے صحابیت کا ممتاز شرف بارگاہ نبوت سے حاصل کیا ۔ آنحضرتﷺ نے مدینہ میں اقامت فرمائی تو حضرت ابوطلحہؓ حضرت انسؓ کو لیکر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اوردرخواست کی کہ انسؓ کو اپنی غلامی میں لے لیجئے، آنحضرتﷺ نے منظور فرمایا اورحضرت انسؓ خادمان خاص کے زمرہ میں داخل ہوگئے۔ حضرت انسؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات تک اپنے فرض کو نہایت خوبی سے انجام دیا ،وہ کم وبیش دس برس حامل نبوتﷺ کی خدمت کرتے رہے اورہمیشہ اس شرف پر ان کو ناز رہا،معمول تھا کہ فجر کی نماز سے پیشتر دراقدس پر حاضر ہوجاتے اور دوپہر کو اپنے گھر واپس آتے ،دوسرے وقت پھر حاضر ہوتے اور عصر تک رہتے،نماز عصر پڑھ کر اپنے گھر کا رخ کرتے تھے ،محلہ میں ایک مسجد تھی وہاں لوگ ان کا انتظار کرتے جب یہ پہنچتے اس وقت وہاں نماز ہوتی تھی۔ (مسند احمد:۳/۲۳۲) ان اوقات کے ماسوا بھی وہ آنحضرتﷺ کے احکام کی تعمیل کے لئے حاضر رہتے تھے، ایک مرتبہ حضرت انسؓ آپ کے کاموں سے فارغ ہوکر گھر روانہ ہوئے ،دوپہر کا وقت تھا لڑکے کھیل رہے تھے حضرت انسؓ بھی کھڑے ہوکر تماشادیکھنے لگے، اتنے میں آنحضرتﷺ ادھر تشریف لائے لڑکوں نے دور سے دیکھ کر حضرت انسؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ آرہے ہیں،آنحضرتﷺ نے حضرت انسؓ کا ہاتھ پکڑ کر کسی کام کے لئے بھیج دیا اورخود ایک دیوار کے سایہ تشریف فرمارہے ،حضرت انسؓ کو دیر ہوگئی تھی گھر گئے تو ام سلیمؓ نے پوچھا آج دیر کہا ں لگائی، انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ کے ایک کام سے گیا تھا وہ بہانہ سمجھیں اور پوچھا کام کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ایک پوشیدہ بات تھی،حضرت ام سلیمؓ نے کہا اس کو کسی سے نہ کہنا؛چنانچہ حضرت انسؓ نے کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ ایک مرتبہ حضرت ثابتؓ سے جوان کے تلامذہ خاص تھے فرمایا اگر میں کسی شخص کو اس راز سے آگاہ کرتا تو وہ تم تھے؛ لیکن میں بیان نہیں کروں گا۔ (مسند احمد :۳/۱۰۹،۱۹۵) حضرت انسؓ ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہتے تھے سفر وحضر اورخلوت وجلوت کی ان کے لئے کوئی تخصیص نہ تھی اورنزول حجاب سے پہلے وہ آنحضرتﷺ کے گھر میں آزادی کے ساتھ آتے جاتے تھے۔ ایک دن نماز فجر سے قبل آنحضرتﷺ نے فرمایا:آج روزہ کا ارادہ ہے مجھے کچھ کھلادو،حضرت انسؓ جلدی سے اٹھے اورکچھ خرمے اورپانی لیکر حاضر ہوئے، آنحضرتﷺ نے سحری کھائی اورپھر نماز فجر کے لئے تیار ہوئے۔ داخلہ خیبر کے وقت جبکہ نبوت کا جاہ وجلال فاتح کی شان و شوکت رکھتا تھا،حضرت انسؓ کے قدم آنحضرتﷺ کے قدم کوچھو گئے،جس سے ازار مبارک کھسک گیا اورآنحضرتﷺ کے زانوئے مقدس کی سفیدی لوگوں کو نظر آگئی، حضور نے کچھ خیال نہ فرمایا اورحضرت انسؓ کی اس خطا سے درگذر کی۔ حضرت انسؓ،آنحضرتﷺ کے تمام کام نہایت مستعدی اورتندہی سے بجالاتے اوراپنی فرماں برداری سے حضور ﷺکو خوش رکھتے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے دس برس آنحضرتﷺ کی خدمت کی؛لیکن اس مدت میں آپ کبھی خفا نہ ہوئے اورنہ کبھی کسی کام کی نسبت یہ فرمایا کہ اب تک کیوں نہ ہوا، آنحضرتﷺ کو ان سے خاص محبت ہوگئی تھی ان کو بیٹا اور کبھی کبھی پیار میں "انیس" کہہ کر مخاطب فرماتے تھے اکثر ان کے گھر تشریف لیجاتے، چھوہارے نوش فرماتے،کھانا موجود ہوتا تو کھانا تناول فرماتے ،دوپہر کا وقت ہوتا تو آرام کرتے ،نماز پڑہتے اورحضرت انسؓ کیلئے دعا فرماتے ۔ پہلے گذرچکا ہے،حضرت انسؓ کی ماں حضرت ام سلیمؓ آنحضرت ﷺ کی رشتہ میں خالہ ہوتی تھیں وہ آنحضرتﷺ سے بہت محبت کرتی تھیں اور آنحضرتﷺ کو بھی ان کا حد درجہ خیال تھا،غزوہ ٔخیبر میں صفیہؓ اسیر ہوکر آئیں اورآنحضرتﷺ نے نکاح کا خیال ظاہر فرمایا تو حضرت ام سلیمؓ کے پاس بھیج دیا،ام سلیمؓ نے شادی کا سامان کیا اورحضرت صفیہؓ کو دلہن بنا کر شب کو آنحضرتﷺ کے خیمہ اطہر میں پہنچایا۔(مسندانسؓ بن مالکؓ) اسی طرح جب آنحضرتﷺ نےحضرت زینبؓ سے عقد کیا،تو ام سلیمؓ نے ایک لگن میں مالیدہ بناکرآنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا، آپﷺ نے صحابہؓ کوطلب فرمایا اورایک مختصر سا جلسہ دعوت ترتیب دیا۔ غرض ان مختلف خصوصیتوں نے حضرت انسؓ کو خاندان نبوت کا ایک ممبر بنادیا تھا،آنحضرتﷺ کبھی کبھی خوش طبعی میں ان سے مزاح فرماتے تھے ،ابوحمزہ ان کی کنیت اسی مزاح کا نتیجہ تھی،ایک مرتبہ مزاح میں ارشاد فرمایا :یاذالا ذنین ،یعنی اے دوکان والے عام حالات بارگاہ اقدس میں حضرت انسؓ کو جو قرب واختصاص تھا وہ تم اوپر پڑھ چکے ہو ،تم نے دیکھا ہوگا کہ سفر وحضر اور خلوت وجلوت میں وہ کس استقلال سے آنحضرتﷺ کے شریک صحبت رہتے تھے،یہی جوش محبت تھا جس نے میدان جنگ میں بھی آقا سے علیحدہ نہ ہونے دیا، غزوہ بدر میں ان کی عمر کچھ نہ تھی۱۲ برس کا سن تھا،لیکن مجاہدین اسلام کے پہلو بہ پہلو میدان جنگ میں موجود تھے اورآنحضرتﷺ کی خدمت میں خدمت گذاری کا فرض بجارہے تھے، ان کی اس کمسنی سے لوگوں کو شرکت بدر میں اشتباہ ہوتا تھا ؛ چنانچہ ایک شخص نے پوچھا کہ آپ بدر میں موجود تھے،حضرت انسؓ نے فرمایا میں بدر سے کہاں غائب ہوسکتا تھا؟ واقعۂ بدر سے ایک سال بعد غزوۂ احد واقع ہوا، اس میں بھی حضرت انسؓ بہت کم عمر تھے،ذیقعدہ۶ھ میں حدیبیہ اوربیعت الرضوان پیش آئی، اس وقت حضرت انسؓ کا عنفوان شباب تھا، یعنی ۱۶ برس کا سن تھا اب وہ میدان جنگ میں نبرد آزمائی کے قابل ہوگئے تھے،۷ھ میں آنحضرتﷺ نے عمرۃ القضا کیا، اس میں حضرت انسؓ تمام جان نثاروں کی طرح آنحضرتﷺکے ہمرکاب تھے،اسی سنہ میں خیبر پر فوج کشی ہوئی اس غزوہ میں حضرت انسؓ ،ابوطلحہؓ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے اورآنحضرت ﷺ سے اس قدر قریب تھے کہ ان کا قدم آنحضرتﷺ کے قدم سے مس کررہا تھا،۸ھ میں مکہ اور طائف میں معرکوں کا بازار گرم ہوا اور ۱۰ھ میں آنحضرتﷺنے حجۃ الوداع یعنی آخری حج کیا، ان سب واقعات میں حضرت انسؓ نے شرکت کی اور سعادت دنیوی اوراُخروی سے بہرہ اندوز ہوئے۔ آنحضرتﷺکے غزوات کی تعداد اگرچہ ۲۶،۲۷ تک پہنچتی ہے؛لیکن جن مقابلوں میں جنگ وقتال کی نوبت آئی ہے وہ صرف ۹ ہیں،بدر،احد،خندق،قریظہ،مصطلق،خیبر مکہ،حنین،طائف،حضرت انسؓ ان سب میں موجود تھے ،موسیٰ بن انسؓ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کے پدر بزرگوار آنحضرتﷺ کے کتنے معرکوں میں شریک تھے ،انہوں نے کہا آٹھ میں، غالباً انہوں نے بدر کو شامل نہیں کیا، جس کا سبب یہ ہے کہ بدر میں حضرت انسؓ اس عمر تک نہیں پہنچے تھےجو جہاد کی شرکت کے لئے ضرور قرار دی گئی ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے،انہوں نے حضرت انسؓ کو بحرین میں صدقات کا افسر بنانا چاہا، پہلے حضرت عمرؓ سے مشورہ کیا،انہوں نے کہا کہ انسؓ بہت ہوشیار شخص ہیں آپ نے جو خدمت ان کے لئے تجویز کی ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں ؛چنانچہ حضرت انسؓ کو بارگاہ خلافت میں طلب کیا اوربحرین کاعامل بنا کر بھیجا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں حضرت انسؓ کو تعلیم فقہ کے لئے ایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ کیا، اس جماعت میں تقریباً دس اشخاص تھے،حضرت انسؓ نے مستقل طور سے بصرہ میں سکونت اختیار کی اورزندگی کا بقیہ حصہ یہیں بسر کیا۔ ان مشاغل کے ماسوا اس عہد کی تمام لڑائیوں میں حضرت انسؓ نے خصوصیت سے حصہ لیا ہے،فتوح عجم میں واقعہ تستر خاص اہمیت رکھتا ہے،حضرت انسؓ اس معرکہ میں پیدل فوج کے افسر اعلی تھے،شہر فتح ہونے کے بعد سپہ سالار عساکرعجم جس کا نام ہر مزان تھا اور ایران کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا مع اپنے اہل وعیال کے قید ہوکر اسلامی سپہ سالار اعظم حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے روبرو حاضر کیا گیا، حضرت ابو موسیٰ نے ہر مزان کو حضرت انسؓ کے ہمراہ بارگاہ خلافت میں روانہ کیا اور ۳۰۰ سپاہیوں کا ایک دستہ ہر مزان کی حفاظت کے لئے حضرت انسؓ کی ماتحتی میں دیا، حضرت انسؓ مدینہ منورہ پہنچے اوراپنے مقدس وطن کی زیارت سے محبت کی آنکھیں روشن کیں۔ کچھ دنوں مدینہ منورہ میں ٹھہر کر بصرہ واپس ہوئے ،ذوالحجہ ۲۳ھ میں حضرت عمرؓ نے شہادت حاصل کی اورحضرت عثمان ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے ان کی خلافت کا ابتدائی زمانہ نہایت پر امن تھا،لیکن کچھ دنوں کے بعد حالات نے نہایت خوفناک صورت اختیار کرلی اور فتنوں کا دروازہ دفعۃً کھل گیا ،آفاق عالم سے مفسدین اٹھ کھڑے ہوئے جابجا باغیانہ تحریکیں نشوونما پانے لگیں،ملک کے ہر ہر گوشہ میں فتنہ و فساد کی آگ مشتعل ہوئی اورشورہ پشتوں کے سیلاب نے دارالخلافت مدینہ منورہ کا رخ کیا۔ لیکن اس وقت اسلامی مملکت کے مختلف حصوں میں بہت سی ایسی شخصیتیں موجود تھیں جوظلم کی طاقت سے مرعوب نہیں ہوتے تھے،چنانچہ جب امام مظلوم کی صدائے حق دارالخلافۃ کے ایک مقدس گوشہ سے بلند ہوئی تو سب سے پہلے ان حاملان صداقت نے اسے سنا اورحمایت حق پر کمر ہمت باندھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ سلطنت اسلامیہ کے ہر حصہ میں ان بزرگوں کا وجود تھا، بصرہ بھی جو عراق عرب کا صدر مقام تھا، ان بزرگوں سے خالی نہ تھا؛چنانچہ جب بصرہ میں ان ہولناک واقعات کی خبر پہنچی،تو حضرت انسؓ بن مالک، حضرت عمران بن حصینؓ اوردوسرے بزرگوار نصرت دین اور تائید اسلام کے لئے مستعد ہوگئے اوراپنی پرجوش تقریروں سے تمام شہر میں آگ لگادی ؛لیکن یہ امداد پہنچنے بھی نہ پائی تھی کہ خلیفہ اسلام شہید ہوچکا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مسند خلافت کو اپنے جلوس سے زینت بخشی ،خلافت کو چھ ماہ بھی نہ گذے تھے کہ ایک عظیم الشان فتنہ نے بصرہ سے سرا ٹھایا،جس کی لپیٹ میں صحابہ بھی آگئے،بصرہ حضرت انسؓ کا مستقل قرار گاہ اور وہاں ان کا خاص اثر تھا، لیکن انہوں نے اس فتنہ سے اپنا دامن بالکل محفوظ رکھا وہ دوسرے صحابہ کرام کی طرح گوشہ نشین رہے اور اس وقت تک نہ نکلے جب تک آتش فساد سرد نہ ہوگئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد وہ عرصہ تک زندہ رہے اورانقلاب زمانہ کے عجیب وغریب مناظر دیکھتے رہے،لیکن انہوں نے گوشہ خلوت کو مقدم جانااور شہرت کی گوناگوں دلفریبیوں پر اپنے نفس کو مائل نہ کیا۔ باایں ہمہ وہ عمال حکومت کے دست ستم سے محفوظ نہ رہ سکے،عبدالملک بن مروان کےزمانہ خلافت میں حجاج بن یوسف ثقفی جو سلطنت امویہ کے مشرقی ممالک کا گورنرتھا اورظلم وجور میں اپنا نظیر نہیں رکھتا تھا،جب بصرہ آیا تو حضرت انسؓ کو بلا کر نہایت سخت تنبیہ کی اور لوگوں میں ذلیل کرنے کی خاطر گردن پر مہر لگوادی۔ حجاج کا خیال تھا کہ حضرت انسؓ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں؛ چنانچہ ان کو دیکھ کر کہا: انسؓ یہ چال بازی !