انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نادرشاہ ہندوستان میں ہندوستان میں جب نادرشاہ ایرانی آیا اور صلح وآشتی کے ساتھ ہندوستان کا بادشاہ اُس کومہمان عزیز کی حیثیت سے دہلی میں لایا توکسی چانڈوخانے میں کسی شخص نے نشہ کی حالت میں کہا کہ واہ محمد شاہ پیا کیا کام کیا ہے کہ قزلباش کوقلعہ میں لاکر قلماقنیوں کے ہاتھ سے قتل کرادیا، یہ بے پرکا کوّا اڑا اور اُس نے اُڑتے ہی تمام دہلی میں ایرانیوں کے سراُڑوانے شروع کرادیئے، آخر مجبور ہوکر نادرشاہ ایرانی نے قتلِ عام کا حکم دیا اور دہلی میں وہ قتلِ عام ہوا جس کی نظیر آج تک دہلی نے نہیں دیکھی، بس بالکل اسی قسم کی بہ بات ہے کہ کسی نے جعفر برمکی کے قتل کا سبب اس طرح تصنیف کرکے بیان کیا کہ: ہارون الرشید عباسی کی بہن اور مہدی کی ایک بیٹی عباسہ تھی، ہارون کواپنی اس بہن سے بہت محبت تھی؛ اسی طرح جعفر بن یحییٰ اُس کا وزیراعظم بھی ہارون کا جلیس وندیم اور ہمہ اوقات ساتھ رہتا تھا، ہارون جعفر اور عباسہ کے ساتھ مل کرشراب نوشی کیا کرتا تھا، ہارون شراب نوشی کے جلسہ میں جس طرح اپنی بہن کوشریک رکھنا چاہتا تھا اسی طرح اس کواپنے وزیراعظم جعفر کا شریک رکھنا بھی ضروری تھا؛ لہٰذا ہارون الرشید نے عباسہ کا نکاح جعفر سے کردیا تھا کہ ایک دوسرے کا دیکھنا مباح ہوجائے؛ لیکن جعفر وعباسہ دونوں کویہ تاکید کردی تھی کہ زن وشوہری کے تعلقات ہرگز نہ ہونے پائیں؛ مگرجعفر وعباسہ اس امتناعی حکم کی حد میں نہ رہ سکے، ہارون کوجب یہ بات معلوم ہوئی تواس نے جعفر کوقتل کراکر اُس کے تمام خاندان کوبرباد کیا۔ یہ چانڈوخانے کی گپ جب ہمارے زمانے کے ناول نویسوں اور پڑھے لکھے جاہلوں کے ہاتھ میں آئی توانھوں نے حسب عادت روغنِ قازمل کراس دروغ کوایسا فروغ دیا کہ آج کل جس اردوداں کودیکھئے اس نامعقول دروغ بانی پرآیت وحدیث سے بڑھ کرایمان رکھتا ہے اور اس کے خلاف کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتا۔ یہ افواہ قتلِ جعفر سے سوبرس کے بعد تصنیف ہوئی اور طبرئی نے اس کا ذکر اپنی تاریخ میں کردیا؛ بس پھرکیا تھا واقعہ کی شکل چونکہ عجیب وغریب بیان کی گئی ہے جس کے اندر کافی ندرت موجود ہے؛ لہٰذا عجائب پسند طبیعتیں اُسی طرف زیادہ جھکنے لگیں اور ہرشخص نے ہارون رشید کے حالات ہوئے اس افواہ کوبھی ضرور نقل کیا اور آج مجبوراً ہم کوبھی اس ناگفتنی کہانی کا ذکر کرنا پڑا، طبری اور دوسرے مؤرخین نے قتلِ جعفر کے دوسرے اسباب بھی بیان کیے ہیں؛ لیکن ان میں سے جھوٹے اور سچے کوالگ الگ انتخاب کرنے کے لیے عقل ودرایت سے کام لینے کی کوشش بہت کم لوگوں نے کرنی چاہی ہے: (۱)ہارون الرشید خلفاء عباسیہ میں پانچواں خلیفہ ہے، عباسیوں کواپنے خاندان کی عظمت اور اہلِ عرب میں نسب کے اعتبار سے اشرف ہونے کا فخر تھا، تمام ملکِ عرب