انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ بدر ثانی یا بدر الموعد(اواخر شعبان۴ہجری) اس غزوہ کو بدر الموعد یا وعدہ کا مقابلہ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اُحد کے خاتمہ پر ابو سفیان نے بلند آواز سے کہا تھا کہ اگلے سال تمہارا ہمارا مقابلہ میدان بدر میں ہو گا، حضور ﷺ کی جانب سے حضرت عمرؓ نے اثبات میں جواب دیا تھا، ایک سال ہونے کو آیا تو ابو سفیان یہ سونچنے پر مجبور ہوگیا کہ کسی طرح بدر الموعد کا موقع ٹل جائے اور ایسی راہ پیدا ہوجائے کہ بدر جانا نہ پڑے اور بزدلی اور پست ہمتی کا طعنہ بھی نہ سننا پڑے، اتفاق سے اسی زمانہ میں نعیم بن مسعود اشجعی مکہ آیا ہواتھا، ابو سفیان نے اس سے کہا کہ میرا مسلمانوں سے بدر پہنچنے کا وعدہ تھا مگر چونکہ یہ خشک سالی کا زمانہ ہے اور جنگ کے لئے مناسب نہیں ہے اس لئے تم کسی طرح سے مسلمانوں کو بدر پہنچنے سے روک دو تو ہم تم کو بیس اونٹ دیں گے، مجھ کو یہ پسند نہیں کہ محمد(ﷺ) بدر آئیں اور میں نہ پہنچوں، اس صورت میں ان کی ہمت بڑھ جائے گی، نعیم اس پر راضی ہوگیا اور ابو سفیان نے سواری کا انتظام کردیا، وہ تیزی کے ساتھ مسافت طئے کرکے مدینہ پہنچ گیا اور مشہور کردیا کہ ابو سفیان بڑے لشکر اور ساز و سامان سے آرہاہے ، حضورﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ: واﷲ اگر کوئی میرا ساتھ نہ دے گا تو میں تنہا بدر پہنچوں گا، چنانچہ حضور اکرمﷺحسب وعدہ اواخر شعبان میں حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہؓ کو اپنا نائب مقرر کر کے پندرہ سو صحابہ اور دس گھوڑوں کے ساتھ بدر تشریف لے گئے، حضرت علی ؓ کو عَلم عطا ہوا، بدر میں آپﷺ نے آٹھ دن قیام فرمایا ؛لیکن قریش مقابلہ کے لئے نہیں آئے ،ابو سفیان دو ہزار سپاہیوں اور پچاس سواروں کو لے کر مکہ سے روانہ ہوا؛لیکن وادیٔ مرالظہران پر مجنّہ کے چشمہ پر ٹھہر گیا،یہاں اس کی ہمت جواب دے گئی، اپنے ساتھیوں سے کہا کہ موسم خراب ہے، خشک سالی کی وجہ سے جانوروں اور انسانوں کو بڑی تکلیف ہو گی ، اس نے واپس چلنے کے لئے کہا ساتھیوں میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا، اس طرح پہلی منزل ہی سے وہ لوگ مکہ واپس لوٹ گئے۔