انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** بالائی عراق اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ حکم صدیقی کے مطابق عیاض بن غنمؓ نے بالائی عراق پر حملہ کیا تھا،حضرت خالد بن ولیدؓ کو تو بہت جلد قبائل ورؤسا سے گزر کر ایرانی سرداروں اورایرانی فوجوں سے مقابلہ پیش آگیا تھا،اگر چہ عرب سردار اور عیسائی قبائل بھی برسر مقابلہ تھے ؛لیکن وہ ایرانیوں سے جدا نہ تھے،حضرت عیاض بن غنمؓ جو بالائی عراق پر حملہ آور ہوئے تھے، اُن کو ابھی تک عیسائی خود مختار رؤسا سے فرصت نہیں ملی تھی وہ جس علاقے میں مصروف پیکار تھے وہ علاقہ عراق جزیرہ،ایران،شام کا مقام اتصال تھا،اوراسی لئے ان کی معرکہ آرائیوں کا اثر جس قدر دربارِ ایران پر پڑ سکتا تھا،اُسی قدر دربارِ ہر قل پر بھی پڑرہاتھا جس زمانے میں حضرت خالد بن ولید نے عین التمر کو فتح کیا اُس وقت حضرت عیاض بن غنمؓ عرب کے مشرک ونصرانی قبائل کو زیرکرتے ہوئے دومۃ الجندل کے حکمرانوں سے برسر مقابلہ تھے،علاقہ دومۃ الجندل میں دو رئیس تھے،ایک اکیدر بن عبدالملک (جس کا ذکر اوپر حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات میں آچکا ہے) دوسرا جودی بن ربیعہ،یہ دونوں رئیس متفق ومتحد ہوکر عیاض بن غنمؓ کے مقابلہ میں صف آرا تھے اور انہوں نے ارد گرد کے تمام نصرانی قبائل کو اپنے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ میں شریک و متحد کرلیا تھا،عیاض بن غنم کا ایک خط عین التمر میں خالد بن ولیدؓ کے پاس پہنچا کہ ہماری مدد کو پہنچے،دشمن کی بڑی تعداد وقوت کا مقابلہ ہماری نہایت ہی قلیل جمعیت سے شاید نہ ہوسکے۔