انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خاندانِ برمک ایرانیوں میں سب سے قدیم مہ آبادی مذہب تھا، جس میں ستارہ پرستی زیادہ اور آتش پرستی کم تھی، مہ آباد کے بعد اس کے مذہب کی تجدید کے لیے یکے بعد دیگرے بہت سے پیغمبر بطورِ مجدد آئے ان سب کے بعد شت وخشورزردشت کا ظہور ہوا، زردشت نے جس شریعت کورواج دیا، خدا جانے اس کی اصلی صورت کیا ہوگی؛ مگرآج کل جوکچھ پتہ چلتا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ زردشت کی شریعت میں آتش پرستی زیادہ اور ستارہ پرستی کم تھی، زردشت کی زندگی ہی میں اُس کا مذہب شاہی مذہب ہوکر ایران کے اکثرحصہ میں پھیل گیا تھا، اسفندیار کی پہلوانی دورئین تنی نے افغانستان وپنجاب تک اس مذہب کوپھیلایا اور ہندوستان کے اعلم العلماء وشمس الفضلاء سنگراچہ وبیاس جی نے زردشت کے پاش بلخ میں حاضر ہوکر بیعت کی اور ہندوستان میں واپس آکر آتش پرستی کی اشاعت شروع کی جس کی یادگار اب تک ہندوؤں کے ہَوَن کی شکل میں نمودار ہے، زردشت اور اُس کے مرید باخلاص تارک السلطنت بادشاہ لہراسپ کا آخری قیام گاہ بلخ ہی تھا، بلخ کودین آتش پرستی کے ساتھ وہی تعلق ہے جوبیت المقدس یایروشلم کوعیسویت کے ساتھ یابودھ مذہب کوگیاجی کے ساتھ ہے، سکندر یونانی نے اصطخر، سمرقند، کانگڑہ، کراچی، بابل کادرمیانی رقبہ اپنی تاخت وتاراج سے بالکل تہ وبالا کردیا تھا، یہی وہ رقبہ کیانی خاندان کی آتش پرست سلطنت کا محکوم ومغلوب رقبہ تھا، اسی رقبہ میں آتش پرستی رائج تھی، یونانیوں کے سیلاب نے کیانیوں کی حکومت کے ساتھ ہی آتش پرستی کوٹھنڈا کردیا۔ سینکڑوں برس کے بعد یونانیوں کے شکنجے سے ایرانیوں کی گردنیں چھوٹیں اور ساسانِ اوّل نے ایرانی طائف الملوکی کوپھرایک شہنشاہی کی شکل میں تبدیل کرکے دین زردشتی کی خاکستری میں سے چنگاریاں نکال کرجابجا آتش کدے روشن کردیئے، بلخ کوچینیوں نے زردشت ہی کے زمانے میں حملہ کرکے ویران کردیا تھا؛ لیکن بلخ چند روز ہی کے بعد پھرآباد اور آتش پرستوں کا قبلہ تھا، سکندری سیلاب نے بلخ کی گرم بازاری کوسرد کردیا تھا؛ لیکن راسخ العقیدت زردشتیوں کا وہ بدستور اُمید گاہ تھا، ساسانیوں کے عہد میں اس کی عظمت نے دوبارہ عہدِ شباب پایا، جب قادسیہ ونہاوند کے میدانوں میں ساسانی سلطنت کے سانس پورے ہوگئے توبلخ کے آتش کدے کی رونق اور بھی زیادہ بڑھ گئی؛ کیونکہ ایران کا شکست خوردہ شہنشاہ اور دربارِ ایران کے بقیہ مفرور سرداروں کا جمگھٹ بلخ ہی کی طرف متوجہ ہوکر بلخ کے آتش کدہ موسومہ نوبہار میں مصروفِ یزدان پرستی ہوا، اس زمانے میں نوبہار کے مغ اعظم کی شان وعظمت قابل دید ہوگی اور وہ دینِ آتش پرستی کے