کبھی مختار کا ساتھ دیتے ہو اورکبھی ابن اشعث کا ،میں نے تمہارے لئے بڑی سخت سزا تجویز کی ہے،حضرت انسؓ نے نہایت تحمل سے کام لیکر پوچھا! خدا امیر کو صحت دے کس کے لئے سزا تجویز ہوئی ہے،حجاج نے کہا تمہارے لئے، حضرت انسؓ خاموش ہوکر اپنے مکان واپس تشریف لائے اورخلیفہ عبدالملک کے پاس ایک خط میں جس میں حجاج کی شکایت لکھی تھی روانہ کیا ،عبدلملک نے خط پڑھا تو غصہ سے بیتاب ہوگیا اور حجاج کو ایک تہدید آمیز خط لکھا کہ حضرت انسؓ سے فوراً ان کے مکان پر جاکر معافی مانگو ورنہ تمہارے ساتھ بہت سخت برتاؤ کیا جائےگا، حجاج مع درباریوں کے خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور معافی مانگی اور درخواست کی کہ خوشنودی کا ایک خط خلیفہ کے پاس بھیج دیں ؛چنانچہ حضرت انسؓ نے اس کی عرضداشت منظور کی اوردمشق ایک خط روانہ کیا۔ وفات عمرشریف اس وقت سو سے متجاوز ہوچکی تھی۹۳ ھ میں پیمانہ عمر لبریز ہوگیا،چند مہینوں تک بیمار رہے،شاگردوں اور عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا تھا،اور دور دور سےلوگ عیادت کو آتے تھے،جب وفات کا وقت قریب ہوا تو ثابت بنانی سے کہاجوتلامذہ خاص میں تھے ،فرمایا کہ میری زبان کے نیچے آنحضرتﷺ کا موئے مبارک رکھ دو، ثابت نے تعمیل حکم کی اسی حالت میں روح مطہر نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وفات کے وقت حضرت انسؓ عمر کے ۱۰۳ مرحلے طے کرچکے تھے ،بصرہ میں سوائے ان کے اور کوئی صحابی زندہ نہ تھا اورعموماً عالم اسلامی (بجز ابوالطفیل) صحابہ کرام کے وجود سے خالی ہوچکا تھا،نماز جنازہ میں اہل وعیال تلامذہ اوراحباب خاص کی معتد بہ تعداد موجود تھی،فطن بن مدرک کلابی نے نماز جنازہ پڑھائی اوراپنےگھر کے قریب موضع طف میں دفن کئے گئے۔ حضرت انسؓ کی وفات سے لوگوں کو سخت صدمہ ہوا اورواقعی رنج والم کا مقام تھا،تر بیت یافتگان نبوت ایک ایک کرکے اٹھ گئے تھے ،صرف دو شخص باقی تھے جن کی آنکھیں شمع نبوت کے دیدار سے روشن ہوئی تھیں، اب ان میں سے بھی ایک نے دنیائے فانی سے قطع تعلق کرلیا۔ حضرت انسؓ کا انتقال ہوا تو مورق بولے افسوس! آج نصف عالم جاتا رہا، لوگوں نے کہا یہ کیونکر؟ کہا میرے پاس ایک بدعتی آیا کرتا تھا وہ جب حدیث کی مخالفت کرتا میں اسے حضرت انسؓ کے پاس حاضر کرتا تھا؟ حضرت انسؓ حدیث سنا کر اس کی تشفی کرتے تھے ،اب کون صحابی ہے جس کے پاس جاؤں گا۔ آل واولاد اورخانگی حالات حضرت انسؓ کثرت اولاد میں تمام انصار پر فوقیت رکھتے تھے اور یہ آنحضرتﷺ کی دعا کا اثر تھا، ایک مرتبہ آپ ان کے مکان پر تشریف لے گئے،ام سلیمؓ نے عرض کی انسؓ کے لئے دعا فرمائیے؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے دیر تک دعا کی اوراخیر میں یہ فقرہ زبان مبارک سے ارشاد فرمایا: اللھم اکثر مالہ وولدہ وادخلہ الجنۃ، حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ دو باتیں پوری ہوئیں، اور تیسری کا منتظر ہوں، مال کی یہ حالت تھی کہ انصار میں کوئی شخص ان کے برابر متمول نہ تھا، اولاد کی اتنی زیادتی تھی کہ خاص حضرت انسؓ کے ۸۰ لڑکے اور دولڑکیاں (لڑکیوں کے نام حفصہ اور ام عمروتھا)تولد ہوئیں اورپوتوں کی تعداد اس پر متزاد تھی، مختصر یہ کہ وفات کے وقت بیٹوں اور پوتوں کا ایک پورا کنبہ چھوڑ اتھا جن کا شمار ۱۰۰ سے اوپر تھا، حضرت انسؓ کے مشہور بیٹوں اور بیٹیوں کے نام یہ ہیں عبداللہ، عبید اللہ، زید یحییٰ، خالد، موسی، نضر، ابوبکر،براء، علا، عمر،رملہ ،امیمہ،ام حرام، (نزھۃ الابرار فی الاسامی ومناقب الاخیار تالیف وجیہہ الدین ابو الفضائل عمربن عبدالمحسن بن ابی بکر قلمی) حضرت انسؓ کو اپنی اولاد سے بہت محبت تھی وہ اکثر اپنے مکان پر رہتے تھے، ازدیاد الفت کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اپنے لڑکوں کو خود تعلیم دیتے تھے،لڑکیوں کو بھی حلقہ درس میں بیٹھنے کی اجازت تھی،ان کے کئی لڑکے فن حدیث میں شیخ اورامام کا منصب رکھتے تھے،اورطبقہ تابعین میں خاص عظمت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے جو حضرت انسؓ کی تعلیم کا اثر تھا۔ تعلیم کے ما سوا حضرت انسؓ بہت بڑے تیر انداز تھے،اپنے لڑکوں کو تیر اندازی کی بھی مشق کراتے تھے،پہلے لڑکے نشانہ لگاتے،جس میں بسا اوقات غلطی ہوجاتی،تو خود حضرت انسؓ ایسا تیر جوڑ کر مارتے کہ نشانہ خالی نہ جاتا تھا، لڑکوں کو تیر اندازی کی مشق کرانا انصار میں ایام جاہلیت سے رائج تھا، مورخ طبری نے تاریخ کبیر میں اس کی تصریح کی ہے۔ عام حالات،حلیہ اور لباس حضرت انسؓ کا مفصل حلیہ معلوم نہیں،اس قدر معلوم ہے کہ خوبصورت اورموزوں اندام تھے،مہندی کا خضاب لگاتے تھے ہاتھوں میں خلوق ایک قسم کی خوشبو تھی ملتے تھے جس کی زردی سے چمک پیدا ہوتی تھی،انگوٹھی پہنتے تھے،صاحب اسد الغابہ نے روایت کی ہے کہ انگوٹھی کے نگینہ پر شیر کی صورت کندہ تھی،ایام پیری میں دانت ہلنے لگے تو سونے کے تاروں سے کسوائے تھے ،بچپن میں ان کے گیسو تھے ،آنحضرتﷺ ان کے سرپر ہاتھ پھیرتے تھے تو ان بالوں کو بھی ہاتھ سے مس فرمایا تھا، ایک دفعہ حضرت انسؓ نے گیسو کٹوانا چاہا تو ام سلیمؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے ان بالوں کو چھوا ہے ان کو نہ کٹاؤ،حضرت انسؓ کے مزاج میں نفاست اورپاکیزگی تھی اورچونکہ دنیا نے بھی ساتھ دیا تھا، اس لئے زندگی امیرانہ بسر کرتے تھے ،کپڑے قیمتی پہنتے تھے،خز کا لباس اس زمانہ میں اکثر امراء پہنا کرتے تھے،حضرت انسؓ بھی خز کے کپڑے زیب تن کرتے اوراسی کا عمامہ باندھتے تھے،خوشبو دار چیزوں کو پسند کرتے ،مزاج میں تکلف تھا، ایک باغ نہایت اہتمام سے لگایا تھا جو سال میں دو مرتبہ پھلتا تھا اس میں ایک پھول تھا جو مشک کی طرح مہکتا تھا۔ حضرت انسؓ نے بصرہ سے دو فرسخ باہر مقام طف میں ایک مکان بنوایا تھا اور وہیں اقامت پذیر تھے، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ شہر کے اندر رہنے سے باہر بود وباس رکھنا زیادہ پسند کرتے تھے، کھانا اچھا کھاتے تھے،دسترخوان پر اکثر چپاتی اور شوربہ ہوتا تھا، کبھی کبھی ترکاری بھی ڈالی جاتی تھی ،لو کی کی فصل میں اکثر لوکی پڑتی تھی جو ان کو محبت رسول ﷺ کی وجہ سے بہت مرغوب تھی،طبیعت فیاض اور سیر چشم واقع ہوئی تھی،کھانے کے وقت شاگرد موجود ہوتے تو ان کو بھی شریک کرلیتے تھے۔ صبح کو ناشتہ کرتے اور ۳یا۵ یا اس سے زیادہ چھوہارے نوش فرماتے ،پانی پیتے تو تین مرتبہ میں ختم کرتے۔ گفتگو بہت صاف کرتے اور ہر فقرہ کو تین مرتبہ بولتے،کسی کے مکان پر تشریف لیجاتے تو تین مرتبہ اندر جانے کی اجازت طلب کرتے تھے۔ (مسند احمد:۳/۱۲۸،۱۸۰،۲۲۱،۲۳۳) باایں ہمہ علوم مرتبت طبیعت میں انکسار وتواضع تھی ،لوگوں سے نہایت بے تکلفانہ ملتے تھے،شاگردوں سے بھی چنداں تکلف نہ تھا،اکثر فرماتے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ہم لوگ بیٹھے ہوتے اور حضورﷺ تشریف لاتے،لیکن ہم میں سے کوئی تعظیم کے لئے نہ اٹھتا،حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ہم کو کون محبوب ہوسکتا تھا اوراس کا سبب یہ تھا کہ آنحضرتﷺ ان تکلفات کو ناپسند فرماتے تھے۔ تحمل اور برد باری بھی ان میں انتہا درجہ کی تھی،وہ جس رتبہ کے شخص تھے،اسلام میں ان کا جو اعزاز تھا،آنحضرتﷺ نے ان کے جو مناقب بیان فرمائے تھے،حامل نبوت کی بارگاہ میں ان کو جو تقرب حاصل تھا،ان باتوں کا یہ اثر تھا کہ ہر شخص ان کو محبت اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، لیکن حکومت امویہ کے چند حکام وعمال ایسے متکبر اوربانخوت تھے کہ اپنے جبروت اور سطوت کے سامنے کسی کی عظمت و بزرگی کو خاطر میں نہ لاتے تھے،حجاج بن یوسف ان تمام متمردوں کا سرگروہ تھا، اس نے حضرت انسؓ کو ان الفاظ میں مخاطب کیا تھا اور حضرت انسؓ نے جس حلم سے کام لیا تھا اس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، اگر حضرت انسؓ کے بجائے کسی دوسرے شخص کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا تو بصرہ میں ایک قیامت بر پا ہوجاتی ۔ اس تحمل کے ساتھ عظمت وجلال کا یہ عالم تھا کہ ان کے صرف ایک خط پر خلیفہ عبدالملک اموی نے حجاج بن یوسف ثقفی جیسے بااختیار امیر کو جو محض سلطنت کا رعب و دبدبہ قائم کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا، ایسا عتاب آمیز خط لکھا کہ خواص تو کجا ایک عام آدمی بھی اپنے لئے وہ الفاظ سننا گوارانہ کرے گا اور جس کا یہ انجام ہوا کہ حجاج کو حضرت انسؓ سے معذرت کرنی پڑی۔ شجاعت وبسالت کا کافی حصہ پایا تھا، بچپن میں اس قدر تیز دوڑتے تھے کہ ایک مرتبہ مرالظہر ان میں خرگوش کو دوڑ کر پکڑ لیا تھا؛حالانکہ ان کے تمام ہم عمر ناکام واپس آئے تھے،بڑے ہوئے تو فنون سپہ گری میں کمال حاصل کیا، وہ بہت بڑے شہسوار تھے،تیر اندازی میں ان کو خاص ملکہ تھا اور گھوڑ دوڑ میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ صحابہ میں ارباب روایت تو سینکڑوں ہیں؛لیکن ان میں ایک مخصوص جماعت ان لوگوں کی ہے جو روایات میں صاحب اصول تھے،حضرت انسؓ بھی انہی لوگوں میں تھے؛ چنانچہ ان کے روایات کے استقصا سے حسب ذیل اصول مستنبط ہوتے ہیں۔ ۱۔روایات کے بیان کرنے میں نہایت احتیاط کی، مسند احمد بن حنبل میں ہے "كان أنس بن مالك : إذا حدث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم حديثا ففرغ منه قال أو كما قال رسول الله صلى الله عليه و سلم"(مسند احمد بن حنبل،حدیث نمبر:۱۳۱۴۶) یعنی حضرت انسؓ حدیث بیان کرتے وقت گھبراجاتے تھے اور اخیر میں کہتے تھے کہ اس طرح یا جیسا آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا ۔ ۲۔جن حدیثوں کے سمجھنے میں غلطی ہوسکتی تھی ان کو نہیں بیان کیا۔ ۳۔جو حدیث صحابہ سے سنی تھی اور وہ جو آنحضرتﷺ سے بلا واسطہ سنی تھی اس میں امتیاز قائم کیا۔ حضرت انسؓ نے علم حدیث کی کیا خدمت کی،کیونکر تعلیم حاصل کی؟ شاگردوں تک کس طرح اس فن شریف کو پہنچایا اوران کی مجموعی روایات کی تعداد کیا ہے؟ اس کا جواب آئندہ سطور میں ملے گا۔ کسی علم کی سب سے بڑی خدمت اس کی اشاعت اور تعلیم ہوتی ہے،حضرت انسؓ اس باب میں اکثر صحابہ میں پیش پیش ہیں انہوں نے اس متعدی اوراہتمام سے نشر حدیث کی خدمت ادا کی ہےجس سے زیادہ مشکل ہے اورانہوں نے تمام عمر اس دائرہ تعلیم حدیث سے باہر قدم نہ نکالا، جس زمانہ میں تمام صحابہ میدان جنگ میں مصروف جہاد تھے، رسول اللہ ﷺ کا خاص خادم جامع بصرہ میں دنیا سے الگ قال رسول اللہ کا نغمہ خلائق کو سنا رہا تھا، توسیع علم کا حال شاگردوں کی تعداد سے معلوم ہوتا ہے،حضرت انسؓ کے حلقۂ درس میں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے طلبا شامل تھے، جس طرح ظاہری اورصلبی اولاد کی کثرت کے لحاظ سے وہ خوش قسمت تھے اسی طرح معنوی اولاد کی بہتات میں ان کا پلہ بہت بھاری تھا۔ حضرت انسؓ مکثرین صحابہ میں سے ہیں، یعنی ان کی روایات کا شمار ہزاروں تک ہے صحیح بخاری میں ان سے ۸۰ حدیثیں منقول ہیں،صحیح مسلم میں ۷۰ اورمتفق علیہ روایات کی تعداد ۱۲۸ ہے۔ حضرت انسؓ نے ابتداً، خود حامل وحی سے اکتساب کیا،آپ کے بعد جن صحابۂ کرام کے دامن فیض سے وابستہ رہے ان کے نام نامی یہ ہیں، حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت فاطمہ زہراؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت ابن مسعودؓ ،حضرت ابوذرؓ، حضرت ابو طلحہؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ، حضرت عبداللہ ابن رواحہؓ، حضرت ثابت بن قیسؓ بن شماس، حضرت مالک بن صعصہؓ، حضرت ام سلیمؓ، (والدہ حضرت انسؓ) حضرت ام حرامؓ (خالہ حضرت انسؓ) حضرت ام الفضل ؓ (زوجہ حضرت عباس ؓ ) حضرت انسؓ کے دائرہ تلمذ میں اگرچہ ایک جہاں داخل تھا، لیکن وہ بزرگ جو امام فن ہوکر نکلے اور آسمان حدیث کے مہروماہ ثابت ہوئے ان کے نام نامی درج ذیل ہیں: حسن بصری، سلیمان تیمی، ابو قلابہ، اسحق بن ابی طلحہ، ابوبکر بن عبداللہ مزنی، قتادہ ،ثابت نبانی، حمید الطویل، ثمامہ بن عبداللہ( حضرت انسؓ کے پوتے ہیں) جعد، ابو عثمان،محمد بن سیرین انصاری، انس بن سیرین ازہری، یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعۃ الرائے، سعید بن جبیر اور سلمہ بن وردان رحمہم اللہ تعالی فقہ علم حدیث کی طرح علم فقہ میں بھی حضرت انسؓ کو کمال حاصل تھا،فقہائے صحابہؓ کے تین طبقے ہیں، حضرت انسؓ کا شمار دوسرے طبقہ میں ہے جن کے اجتہادات وفتاویٰ اگر ترتیب دیئے جائیں تو ایک مستقل رسالہ تیار ہوسکتا ہے۔ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت انسؓ کو ایک جماعت کے ساتھ فقہ سکھانے کے لئے بصرہ روانہ کیا تھا،اس سے زیادہ ان کی فقہ دانی کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے۔ صحابہؓ کے زمانہ میں تعلیم کا طریقہ عموماً حلقہ درس تک محدود تھا، حضرت انسؓ بھی باقاعدہ تعلیم دیتے تھے، اثنائے درس میں کوئی شخص سوال کرتااس کو جواب سے سرفراز فرماتے تھے، اس قسم کے سوال وجواب کا ایک مجموعہ ہے جس کا استقصاطوالت سے خالی نہیں، یہاں چند مسائل درج کئے جاتے ہیں جن سے حضرت انسؓ کے طرز اجتہاد ،جودت فہم،دقت نظر اور اصابت رائے کا اندازہ ہوگا۔ باب الاشربہ:یہ مسئلہ کہ نبیذ مخصوص برتنوں میں پینا مکروہ ہے صحابہؓ میں عموماً متفق علیہ تھا، حضرت انسؓ نے اس کو جس قدر وضاحت اورصفائی سے بیان کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے اس میں انہوں نے ان وجوہ واسباب کی طرف اشارہ کیا ہے جن کے سبب سے ان برتنوں میں نبیذ پینے کی مخالفت آئی ہے۔ قتادہ نے دریافت کیا کہ:کیا گھڑے میں نبیذ بناسکتے ہیں؟ حضرت انسؓ نے کہا اگرچہ آنحضرتﷺ نے اس کے متعلق کوئی رائے ظاہر نہیں فرمائی؛ تاہم میں مکروہ سمجھتا ہوں، یہ استدلال اس بنا پر ہے کہ جس چیز کی حلت و حرمت میں اشتباہ ہو،اس میں حرمت کا پہلو غالب ہوگا۔ ایک مرتبہ مختار بن فلفل نے پوچھا کن ظروف میں نبیذ نہ پینا چاہیے؟ فرمایا مرفتہ میں ،کیونکہ ہر مسکر چیز حرام ہے،مختار نے کہا شیشہ یا رانگے برتنوں میں پی سکتے ہیں؟ فرمایا ہاں، پھر پوچھا لوگ تو مکروہ سمجھتے ہیں، فرمایا جس چیز میں شک ہو اسے چھوڑدو، پھر استفسار کیا کہ نشہ لانے والی چیز تو حرام ہے ؛لیکن ایک دو گھونٹ پینے میں کیا حرج ہے؟ حضرت انسؓ نے کہا جس کا زیادہ حصہ موجب سکر ہو اس کا قلیل حصہ بھی حرام ہے، دیکھو! انگور،خرمے گیہوں ،جو وغیرہ سے شراب تیار ہوتی ہے، ان میں سے جس چیز میں نشہ پیدا ہوجائے وہ شراب ہوجاتی ہے۔ حضرت انسؓ نے اس مسئلہ کو اگرچہ نہایت خوبی سے بیان کیا ہے؛ لیکن اس کی مزید تشریح کی ضرورت ہے،شارع علیہ السلام نے کتاب الاشربہ کے متعلق جو احکام ارشاد فرمائے ہیں اورجو اس باب کے قواعد واصول کہے جاسکتے ہیں یہ ہیں: (۱)كُلُّ شَرَابٍ أَسْكَرَ فَهُوَ حَرَام۔ (صحیحین عن عائشہؓ) (۲)كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ ۔ (صحیح مسلم عن ابن عمرؓ) (۳)مَااَسْكَرَ كَثِيْرُه فَقَلِيْلَهُ حَرَامٌ۔ (سنن ابن عمرؓ) ان میں سے پہلے کا مفہوم یہ ہے کہ جس پینے والی چیز میں نشہ آجائے حرام ہے،دوسرے میں یہ بیان ہے کہ ہر نشہ آور چیز شراب ہوتی ہے اور ہر قسم کی شراب حرام ہے ،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر منشی(نشہ آور) چیز حرام ہے،تیسرے کلیہ کا یہ منشاء ہے کہ جو زیادہ پینے کی صورت میں نشہ پیدا کرے اس کا خفیف حصہ بھی پینا حرام ہے، حضرت انسؓ نے انہی باتوں کا اپنے جواب میں ذکر کیا ہے یہ اور بات ہے کہ سوالات کی بے ترتیبی سے جواب غیر مرتب ہوگیا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ چند مخصوص برتنوں میں نبیذ پینے کی ممانعت کیوں آئی ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ عرب میں شراب رکھنے یا بنانے کے لئے وہ نفیس اورخوبصورت شیشہ کے برتن جو آج یورپ نے ایجاد کئے ہیں، موجود نہ تھے،وہاں عام طور پر کدو کی تبنی صراحی وسبو کا کام دیتی تھی یا اوراسی نوع کے چند برتن تھے جو قدرتی پھلوں کو خشک اورصاف کرکے بادہ نوشی کے لئے مخصوص کرلئے جاتے تھے ،ظاہر ہے کہ ان چیزوں میں شراب رکھنے سے اس کا اثر برتن میں پہنچتا ہوگا اوردھونے کے بعد بھی زائل نہ ہوتا ہوگا، یہی راز ہے کہ اوائل اسلام میں جب شراب حرام ہوئی تو ان برتنوں کا استعمال بھی ناجائز کردیا گیا اورگو بعد میں اس قسم کے برتنوں کا جن میں شراب نہ رکھی گئی ہو استعمال جائز قرار دیا جاسکتا تھا، لیکن پہلی صدی ہجری کا پرجوش مسلمان یہ گوارا نہیں کرسکتا تھا کہ ان برتنوں کے استعمال سے شراب نوشی کی یاد کو عہد اسلام میں از سر نو تازہ کرے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ آنحضرتﷺ جوتے پہن کر نماز پڑہتے تھے؟ فرمایا ہاں! جوتہ پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے،لیکن شرط یہ ہے کہ پاک ہو اورنجاست آلودنہ ہو، اگر کوئی شخص نیا جوتہ پہن کر نماز پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔ یحییٰ بن یزید ہنائی نے دریافت کیا کہ نماز میں قصر کب کرنا چاہیے؟ فرمایا کہ جب میں کوفہ جاتا تھا،قصر کرتا تھا اورآنحضرتﷺ نے ۳ میل یا ۳ فرسخ کا راستہ طے کرکے قصر کیا تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ۳ میل سفر کرنے سے قصر واجب ہوجاتا ہے ؛بلکہ واقعہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ مکہ معظمہ کے ارادہ سے تشریف لے گئے تھے راستہ میں جس مقام پر سب سے پہلے نزول اجلال ہوا وہ ذوالحلیفہ تھا جوصحیح روایت کی بنا پر مدینہ سے ۳ میل کے فاصل پر واقعہ ہے اورچونکہ حد ود سفر میں داخل تھا،اس لئے آنحضرتﷺ نے قصر نماز پڑھی۔ مختار بن فلفل نے پوچھا کہ مریض کس طرح نماز پڑھے،حضرت انسؓ نے کہا بیٹھ کر پڑھے،عبدالرحمن بن دردانؓ معہ دیگر اہلیان (مدینہ)حضرت انسؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت انسؓ نے پوچھا نماز عصر پڑھ چکے ہو، کہا جی ہاں،پھر لوگوں نے استفسار کیا کہ آنحضرتﷺ عصر کی نماز کسی وقت پڑہتے تھے؟ فرمایا آفتاب خوب روشن اوربلند رہتا تھا؟ حضرت انسؓ نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی جنازہ مرد کا تھا، اس لئے میت کے سرہانے کھڑے ہوئے اس کے بعد دوسرا جنازہ عورت کا لایا گیا،حضرت انسؓ نے کمر کی سیدھ پر کھڑے ہوکر اس کی نماز پڑھائی،علاء بن زیادہ عدوی بھی نماز میں شریک تھے ،اس اختلاف قیام کا سبب پوچھا ،حضرت انسؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ ایسا ہی کرتے تھے ،علاء مجمع کی جانب مخاطب ہوئے اورکہا کہ اس کو یاد رکھنا۔ ایک شخص نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے رکوع کرنے کے بعد قنوت پڑھا ہے؟ فرمایا ہاں اورخود رسول اللہ ﷺ نے پڑھا ہے،(لیکن یہ حضرت انسؓ کا ذاتی اجتہاد ہے ورنہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ اور عموما ًصحابۂ کرامؓ وتر میں رکوع کرنے کے قبل قنوت پڑھا کرتے تھے،امام شافعیؒ اس مسئلہ میں حضرت انسؓ کےپیرو ہیں اورانہوں نے اس کے ثبوت میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ حضرت علیؓ بھی رکوع کے بعد قنوت پڑہتے تھے؛لیکن یہ حدیث قطع نظر اس کے کہ منقطع ہے،یعنی امام شافعیؒ نے حکایۃ بیان کی ہے اوراپنی سند ہثیم تک چھوڑدی ہے سند بھی ضعیف ہے،اس کے راویوں میں ہثیم اور عطا، کا نام بھی شامل ہے اوران دونوں کی ائمہ فن حدیث نے تضعیف کی ہے۔ اس کے علاوہ ابن منذر نے الاشراف میں لکھا ہے کہ حضرت انسؓ اورفلاں فلاں صحابہؓ سے مجھ کو جو روایتیں پہنچی ہیں سب میں رکوع سے قبل قنوت پڑہنے کا تذکرہ ہے اور یہی صحیح بھی ہے؛کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے جو روایات آئی ہے،اس میں اس کی صاف تصریح ہے،عاصم نے حضرت انسؓ سے پوچھا کہ قنوت قبل رکوع پڑھنا چاہیے یا بعد رکوع؟ انہوں نے کہا قبل رکوع،عاصم نے کہا لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ آنحضرتﷺ بعد رکوع پڑہتے تھے ،حضرت انسؓ نے کہا وہ ایک وقتی واقعہ تھا، چند قبائل نے مرتد ہوکر بہت سے صحابہؓ کو قتل کردیا تھا، اس لئے آنحضرت ﷺ نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھ کر ان کے لئے بددعا کی تھی۔ (ان مسائل کے لئے دیکھو مسند احمد :۳/۱۰۰،۱۱۲،۱۱۸،۱۲۶،۱۲۹،۲۰۴،۲۰۹،۲۷۷،وعمدۃ القاری شرح صحیح بخاری:۳/۴۱۹،۵۴۶ ،وجوہرالقی فی الرد علی بیہقی :۱/۲۱۳) تم نے دیکھا کہ ان مسائل میں حضرت انسؓ کس قدر صائب الرائے ہیں، ان کے اجتہادی مسائل کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اکثر صحابہؓ کے اجتہاد کے موافق ہیں اوراس لئے بالکل صحیح ہیں۔ اخلاق حضرت انسؓ کے گلدستہ اخلاق میں چار پھول ایسے نازک ،لطیف اورشگفتہ ہیں جن پر گلدستہ کی خوبصورتی کا تمام تر انحصار ہے،حب رسول، اتباعِ سنت، امر بالمعروف،حق گوئی، یہ حضرت انسؓ کے خاص اوصاف ہیں،حب رسولﷺ کا نقشہ تم اوپردیکھ چکے ہو، جس زمانہ میں وہ دس برس کے نابالغ اور نا سمجھ بچے تھے، جوش محبت کا یہ عالم تھا کہ صبح اٹھ کر کاشانۂ نبوت کی زیارت سے آنکھوں کو مشرف کرتے تھے ،صبح کاذب کی تاریکی میں ام سلیم ؓ کا کمسن بچہ بستر راحت سے اٹھتا تھا اورآنحضرتﷺ کا سامان وضو مہیا کرنے کے لئے مسجد نبوی کا راستہ لیتا تھا، ایام شباب میں ان کی محبت کی کوئی حد نہ تھی، وہ شمع نبوت پر پروانہ وار شیفتہ تھے، آنحضرتﷺ کی ایک نگاہ کرم حضرت انسؓ کے لئے باعث صد طمانیت و تسلی تھی اورآقائے نامدار کی ایک آواز ان کے قالب عقیدت میں نئی روح پھونکنے کا سبب بن جاتی تھی، رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد اگرچہ ظاہری آنکھیں دیدار محبوب کو ترس گئی تھیں، لیکن محبت کی معنوی آنکھوں پر باب فیض اب تک بند نہ ہوا تھا ؛چنانچہ کشتہ عشق نبوت اکثر خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوتا تھا اورصبح کو واقعات شبینہ کی یاد تازہ کرکے گریہ وزاری کا ایک طوفان بپا کرتا تھا، عاشق صادق کے تڑپانے اور تلملانے کیلئے محبوب کی ایک ایک چیز نشتر کا کام کرتی ہے ،حضرت انسؓ بن مالک کا بعینہ یہی حال تھا،وہ محبوب دوعالم کا ذکر کرتے تھے اورفرط محبت سے بیقرار ہوجاتے تھے ،ایک دن آنحضرتﷺ کا حلیہ مبارک بیان کررہے تھے،آپ ﷺکا ایک ایک خال و خط زبان مدیح میں نبات محبت گھول رہا تھا،الفاظ جو ادا ہورہے تھے اسی عالم میں شوق زیارت کا زبردست جذبہ ظہور پذیر ہوا،حرماں نصیبی اور برگشتہ بختی نے وہ ایام سعید یاد دلائے جب ہادی برحق عالم مادی کے گلی کوچے میں پھرا کرتا اورحضرت انسؓ اس کے شرف غلامی پر نازکیا کرتے تھے ،دفعۃً حالت میں ایک تغیر پیدا ہوا اورزبان سے بے اختیارانہ یہ جملہ نکلا کہ قیامت میں رسول اللہ ﷺ کا سامنا ہوگا تو عرض کروں گا کہ حضورﷺ کا ادنیٰ غلام انسؓ حاضر ہے۔ حضرت انسؓ کی ہر مجلس آنحضرتﷺ کے ذکر خیر سے لبریز ہوتی تھی ،وہ عہدنبوت کے واقعات اپنے تلامذہ کے گوش گذار کیا کرتے تھے،اثنائے ذکر میں دل میں ایک ٹیس اٹھتی جس سے حضرت انسؓ بے چین ہوجاتے تھے ؛لیکن یہ وہ درد تھا، جس کا علاج طبیبوں کے اختیار سے باہر تھا ،ناچار ہوکر گھر تشریف لیجاتے اورحضورﷺ کے تبرکات نکال لاتے ،ان ظاہری یادگاروں کو دیکھ کر دل کو تسکین دیتے اور جمعیت خاطر کا سامان بہم پہنچاتے ۔ حضرت انسؓ کا جوش محبت اس درجہ بڑھا ہوا تھا کہ اس سے تمام مجلس متاثر تھی، ان کے تلامذہ کو رسول اللہ ﷺ سے جو خاص محبت پیدا ہوگئی تھی،وہ حضرت انسؓ ہی کے ولولۂ محبت کا کرشمہ تھا،ثابت حضرت انسؓ کے شاگرد رشید تھے وہ بالکل اپنے استاد کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، ہمیشہ عہدِ نبوتﷺ کی نسبت سوال کرتے ،ایک روز حضرت انسؓ سے پوچھا، آپ نے کبھی آنحضرتﷺ کا دست مبارک چھوا تھا؟ حضرت انس ؓ نے کہا ہاں، ثابت کے دل میں سوز محبت نے بیقراری پیدا کردی ،حضرت انسؓ سے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے میں چومونگا۔ حب رسولﷺ کے بعد اتباع سنت کا درجہ ہے،محب صادق کی یہ شناخت ہے جو چیز اس کے محبوب کو مرغوب خاطر ہو خود بھی اس کو پسند کرے، حضرت انسؓ کو آنحضرتﷺ کی ذات ستودہ صفات سے جو عشق تھا اس کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ وہ آپﷺ کے اقوال وافعال کی پورے طورسے تقلید کریں؛چنانچہ حضرت انسؓ کی زندگیٔ مظہر کے متعدد واقعات اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسلام کا سب سے بڑا رکن کلمۂ توحید کے بعد نماز ہے،آنحضرتﷺ جس خضوع وخشوع اورجس آداب کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے،صحابہؓ کوشش کرتے تھے کہ خود بھی اسی طریقہ پر کار بند ہوں؛چنانچہ متعدد صحابہؓ آنحضرتﷺ کی نماز سے ملتی جلتی نماز پڑہتے تھے؛لیکن حضرت انسؓ نے آپ کے طرز وطریقہ سے جو مشابہت اختیار کی تھی وہ ایک چراغ ہدایت تھا، جو نبوت کے قلب مبارک سے حضرت انسؓ کے قلب مصفاء میں روشن ہوا تھا، حضرت ابو ہریرہؓ نے حضرت انسؓ کو نماز پڑہتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ میں نے ابن ام سلیمؓ (انسؓ) سے بڑھ کر کسی کو آنحضرتﷺ کے مشابہ نماز پڑہتے ہوئے نہیں دیکھا۔ نماز کے ماسواآنحضرتﷺ کا ہر قول اور ہر فعل صحابہؓ کی نگاہ میں تھا، حضرت انسؓ نے دس سال آنحضرتﷺ کی خدمت انجام دی تھی اورہمیشہ ہی ساتھ رہے تھے، ایسی حالت میں رسول اللہ ﷺ کا کوئی عمل ایسا نہ تھا جو حضرت انسؓ سے مخفی رہ سکتا،آنحضرتﷺ جو کچھ ارشاد فرماتے یا اپنے طریق عمل سے کسی امر کو ثابت کرتے تو حضرت انسؓ اس کو اپنے حافظہ کے سپرد کردیتے تھے،جب اس قسم کی کوئی صورت پیش آتی تو قوت حافظہ سے اپنی امانت طلب کرتے اوراس پر اس کو منطبق کرتے تھے،خلیفہ دمشق نے حضرت انسؓ کو شام میں طلب کیا تھا، وہاں سے واپسی کے وقت عین التمرمیں قیام کرنا چاہا، شاگردوں اورجان نثاروں کو آمد آمد کی خبر پہلے سے معلوم ہوچکی تھی اور وہ لوگ عین التمر میں موجود تھے، آبادی سے باہر ایک میدان پڑتا ہے ،حضرت انسؓ کا اونٹ اسی طرف سے آرہا تھا، نماز کا وقت تھا اور حضرت انسؓ چوپایہ کے پیٹھ پر خالق دوجہاں کی حمد وستائش کررہے تھے،لیکن اونٹ قبلہ رخ نہ تھا،تلامذہ نے تو استعجاب کے لہجہ میں پوچھا کہ آپ کس طرح نماز پڑھ رہے ہیں،حضرت انسؓ نے فرمایا اگر میں نے آنحضرتﷺ کو اس طرح نماز پڑہتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی نہ پڑھتا۔ ابراہیم بن ربیعہؓ حضرت انسؓ کے حضور میں آئے، نماز کا وقت تھا،حضرت انسؓ ایک کپڑا باندھے اوراسی کو اوڑھے یاد الہی میں مصروف تھے اورایک چادر پاس رکھی ہوئی تھی ،نماز سے فارغ ہوئے تو ابراہیم نے پوچھا آپ ایک کپڑے میں نماز پڑہتے ہیں؟ حضرت انسؓ نے فرمایا ہاں میں نے اس طرح آنحضرتﷺ کو نماز پڑہتے دیکھا تھا،آنحضرتﷺ نے اپنی حیات اقدس میں سب سے اخیر نماز جو حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے پڑھی تھی ایک کپڑے میں ادا فرمائی تھی ۔ (مسند احمد:۳/۱۵) آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ کا ہر نقش حضرت انسؓ کے لئے چراغ ہدایت تھا وہ اسی کی روشنی میں شاہراہ عمل پر قدم رکھتے تھے،فرائض سے اتر کر واجبات وسنن تک میں بھی آپ کا اسوہ پیش نظر رہتا تھا، قربانی ہر صاحب استطاعت پر ضروری ہے،حضرت انسؓ رئیس اعظم تھے جس قدر جانور چاہتے ذبح کرسکتے تھے، لیکن خیر القرون میں متابعت رسولﷺ کا درجہ، نام ونمود سے بالاتر تھا، وہاں قربانی شہرت کے لئے نہیں ؛بلکہ ثواب کیلئے ہوتی تھی،آنحضرتﷺ نے دوجانور قربانی کئے تھے اس لئے حضرت انسؓ بھی دو ہی کرتے تھے۔ حضرت انسؓ کے بچپن میں آنحضرتﷺ کا گذر لڑکوں کی طرف ہوا تھا توآپ ﷺ نے ان سے السلام علیکم فرمایا تھا، اس لئے حضرت انسؓ ضعف پیری میں بھی بچوں سے سلام میں سبقت کرتے تھے۔ اظہار حق گوئی اورحق پسندی حضرت انسؓ کے نمایاں اوصاف ہیں، خلافت شیخین کے بعد ایسے نوجوان جو اسلامی تعلیم سے بیگانہ تھے حکومت کے ذمہ دار عہدوں پر مقرر ہوئے اس لئے بیشتر اوقات ان سے ایسے افعال سرزد ہوجاتے تھے جو قرآن و حدیث کے بالکل خلاف تھے، اصحاب رسول ﷺ نے جنہوں نے اپنی جان بیچ کر اسلام کا سودا کیا تھا اس طرز کو گوارا نہ کرسکتے تھے اوران کے جوش ایمانی میں ایک ہیجان پیدا ہوتا تھا اور وہ ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پرواہ کیے بغیر اظہا حق پر آمادہ ہوجاتے تھے ،حضرت انسؓ آنحضرتﷺ کے بعد زمانہ دراز تک بقید حیات رہے،بڑے بڑے جبار اور قہار امراء سے ان کو سابقہ پڑا جو بالاعلان احکام شریعت کی خلاف ورزی کرتے تھے،حضرت انسؓ سنت نبویﷺ کو پامال دیکھ کر آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور مجمع عام میں ایسے امراء کو تنبیہ کرتے تھے۔ عبیداللہ بن زیادہ یزید کی طرف سے عراق کا گورنر تھا، حضرت امام حسینؓ کے سر مبارک کو طشت میں رکھواکر اپنے سامنے منگایا ، اس کے ہاتھ میں چھڑی تھی اس کو آنکھ پر مار کر آپ کے حسن کی نسبت نا ملائم الفاظ استعمال کئے ،حضرت انسؓ سے نہ دیکھا گیا سے بیتاب ہوکر فرمایا یہ چہرہ آنحضرتﷺ کے چہرے سے مشابہ ہے۔ مشہور جفاکار حجاج بن یوسف ثقفی اپنے بیٹے کو بصرہ کا قاضی بنانا چاہتا تھا، حدیث شریف میں قضایا امارت کی خواہش کرنے کی ممانعت آئی ہے،حضرت انسؓ کو خبر ہوئی تو فرمایا آنحضرتﷺ نے اس کو منع کیا ہے۔ حکم بن ایوب حکومت امویہ کا ایک امیر تھا، اس کی سفاکی انسانوں سے متجاوز کرکے حیوانوں تک پہنچی تھی، ایک دفعہ حضرت انسؓ اس کے مکان پر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ایک مرغی کے پاؤں باندھ کر لوگ نشانہ لگارہے ہیں جب تیر لگتا تو بے اختیا پھڑ پھڑاتی یہ دیکھ کر حضرت انسؓ برہم ہوئے اور لوگوں کو اس حرکت پر تنبیہ کی۔ (مسلم:۲/۱۵۸) حضرت عمرؓبن عبدالعزیز ایام شہزادگی میں دولت امیہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے گورنر تھے اورچونکہ خاندان شاہی میں پرورش پائی تھی اس لئے رموز ملت میں دخل نہ تھا،لیکن رواج زمانہ کے موافق نماز خود پڑھاتے تھے اوراس میں بعض غلطیاں ہوجاتی تھیں، حضرت انسؓ ان کو ہمیشہ ٹوکتے تھے باربار ٹوکنے پر انہوں نے حضرت انسؓ سے کہا کہ آپ میری کیوں مخالفت کرتے ہیں؟ حضرت انسؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو جس طرح نماز پڑہتے دیکھا ہے اگر آپ اسی طرح پڑھائیں تو میری عین خوشی ہے ورنہ آپ کے ساتھ نماز نہ پڑھوں گا، عمر بن عبدالعزیزؓ کی طبیعت صلاحیت پذیر واقع ہوئی تھی ان جملوں نے خاص اثر کیا اور اسرار دین سیکھنے کی طرف توجہ صرف کی، حضرت انسؓ سے زیادہ اس کام کے لئے اورکون موزوں ہوسکتا تھا؛چنانچہ کچھ دنوں ان کی صحبت وتعلم کے اثر سے ایسی معتدل نماز پڑھانے لگے کہ ان کے قعدہ وقیام کی موزونیت دیکھ کر حضرت انسؓ کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ اس لڑکے سے زیادہ کسی شخص کی نماز آنحضرتﷺ کی نماز سے مشابہ نہیں ہے۔ وہ کسی موقعہ پر بھی تعلیم دین وتبلیغ سنت سے غافل نہ رہتے تھے،ایک مرتبہ خلیفہ عبدالملک اموی نے حضرت انسؓ اور بعض انصار کو جن کی تعداد ۴۰ کے قریب تھی دمشق بلایا وہاں سے واپسی کے وقت فج الناقۃ پہنچ کر عصر کا وقت آیا،چونکہ سفر ابھی ختم نہ ہوا تھا، اس لئے حضرت انسؓ نے دو رکعت نماز پڑھائی اوراپنے خیمہ میں تشریف لے گئے باقی تمام آدمیوں نے دو اوربڑھا کر چار رکعتیں پوری کیں حضرت انسؓ کو معلوم ہوا تو نہایت برہم ہوئے اور فرمایا کہ جب خدا نے اس کی اجازت دی ہے تو لوگ اس رعایت سے کیوں فائدہ نہیں اٹھاتے، میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ ایک زمانہ میں لوگ دین میں بال کی کھال نکالیں گے اور تعمیق سے کام لیں گے لیکن حقیقت میں وہ بالکل کور ے رہیں گے۔ ایک مرتبہ کچھ لوگ نماز ظہر پڑھ کر حضرت انسؓ کی ملاقات کو آئے انہوں نے کنیز سے وضو کیلئے پانی مانگا، لوگوں نے کہا کس وقت کی نماز کی تیاری ہے؟ فرمایا عصر کی، حاضرین میں سے ایک شخص بولا کہ ہم تو ابھی ظہر پڑھ کر آرہے ہیں، امراء کی سہل انگاری اور عوام کی غفلت دینی دیکھ کر حضرت انسؓ کو سخت غصہ آیا اوران سے خطاب کرکے فرمایا وہ منافق کی نماز ہوتی ہے کہ آدمی بیکار بیٹھا رہتا ہے نماز کے لئے نہیں اٹھتا ،جب آفتاب غروب ہونے کے قریب آتا ہے تو جلدی سے اُٹھ کر مرغ کی طرح چار چونچیں مارلیتا ہے جس میں یاد الہی کا بہت تھوڑا حصہ ہوتا ہے۔ (امربالمعروف) حق گوئی کے بعد مگر اس سے متصل امربالمعروف کا رتبہ ہے، قرآن مجید میں جہاں پیرو ان دین حنیف کی مدح سرائی کی گئی ہے؟امر بالمعروف کو امت اسلامیہ کے خیر الامم ہونے پر سب سے پہلے بطور استشہاد پیش کیا ہے، حضرت انسؓ میں یہ وصف خاص طورپر پایا جاتا تھا۔ عبید اللہ بن زیاد کی مجلس میں ایک مرتبہ حوض کوثر کا ذکر آیا، اس نے اس کے وجود کی نسبت شک ظاہر کیا، حضرت انسؓ کو اس کی خبر ہوئی تو لوگوں سے فرمایا کہ اسے میں جاکر سمجھاؤں گا اور عبیداللہ کے ایوان امارت میں جاکر فرمایا، تمہارے ہاں حوض کوثر کا ذکر ہوا تھا، اس نے کہا جی ہاں کیا آنحضرتﷺ نے اس کے متعلق کچھ فرمایا ہے، حضرت انسؓ نے حوض کوثر کے متعلق حدیث پڑھی اورمکان واپس تشریف لائے۔ ایک انصاری سردار کے متعلق مصعب بن زبیرکو کچھ اطلاع ملی (غالباً سازش کی خبر) اس نے انصار کو اس جرم میں ماخوذ کرنا چاہا، لوگوں نے حضرت انسؓ کو خبر کی ،وہ سیدھے دارالامارت پہنچے،امیر تخت پر بیٹھا تھا، حضرت انسؓ نے اس کے سامنے جاکر یہ حدیث سنائی کہ آنحضرت ﷺ نے انصار کے امراء کو یہ وصیت کی ہے کہ ان کے ساتھ خاص رعایت کی جائے، ان کے اچھوں سے سلوک کا برتاؤ اوربروں سے درگذر کا برتاؤ کرنا چاہیے، اس حدیث کا مصعب پر اس قدر اثر ہوا کہ تخت سے اتر گیا اورفرش پر اپنا رخسار رکھ کر کہا آنحضرت ﷺ کا فرمان سرآنکھوں پر ! میں ان کو چھوڑ تا ہوں۔