انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبدالرحمن بن القاسم نام ونسب عبدالرحمن نام، ابو عبداللہ کنیت اور نسب نامہ یہ ہے:عبدالرحمن بن القاسم بن خالد بن جنادہ (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۲)زبید بن الحارث العتیقی کے غلام تھے،اس لیے عتقی کی نسبت سے مشہور ہیں۔ (ابن خلکان:۱/۴۹۳) ولادت اوروطن مصر کے رہنے والے تھے ان کے سالِ پیدائش کے سلسلہ میں علماء کا بہت اختلاف ہے،۱۴۷ھ ۱۳۱ھ اور ۱۳۲ھ تینوں منقول ہیں لیکن امام ابن القاسم کے تلمیذ رشید سحنون کے بیان کو اس بارے میں معتبر ترین قرار دیا جائے گا،کیونکہ وہ صاحب البیت ادری بمافیہ کے پورے مصداق تھے،اس کے مطابق ۱۲۸ھ میں شیخ کی ولادت ہوئی۔ (الدیباج المذہب:۱۴۷) طلب علم انہیں طلب علم کا بے انتہا شوق تھا جس کا اندازہ صرف اس سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس راہ میں جسمانی صعوبتوں کو انگیز کرنے کے علاوہ خطیر مال ودولت کو بھی قربان کیا؛چنانچہ ابن عماد لکھتے ہیں: انفق مالاً کثیراً فی طلب العلم (شذرات الذہب:۱/۳۲۹) انہوں نے تحصیل علم میں بکثرت مال خرچ کیا۔ امام مالکؒ کے منبع علم سے خصوصی استفادہ کیا،خود بیان کرتے ہیں کہ ایک شب عالمِ رویا میں مجھے خبر دی گئی کہ تمہیں علم سے اس قدر شغف وانہماک ہے تو "عالمِ آفاق کی صحبت اختیار کرو، میں نے پوچھا وہ عالم آفاق کون ہے؟بتلایا گیا امام مالک رحمہ اللہ؛ چنانچہ اس غیبی اشارہ کے بعد وہ امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکامل بیس سال تک اپنے سینہ کو مالکی علوم کا گنجینہ بنانے میں مصروف رہے،امام صاحب سے انہوں نے ۲۰ کتابوں کا سماع حاصل کیا تھا۔ (ابن خلکان :۱/۴۹۴) تبحر وجامعیت فضل وکمال کے اعتبار سے وہ یگانۂ روز گار فقیہ اورحافظِ حدیث تھے،تبع تابعین کی جماعت میں ایسی جامع الکمالات شخصیتیں بہت کم ملتی ہیں ،خصوصاً فقہ مالکی کی مہارت میں تو ان کا ثانی ملنا مشکل ہے، میدانِ علم کے شہسوار ہونے کے ساتھ زہد واتقا اورشجاعت وسماحت میں بھی ممتاز تھے ،روم،بربراور زنج کے جہاد میں عمر کا چوتھا ئی حصہ صرف کیا تھا(الدیباج المذہب:۱۴۷) ابن حبان کا بیان ہے: کان حبراً فاضلا تفقہ علیٰ مذھب مالک وفوع علی اصولہ (شذرات الذہب:۱/۳۲۹) علم وفضل میں بلند پایہ تھے فقہ مالکی کے متبع اوراس کے اصول سے فروع کا استنباط کرنے والے تھے علامہ ذہبی لکھتےہیں "الامام فقیہ الدیار المصریہ" (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۲۶) شیوخ وتلامذہ امام مالک سے خصوصی تلمذ کے علاوہ جن ممتاز علماء کے فیض صحبت سے وہ مستفید ہوئے،ان میں کچھ نام یہ ہیں، عبدالرحمن بن شریح بکر بن مضر، نافع بن ابی نعیم،یزید بن عبدالملک اورسفیان بن عیینہ،اسی طرح خود ان کے تلامذہ میں سعید بن عیسیٰ،محمد بن مسلمہ،حارث بن مسکین،سحنون بن سعید،عبدالرحمن بن ابی الیغمر،محمد بن عبداللہ اورعیسیٰ بن حماد زغبہ وغیرہ کے اسماء لائق ذکر ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۳) فقہ فقہ میں غیر معمولی مہارت ان کا سب سے بڑا طغرائے امتیاز ہے،امام مالکؒ کی طویل ترین ہم نشینی نے انہیں فقہ مالکی کا منبع بنادیا تھا،مالکی مذہب کی پہلی تدوین ان ہی سے شروع ہوتی ہے،امام مالکؒ کے فتاویٰ ومسائل کی تقریباً تین سو جلدیں ان کے پاس تھیں۔ (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۳) ایک بار امام مالکؒ سے ابن وہب اورابن القاسم کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا ابن وہب عالم ہیں اورابن قاسم فقیہ (الدیباج المذہب:۱۴۷) ابن حبان رقمطراز ہیں: کان حبراً فاضلا ممن تفقہ علیٰ مالک وفرع علیٰ اصولہ وذب عنھا ونصر من انتحلھا (تہذیب التہذیب:۲/۲۵۳) وہ بڑے عالم وفاضل تھے اوران علماء میں سے تھے جو فقہ مالکی کے پیرو تھے اورجنہوں نے اس مذہب کے فروع متعین کیے اور اس کی طرف سےہمیشہ دفاع اوراس کے متبعین کی حمایت کرتے رہے۔ ان کے ہم پایہ معاصر عبداللہ بن وہب کا قول ہے ،اگر فقہ مالکی میں مہارت پیدا کرنا چاہو تو ابن القاسم کی صحبت اختیار کرو کیونکہ وہ اس میں منفرد ویکتا ہیں۔ (الدیباج المذہب:۱۴۷) مؤطا کی روایت مؤطا امام مالکؒ کے رواۃ کی تعداد بہت زیادہ ہے،مختلف زمانوں میں علماء نے امام صاحب سے اس کی تحصیل کی ہے،اس اختلاف زمانی کے نتیجہ میں مؤطا تیس مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں صرف ۱۶ روایتیں مشہور ومعتبر ہیں،انہی خوش بختوں میں ابن القاسم بھی ہیں، نسائی کا بیان ہے۔ لم یرواحدالمؤطا عن مالک اثبت من ابن القاسم ولیس احد من اصحاب مالک عندی مثلہُ (الدیباج المذہب:۱۴۷) عبدالرحمن بن القاسم سے زیادہ ثبت کسی شخص نے امام مالکؒ سے مؤطا کی روایت نہیں کی اور نہ اصحاب مالکؒ میں ابن القاسم کے پایہ کا کوئی تھا۔ خلیلی کہتے ہیں کہ: ھواول من حمل المؤطا الی مصر (تہذیب التہذیب:۶/۲۵۴) وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مؤطا مصر میں پہنچائی۔ مدوّنہ کی تالیف فقہ مالکی کی مشہور ترین ضخیم کتاب "المدونۃ الکبری"انہی کی تالیف ہے،جوان کے لائق شاگرد سحنون کے واسطہ سے مروی ہے،اس کتاب کے متعلق زرکلی کا بیان ہے۔ ھومن اجل الکتب المالکیۃ (الاعلام :۲/۵۰۴) یہ مذہب مالکی کی عظیم ترین کتابوں میں ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ خود ابن القاسم نے امام مالک کے زمانہ میں مدینہ سے واپس آکر اپنے شیخ کے مجتہدات وفقیہات کو ایک کتاب کی صورت میں مدون کرنا شروع کیا تھا، یحییٰ مصمودی مدونہ کا سماع حاصل کرنے ابن القاسم کی خدمت میں مصر سے حاضر ہوئے تھے،لیکن اس وقت وہ بستر علالت پر تھے،یہ کتاب مصر کے مطبع بولاق سے طبع ہوکر ہر جگہ دستیاب ہے۔ ثقاہت علماء ان کی ثقاہت پر متفق ہیں،نسائی"ثقۃ مامون"ابوزرعہ مصری:"ثقۃ رجل صالح"اورحاکم "ثقۃ مامون "کہتے ہیں،علاوہ ازیں خطیب ابن حبان اور یحییٰ بن معین نے بھی ان کی توثیق کردی ہے،امام بخاری نے اپنی جامع صحیح میں ان کی روایت کی تخریج کی ہے۔ (ادیباج المذہب:۱۴۶) زہد وورع ان کمالات کے ساتھ وہ نہایت بلند مرتبہ زاہد ومتقی بھی تھے،حرث بن مسکین بیان کرتے ہیں کہ اس صفت میں وہ عجیب وغریب حیثیت رکھتے تھے،فرطِ تقویٰ کا عالم یہ تھا کہ سلاطین وقت کے نذر وتحائف کو کبھی قبول نہیں کرتے تھے۔ اقوالِ زرین ان کےبہت سے حکیمانہ اقوال آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں اکثر دُعا فرمایا کرتے :"خدا وندا تودنیا کو مجھے سے اورمجھے دنیا سے دُور رکھ"فرمایا حکمرانوں سے تقرب اختیار کرنے میں کوئی بھلائی نہیں، فرمایا: زیادہ دوست بنانے سے بچو؛کیونکہ یہ آزاد لوگوں کو غلام بنانے کے مانند ہے۔ (الدیباج المذہب:۱۴۷) وفات ۷ صفر شب جمعہ کو بمقام مصر انتقال فرمایا،باب القرافۃ الصغری کے باہر ان کا مزار ہے(ابن خلکان:۱/۴۹۴) وفات کے وقت حسبِ اختلافِ روایت ۵۸،۶۰ اور۶۳ سال کی عمر تھی۔