سرپرست اعظم شہنشاہِ ایران کی بربادی وبے کسی دیکھ دیکھ کرسب سے زیادہ متأثر ہوگا وہ سوچتا ہوگا کہ جس دین کے پیشواؤں میں میرا شمار ہے وہ دین ہی اب ذلیل وبرباد ہونے والا ہےاور اس کے ساتھ ہی میری اور میرے خاندان کی عظمت بھی رُخصت ہونا چاہتی ہے، آتش کدے کے امام یامتولی کومغ کہتے تھے، ان مغوں میں جوسب سے بڑا اور سب کا افسر اور اپنے صوبہ کے تمام آتش کدوں کا مہتمم اور مرکزی آتش کدہ کا مغ ہوتا تھا وہ برمغ کہلاتا تھا۔ ایران کے چار مرکزی آتش کدوں میں سے ایک آتش کدہ نوبہار تھا، اس آتشکدے کوسب سے زیادہ عظمت وشہرت حاصل تھی؛ کیونکہ بلخ لہراسپ کا مقتل اور زردشت کا قیام گاہ اور دین زردشتی کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اس لیے نوبہار کے برمغ کی غزت وعظمت آتش پرستوں اور ایرانیوں میں یقیناً بہت بلند ہوگی۔ سنہ۳۱ھ میں مسلمان فتح مندوں کا سیلاب مرو کی طرف بڑھتا، میدانوں کوسمیٹتا اور پہاڑوں کولپیٹتا ہوا بلخ تک پہنچا اور وہ آگ جس کی نسبت مشہور تھا کہ ہزاروں برس سے برابر روشن چلی آتی ہے افسردہ ہوگئی نہ آتش پرست رہے نہ آتش کدہ کی ضرورت رہی، نہ برمغ صاحب کی عزت وتوقیر کرنے والا کوئی بڑا گروہ تھا نہ اُن کی آمدنی وآسائش کے سامان رہے؛ مگر وہ اپنے اسی خطاب یعنی برمغ کے نام سے پکارے جاتے تھے، فتح مند اہلِ عرب اس نام کوبرمک کہنے لگے اس موقع پریہ خیال کرنا غلطی ہوگی کہ اہلِ عرب نوبہار کومسمار ومنہدم کرکے آتش پرستو کوعبادت سے روک دیا اور زبردستی مسلمان بنالیا تھا، مسلمان اگرزبردستی آتش پرستوں کومسلمان بناتے توسب سے پہےل برمک کومسلمان بناتے؛ لیکن انھوں نے برمک سے قطعاً کوئی تعرض نہیں کیا؛ بلکہ آتش پرست خود ہی اسلام میں داخل ہوتے اور اپنے مذہب کوچھوڑتے جاتے تھے اور اسی تبدیلی مذہب کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کوحیرت انگیز سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل ہوئیں، مسلمانوں کا بلخ تک پہنچنا گویا مذہب اسلام کا بلخ تک پہنچنا تھا، جس کا لازمی نتیجہ آتش کدۂ نوبہار کی بربادی اور ا س کے مغ کی تباہ حالی تھا، برمک چونکہ مذہبی پیشوا تھا؛ اس لیے اس نے مذہب اسلام قبول نہ کیا؛ کیونکہ اسلام کے اس ملک میں آنے سے اُس کوہرقم کا نقصان پہنچا تھا اور ومسلمانوں کوطیش غضب کی نگاہ سے دیکھتا تھا، مسلمانوں کے آنے کے بعد سرحدِ چین کے مغل اور ترک قبائل جوایرانیوں کی قوم اور مذہب سے کوئی تعلق نہ رکھتے؛ مگرایرانی شہنشاہ کے رُعب سے بلخ پرحملہ آور نہ ہوسکتے تھے، اب بلخ پرچھاپے مارنے لگے نتیجہ یہ ہوا کہ یہی مغَ سردار مسلمانوں کوجزیہ دینے کا اقرار کرکے بلخ پرحکمرانی کرنے لگےاور بعد میں قوت پاکر مسلمانوں کے لیے موجب مشکلات بھی ہونے لگے۔ ان مغلوں نے بلخ میں آتش پرستی کے تمام سامانوں کومٹایا اور خاندانِ برمک کوذلیل کرکے ادنی طبقہ میں پہنچایا، عربوں نے پہلی مرتبہ اس طرف آکرزیادہ دنوں قیام نہیں کیا اور اندرونی جھگڑوں نے ان کوسرحدوں کی طرف متوجہ ہی نہ ہونے دیا اور بلخ مغلوں کا تختۂ مشق بنا رہا، وہ برمک جونوبہار کا مغ اور مجوسی سلطنت کا زمانہ دیکھے ہوئے تھا، فوت ہوگیا اس کا بیٹا بھی جودین زردشتی کا پیروتھا اسی نام سے مشہور ہوا، اس دوسرے برمک نے نوبہا کی بہار کی بہار کا زمانہ نہیں دیکھا تھا سنہ۸۶ھ میں جب قتیبہ بن مسلم گورنرخراسان نے بلخ پرچڑھائی کی تووہاں سے کچھ لونڈیاں بھی گرفترا ہوکر آئیں، ان میں ایک اس برمک دوم کی بیوی بھی تھی جوقتیبہ بن مسلم کے بھائی عبداللہ بن مسلم کے حصے میں آئی تھی، چند روز کے بعد جب اہلِ بلخ سے صلح ہوئی تویہ تمام لونڈیاں اور قیدی واپس کیے گئے؛ چنانچہ عبداللہ بن مسلم کوبھی یہ عورت واپس کرنی پڑی، اس عورت نے رُخصت ہوتے وقت عبداللہ سے کہا کہ میں تجھ سے حاملہ ہوگئی ہوں، برمک کے یہاں پہنچ کراس عورت کے پیٹ سے لڑکا پیدا ہوا؛ یہی لڑکا جعفر برمکی کا دادا تھا جس کا نام خالد تھا، ممکن ہے کہ یہ روایت بھی اُسی قسم کی فرضی کہانی ہوجیسی کے عجائب پسند اور عجائب پرست لوگ تصنیف کرلیا کرتے ہیں؛ بہرحال برمک دوم کے یہاں سنہ۸۶ھ یاسنہ۸۷ھ میں خالد پیدا ہوا، سنہ۱۶۴ھ میں امام ابراہیم عباسی نے ابومسلم خراسانی کوخراسان کے دُعاۃ کا افسرومہتمم بناکر بھیجا، ابومسلم نے خالد بن برمک کوجب کہ اس کی عمرچالیس سال کے قریب تھی، اپنی جماعت میں شامل کیا، ابومسلم کوخالد بن برمک کے ساتھ بہت محبت تھی اور اس کی خصوصی توجہ خالد کی تربیت اور افزائشِ مرتبت میں صرف ہوتی تھی، ابومسلم نے جب خراسان سے ایک شخص کوبھیج کرابوسلمہ خلال معروف بہ وزیر آل محمد کوقتل کرایا توسفاح کولکھا کہ آپ اب خالد بن برمک کواپنا وزیر بنالیں؛ چنانچہ عبداللہ سفاح پہلے عباسی خلیفہ نے خالد بن برمک کواپنا وزیر بنالیا اور سفاح کی وفات تک خالد بن برمک وزیررہا، سفاح کے بعد منصور عباسی تخت نشین ہوا تواس نے بھی خالد کووزارت پرقائم رکھا، منصور نے اپنی خلافت کے پہلے سال ہی ابومسلم کوجوخالد کا مربی وہم خیال ومحسن تھا قتل کرادیا۔ خالد نے ابومسلم کے قتل ہونے پراپنے کسی عمل سے اپنی دلی ناراضی اور ملال کا اظہار نہ ہونے دیا؛ مگرمنصور نے پھربھی احتیاطاً قتلِ ابومسلم کے چار پانچ مہینے کے بعد خالد کوکسی بغاوت کے فرو کرنے کے بہانے سے روانہ کرکے ابوایوب کواپنا وزیر بنالیا؛ چونکہ خالد سے کوئی علامت سرکشی اور بے وفائی کی ظاہر نہیں ہوئی تھی اس لیے خلیفہ منصور نے ایک کارگذار اور قابل شخص سے کام لینے اور فائدہ اُٹھانے میں کمی نہیں کی، خالد کے آئندہ طرزِ عمل نے منصور کومطمئن کردیا؛ چونکہ وہ ابومسلم جیسے سازشی، باہمت اور اولوالعزم شخص کا شاگردِ رشید اور سیاسی معاملات میں خوب تجربہ کار تھا، ایرانی عصبیت بھی اُس کے دل میں موجود تھی، ابومسلم کا انجام بھی وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا اور اس کا دل خون کے آنسو رورہا تھا؛ لہٰذا وہ ابومسلم سے بھی زیادہ گہرا بن گیا اور منصور جیسے چوکس رہنے والے اداشناس خلیفہ سے بھی اپنے اصلی رنگ کوچھپالینے میں کامیاب ہوگیا، موصل کی ولایت کا والی اور منصور کے بیٹے مہدی کا اتالیق رہا اور اپنے وقار ومرتبہ کوآخرعمر تک قائم رکھا، وہ اس کے اور اس کے خاندان کے لیے بے حد مفید اور ضروری تھا، کچھ بعید نہیں کہ اُس نے خود اس بات کی کوشش کی ہو کہ مہدی کی اتالیقی اس کومل جائے، مہدی کی تخت نشینی اور منصور کی وفات کے بعد بھی خالد زندہ تھا، اب اس کے عزت ومرتبہ میں اور بھی اضافہ ہوگیا تھا، مہدی کے عہدِ خلافت یعنی سنہ۱۶۳ھ میں قریباً ۷۷/سال کی عمر میں خالد کا انتقال ہوا، اس کی آخری آدھی سلطنتوں کے بننے بگڑنے کا تماشہ دیکھنے میں صرف ہوئی تھی اور وہ خود سلطنتوں کوبرباد کرنے اور نئی سلطنت قائم کرنے کے کام میں شریکِ غالب کی حیثیت سے کام کرچکا تھا، اس کی وفات کے وقت اس کے بیٹے یحییٰ کی عمر۴۵/ یا۵۰/سال کی تھی اور اس نے بھی ہوش سنبھالتے ہی یہ تمام تماشے اور ہنگامے دیکھے تھے، وہ اپنے باپ سے اس کے تمام عزائم وتمام خیالات، تمام خواہشات، تمام احتیاطیں ورثہ میں پاچکا تھا، وہ اپنے باپ دادا کی بربادی، اپنے خاندانی احترام، ایرانی شہنشاہی کے افسانے نہایت عقیدت وحسرت کے ساتھ سن چکا تھا، وہ اپنے آپ کوایرانی قوم کا نمایندہ اور پیشوا سمجھتا اور اس بات کوبخوبی جانتا تھا کہ ایک ذراسی لغزشِ پا اس رسوخ کوجوخلافتِ اسلامیہ میں حاصل ہے ضائع کرکے تحت الثریٰ میں پہنچا سکتی ہے، دوسری طرف اس کواور اس کے باپ کوخاندانِ خلافت کےاندرونی اور خاندانی معاملات میں بھی دخل تھا، صحبتِ مدام نے اُ سکے قلب کورُعب سلطنت کے بوجھ سے چور چور اور مرعوب ہونے سے بھی بچالیا تھا، خالد بن برمک نے سب سے برا کام اور نہایت گہری تدبیر یہ کی تھی کہ سنہ۱۶۱ھ میں مہدی کومشورہ دیا کہ شہزادۂ ہارون الرشید کا اتالیق یحییٰ کوبنادیا جائے، مہدی چونکہ خود خالد کی اتالیقی میں رہ چکا تھا؛ لہٰذا اس نے اپنے بیٹے کو خالد کے بیٹے کی اتالیقی میں سپرد کرنا بالکل بے ساختہ چیز سمجھا، اس سے بھی پہلے جب کہ ہارون الرشید بمقام رَے خیزران کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا توخالد مہدی کے ساتھ رَے میں موجود تھا، خالد ہی نے ہارون الرشید کویحییٰ کبیوی کا اور اپنے پوتے یعنی یحییٰ کے بیٹے فضل کوخیزران کا دودھ پلواکرفضل اور ہارون کودودھ شریک بھائی بنوایا تھا، خالد کی ان تمام تدابیر کواگربہ نظرِ غور دیکھا جائے تواس نے نہایت ہی خوبی کے ساتھ اپنے خاندان کی پوری پوری حفاظت کرلی تھی؛ کیونکہ وہ ایک نہایت عظیمالشان کام انجام دینا یعنی ابومسلم کا بدلہ لے کر ایرانیوں میں حکومت وسلطنت کوواپس لانا چاہتا تھا۔ یحییٰ بن خالد نے ہارون کوتعلیم وتربیت کیا تھا اُس نے ہارون پریہاں تک اپنا اثر قائم کرلیا تھا کہ ہارون تختِ خلافت پرمتمکن ہونے کے بعد بھی یحییٰ کوپدرِ بزرگوار ہی کہہ کرمخاطب کرتا تھا اور اس کے سامنے بے تکلفانہ گفتگو کرتا ہوا شرماتا تھا، خلیفۂ ہادی کا عہدِ خلافت کسی طرح بھی خاندانِ برمک کے منصوبوں کے موافق نہ تھا اور ہادی پریحییٰ کا کوئی اثر بھی نہ تھا؛ اگرتھا توصرف اسی قدر کہ وہ متوسلین میں سے ایک تھا؛ لیکن یحییٰ نے وہ تدابیر اختیار کیں کہ ہادی کی حقیقی ماں خیزران اپنے بیٹے ہادی کی دشمن بن کراُس کی جان کی خواہاں بن گئی اور یحییٰ وخیزران نے مل کر جلد ہی اس کا کام تمام کردیا اور سال بھر سے زیادہ اس کوحکومت کا موقع نہ مل سکا، ھارون کی تخت نشینی کے لیے یحییٰ کا کوشش کرنا ظاہر ہے کہ خود اپنی ہی ذات کے لیے کوشش کرنا تھا، ہارون نے خلیفہ ہوتے ہی جیسا کہ توقع تھی یحییٰ بن خالد کووزیراعظم اور مدارالمہام خلافت بنادیا، یحییٰ ایسا بیوقوف نہ تھا کہ ہارون کی ماں خیزران کوناراض رکھتا، اس نے ہرایک کام خیران کے مشورہ سے کرنا شروع کردیا، یعنی اپنی ہرایک تجویز کے لیے پہلے خیزران سے مشورہ لے لیتا تھا، چند روز کے بعد خیزران فوت ہوگئے اور یحییٰ کواس اس تکلف کی بھی ضرورت باقی نہ رہی، یحییٰ نے اُمورِ خلافت اور مہماتِ سلطنت میں اس انہماک، دل سوزی اور خوبی سے کام کیا کہ ہارون الرشید کے دل میں یحییٰ کی عزت اور محبت بڑھتی چلی گئی، یحییٰ نے یہ بھی احتیاط رکھی کہ ہارون کی آزاد مرضی اور دلی خواہش میں کسی مقام پربھی یحییٰ کا اختیار سدِّراہ محسوس نہ ہونے پائے، یہ معلوم ہوتا تھا کہ یحییٰ کا کام صرف ہارون کی خواہش اور منشاء کوکامیاب بنانے کی سعی بجالانا ہے اور بس؛ لیکن یحییٰ نے جوسب سے بڑا کام کیا وہ یہ تھا کہ اُس نے غیرمحسوس طریقہ پراپنے خاندان والوں اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور اپنے ہم خیال ایرانیوں کوذمہ داری کے عہدوں، اہم ولایتوں کی حکومتوں، فوجوں کی سرداریوں پرمامور ومقرر کرنا شروع کیا، اپنے بیٹوں فضل وجعفر وغیرہ کواس نے ہارون الرشید کا بھائی بناہی دیا تھا، ہارون بھی یحییٰ کے بیٹوں کواپنا بھائی کہتا اور انھیں سب سے زیادہ اپنا عزیز ورفیق جانتا تھا، اپنے بیٹوں کوہارون نے فضل وجعفر کی اتالیقی میں دے دیا تھا۔ سنہ۱۷۴ھ میں جب کہ یحییٰ بوڑھا اور ضعیف ہوگیا تھا ہارون نے اس کے بیٹے فضل کومہماتِ وزارت میں اُّ کا مددگار وشریک بنایا تھا، جب یحییٰ بن عبداللہ نے سنہ۱۷۶ھ میں ویلم میں خروج کیا ہے توفضل بن یحییٰ ہی نے اس مہم کوطے کیا تھا اور یحییٰ بن عبداللہ کے لیے جاگیر مقرر کرائی تھی، چند روز کے بعد ہارون نے یحییٰ بن عبداللہ کوجعفر بن یحییٰ کے سپرد کیا کہ اپنے پاس نظر بند رکھو، فضل کوہارون نے سنہ۱۷۸ھ میں خراسان وطبرستان ورَے وہمدان کا گورنر بھی بنادیا تھا، فضل بن یحییٰ کوہارون نے اپنے بیٹے امین کا اتالیق بنایا تھا، یحییٰ نے اپنی گورنری خراسان کے زمانہ میں پانچ لاکھ ایرانیوں کی ایک نہایت زبردست اور آراستہ فوج تیار کی؛ مگرایک ہی سال کے بعد سنہ۱۷۹ھ میں ہارن نے اُس کوخراسان سے بلاکر مستقل وزیرِاعظم بنادیا؛ مگریحییٰ سے اہم معاملات میں ضرور مشورہ لیا جاتا تھا، یعنی وہ بھی بدستور مہماتِ سلطنت میں دخیل رہا۔ یحییٰ کا دوسرا بیٹا جعفر ہارون الرشید کا مصاحب خاص اور نہایت بے تکلف دوست تھا، ہارون سفروحضر میں اس کوہمیشہ اپنے ساتھ رکھتات ھا، جعفر نہایت خوش مزاج اور سلیقہ شعار تھا سنہ۱۷۶ھ میں جعفر کومحلات شاہی کی داروغگی کے علاوہ ملکِ مصر کی گورنری بھی عطا ہوئی تھی، جعفر نے اپنی طرف سے مصر کی حکومت پرعمران بن مہران کوروانہ کردیا تھا اور خود ہارون کی خدمت میں رہتا تھا۔ سنہ۱۹۸۰ھ میں دمشق وشام میں فسادات پیدا ہوئے توجعفر ہی نے جاکر اُن کوفرو کیا؛ پھرہارون نے جعفر کوخراسان کی گورنری عطا کی؛ مگرایک مہینہ بھی گذرنے نہ پایا تھا کہ خاص بغداد کی حکومت وکوتوالی اس کے سپرد کی، جعفر نے یہ کام ہرثمہ بن اعین کے سپرد کیا اور خود بدستور ہارون الرشید کا مصاحب رہا، ہارون الرشید نے یحییٰ بن خالد کوبلاکر کہا کہ آپ فضل سے کہدیں کہ وہ قلمدانِ وزارت جعفر کے سپرد کردیں؛ کیونکہ مجھ کوفضل سے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ وہ وزارت کا کام جعفر کوسپرد کردیں؛ چنانچہ یحییٰ نے فضل سے ہارون کا منشاء ظاہر کیا اور جعفر وزیراعظم ہوگیا، اس بات سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس خاندان کا ہارون پرکس قدر قوی اثر تھا۔ جعفر بن یحییٰ نے اپنے عہدِ وزارت میں سلطنت کے تمام عہدوں اور تمام صیغٰں پر اس طرح تسلط جمالیا کہ حقیقتاً وہی سلطنت کا مالک اور اصل فرماں روا سمجھا جانے لگا، بغداد کی تمام پولیس بغداد کے بڑے بڑے محلات سب اُس کے قبضہ میں تھے، ولایتوں کے عامل، صوبوں کے گورنر، فوج کے افسر سب اُسی کے آوردے تھے، خزانہ کا وہی مالک ومہتمم تھا؛ حتی کہ ضرورت کے وقت ہارون الرشید کوجعفر ہی سے روپیہ مانگنا پڑتا تھا، یحییٰ بن خالد کے اور بھی کئی بیٹے تھے جوبڑی بڑی فوجوں کے افسر تھے، اپنے ان اختیارات اور اقتدار سے یحییٰ اور اس کے بیٹوں نے نہایت خوبی کے ساتھ فائدہ اُٹھایا، یعنی انھوں نے بڑی بڑی جاگیروں اور وظیفوں کی آمدنی کے علاوہ خزانہ سلطنت کے روپیہ کوبھی سخاوت اور داد ودہش میں بے دریغ خرچ کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی سخاوت حاتم کی طرح مشہور ہوگئی، کوئی شخص ایسا نہ تھا جوخاندانِ برمک کا مداح اور ہواخواہ نہ ہو؛ انھوں نے خوب روپیہ حاصل کیا اور اس کوبلادریغ خرچ کیا، اپنی قبولیت وناموری خریدی؛ یہاں تک کہ صرف خراسان وعراق ہی میں نہیں بلکہ شام ومصر وعرب ویمن اور دور دور کے ملکوں میں لوگ اُن کی مدح سرائی کرتے اور اُن کی سخاوت اور بذلِ مال کی تعریف میں قصائد لکھتے تھے۔ خاندانِ برمک کی عزت، قبولیت، اختیار، اقتدار، قوت وطاقت، مال ودولت، معراجِ کمال کوپہنچ چکی تھیں، بجزاُس کے کہ وہ تختِ خلافت پرنہیں بیٹھے تھے اور تمام چیزیں ان کوحاصل تھیں وہ ان کے باوجود ہارون الرشید کے منشاء کے خلاف کوئی حرکت نہیں کرتے تھے، اس لیے ہارون الرشید کے کسی ہوا خواہ کویہ موقع ہی حاصل نہ تھا کہ اُن کے اس اقتدار وعظمت کوشکست وشبہ کی نگاہ سے دیکھے؛ لیکن اگراس اقتدار وقوت اور اس اختیار وتسلط کی تَہ میں کوئی بدنیتی یابغاوت پوشیدہ ہوتوپھر ہارون الرشید کے لیے ان سے بڑھ کرکوئی دوسرا دشمن نہیں ہوسکتا تھا۔ سنہ۱۸۷ھ کی ابتدا میں یکا یک دیکھا گیا کہ ہارون الرشید نے خاندانِ برمک کے ساتھ وہ برتاؤ کیا جودشمنوں سے کیا جاتا ہے؛ پس ہم کواس وقت یہ دیکھنا اور تحقیق کرنا چاہیے کہ آیا برامکہ نے حقیقتاً ہارون الرشید کی سلطنت کے خلاف کوئی منصوبہ اور سازش شروع کررکھی تھی یانہیں اور ہارون ان کے اس مخالف منصوبے سے واقف ہوگیا تھا یانہیں؛ اگرواقعی برامکہ ہارون اور عباسی خلافت کے خلاف کچھ کرنا چاہتے تھے توہارون نے ان کے ساتھ جوآخری سلوک کیا وہ سراسر جائز اور ہرطرح مناسب تھا؛ لیکن اگربرامکہ کا ظاہر اور باطن یکساں تھا اور وہ خلوص کے ساتھ ہارون کے فرماں بردار تھے توہارون سے بڑھ کرکوئی ناقدرشناس اور ظالم نہیں ہوسکتا، سطحی نگاہ والوں کے لیے برامکہ کی بربادی کی مسئلہ ایک عقدۂ لاینحل کیا جاتا ہے اور اُنہوں نے چانڈ وخانے کی بے سروپا باتوں کواس عقدۂ دشوار کے حل کرنے کے لیے ذریعہ بناکر حقیقت کا جامہ بہنادیا ہے۔