انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** قصیدہ بانت سُعاد بانت سعاد فقلبی الیوم متبول میتم اس رہالم یفد مکبول میری سعاد مجھ سے دور ہوگئی ہے اس لئے ( اس صبر آزما اور جاں گسل فراق کے باعث) آج کل میرا قلبِ بیمار محبت اور لاغر ناقابل رہائی اسیر الفت محبوبہ کے نقش پائی میں جگہ جگہ کی خاک چھاننے میں ذلیل و رسوا ہوکر رہ گیاہے (ابن ہشام) اس قصید ہ میں کعب نے حضور اکرم ﷺ سے معذرت کرتے ہوئے اور آپﷺ کی مدح کرتے ہوئے آگے یوں کہا ہے … (ترجمہ) " مجھے بتایاگیاہے کہ اﷲ کے رسول نے مجھے دھمکی دی ہے حالانکہ اﷲ کے رسول سے درگذر کی توقع ہے، آپﷺ ٹھہریں، چغل خوروں کی بات نہ لیں ، وہ ذات آپﷺ کی رہنمائی کرے جس نے آپﷺ کو نصائح اور تفصیل سے پُر قرآن کا تحفہ دیاہے، اگر چہ میرے بارے میں باتیں بہت کہی گئی ہیں لیکن میں نے جرم نہیں کیاہے ، میں ایسی جگہ کھڑا ہوں اور وہ باتیں دیکھ اور سن رہاہوں کہ اگر ہاتھی بھی وہاں کھڑا ہو اور ان باتوں کو سنے اور دیکھے تو تھرّا تا رہ جائے، سوائے اس صورت کے کہ اس پر اﷲ کے اذن سے رسول کی نوازش ہو حتٰی کہ میں نے اپنا ہاتھ کسی نزاع کے بغیر اس ہستیٔ محترم کے ہاتھ میں رکھ دیاجسے انتقام پر پوری قدرت ہے اور جس کی بات بات ہے ، جب میں اس سے بات کرتاہوں …درآں حالانکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہاری طرف(فلاں فلاں باتیں) منسوب ہیں اور تم سے باز پرس کی جائے گی، تو وہ میرے نزدیک اس شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہوتے ہیں جس کا کچھار کسی ہلاکت خیز وادی کے بطن میں واقع کسی ایسی سخت زمین میں ہو جس سے پہلے بھی ہلاکت ہی ہو، یقیناً رسول ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہو ، اﷲ کی تلواروں میں سے ایک سونتی ہوئی ہندی تلوار ہیں" (ترجمہ از الرحیق المختوم) ، اس کے بعد کعب بن زہیر نے مہاجرین قریش کی تعریف کی کیونکہ ان کی آمد پر ان کے کسی آدمی نے خیر کے سوا کوئی بات اور حرکت نہیں کی تھی؛ لیکن ان کی مدح کے دوران انصار پر طنز کی کیونکہ انصار میں سے ایک آدمی نے ا ن کی گردن مارنے کی اجازت چاہی تھی، کعب نے کہا: " وہ (قریش)خوبصورت مٹکتے اونٹ کی چال چلتے ہیں اور شمشیر زنی ان کی حفاظت کرتی ہے جبکہ ناٹے کھوٹے کالے کلوٹے لوگ راستہ چھوڑ کر بھاگتے ہیں" لیکن مسلمان ہونے کے بعد انھوں نے ایک قصیدہ انصار کی مدح میں کہا اور ان کی شان میں ان سے جو غلطی ہو گئی تھی اس کی تلافی کی، چنانچہ اس قصیدہ میں انھوں نے کہا: " جسے کریمانہ زندگی پسند ہو وہ ہمیشہ صالح انصار کے کسی دستہ میں رہے، انہوں نے خوبیاں باپ دادا سے ورثہ میں پائی ہیں، درحقیقت اچھے لو گ وہی ہیں جو اچھوں کی اولاد ہیں" امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ " یہ واقعہ مشہور واقعات میں سے ہے لیکن میں نے متداول کتابوں میں عمدہ سند کے ساتھ بالکل نہیں دیکھا، واﷲ اعلم۔ روایت ہے کہ جب انہوں نے کہا ! "بانت سعاد فا قلبی الیوم متبول" تو رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا! سعاد کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا… یا رسول اﷲ میری بیوی ہے ، یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا! وہ جدا نہیں ہوئی مگر یہ روایت درست نہیں، بشر ط صحت اس کا گمان ہو کہ مسلمان ہونے سے ان کی بیوی جدا ہوگئی ، بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ اس جدائی سے ان کا مقصد حسّی اور معنوی جدائی ہے نہ کہ حکمی ، واﷲ اعلم " ( سیرت النبی- ابن کثیر) کعب اور بجیر اپنے ہمعصر مشاہیر شعرا ء میں سے اعلٰی اور عمدہ اشعار کہنے والے پر گو اور بہت شعر کہنے والے شاعر تھے مگر کعب اپنے بھائی سے بھی فائق شاعر تھے ،ان کے والد زہیر بن ابی سلمہ ان سے بھی اعلٰی درجے کے شاعر تھے (ابن کثیر) علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ جب کعب بن زہیر کا قصیدہ حضور اکرم ﷺ نے پڑھا تو آپﷺ نے اس کے صلہ میں اپنی چادر مرحمت فرمائی جس کو ان کے انتقا ل کے بعد کعب بن زہیر کے ورثا سے امیر معاویہ نے خرید لیاتھااور اس کو ایک زمانہ تک خلفاء تبرکاً حفاظت سے رکھتے چلے آرہے تھے (ابن خلدون- سیرت النبی) حج (ذی الحجہ ۸ھ) : اس سال عربوں کے قدیم طریقہ پر حج ہوا اور مسلمانوں نے حضرت عتابؓ بن اسید والیٔ مکّہ کی امارت میں حج کیا،