ان کی خاندانی سیادت وبزرگی تسلیم کرتا تھا، ان کی خاندانی عظمت ہی تھی جس کے سبب وہ بنواُمیہ کے خلاف کوشش کرنے پرآمادہ اور پھراس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے، اب جب کہ ان کوقریباً تمام عالمِ اسلام کی خلافت وحکومت بھی حاصل تھی تواُن کا فخر نسبی اور بھی زیادہ بڑھ گیا تھا، عرب کی عصبیت اور ناموس کا پاس ولحاظ بھی عام طور پرسختی کے ساتھ موجود تھے، اندریں صورت یہ کیسے ممکن تھا کہ ہارون الرشید جیسا خلیفہ اپنی بہن کی شادی ایک ایسے شخص سے کردے جس کووہ نسبا غلام زادہ مجوسی النسل اور ایک نطفۂ ناتحقیق شخص کا پوتا سمجھتا تھا، یہ مانا کہ وہ جعفر کواپنا بھائی کہتا تھا اور اس کے باپ کواپنا اتالیق ہونے کے سبب ابا جان کہہ کرپکارتا تھا؛ لیکن بہن کا نکاح کرتے وقت وہ قوم وخاندان اور نسب کوفراموش نہیں کرسکتا تھا اور اگرہارون الرشید آج کل کے لوگوں کی طرح بیاہ شادی کے معاملہ میں بہت ہی زیادہ آزاد خیال ہوگیا تھا تواُس کے خاندان کے لوگ جوایک جدی اور تعداد میں بہت زیادہ موجود تھے، اس نکاح کواپنی خاندانی بے عزتی سمجھ کرکسی طرح خاموش نہیں رہ سکتے تھے؛ اسی طرح خود عباسہ بھی اپنی ایسی بے عزتی گوارا نہیں کرسکتی تھی۔ (۲)ہارون الرشید جیسا مذہبی شخص جوایک سال حج اور ایک سال جہاد کرتا تھا اور عالمِ اسلام کا سردار وخلیفہ تھا، شراب نوشی کی مجلسیں گرم کرے؛ کسی طرح سمجھ میں نہیں آتا، بنواُمیہ میں کسی ایک خلیفہ نے اگرکہیں نبیذ یاشراب استعمال کرلی توساری دنیا میں شور مچ گیا اور آج تک مؤرخین اس کے اس فعل بد کوخصوصیت سے بیان کرتے چلے آئے ہیں؛ لیکن ہارون الرشید جوعلماء اور باخدا لوگوں کی مجلسوں میں تنہا جاجاکر پھٹے ہوئے بورئیے پربیٹھتا اور اُن کی نصیحتیں سن کرزاروقطار روتا ہوا اُٹھ کرآتا تھا وہ بھلا شراب یعنی پیشاب جیسی پلید چیز سے کیا تعلق رکھ سکتا تھا، فضل بن عیاض، ابن سماک وسفیان ثوری جیسے بزرگ اُس کے دوست وہم نشیں ہوں، پنج وقتہ نماز نہایت پابندی اور خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھتا ہو بالخصوص نمازِ فجر بہت ہی اوّلِ وقت پڑھنے کا عادی ہو اور علاوہ پانچ وقت کی نمازوں کے سورکعت نفل روزانہ ادا کرتا ہو، ایسے شخص کوشراب خوار بتانا کس قدر بے حیائی اور ظلم ہے جس شخص نے رات کوشراب پی کرمجلس گرم کی ہو وہ نماز فجر میں کیسے شامل ہوسکتا ہے؟ جس کوشراب پینے کی عادت ہو اُس کی نمازوں میں خشوع وخصوع کہاں پایا جاسکتا ہے۔ (۳)علماء عراق نے نبیذ کے جواز کا فتویٰ دے دیا تھا اور بعض امراء نبیذ کا استعمال کرتے تھے؛ لیکن اس کوشراب کی بدمستیوں سے کوئی نسبت نہیں، ہارون الرشید کی نسبت تویقینی طور پریہ بھی ثابت نہیں کہ اس نے کبھی نبیذ کے دور چلائے ہوں اور ایسی مجلسیں گرم کی ہوں، جیسی کہ مذکورہ جھوٹی روایت میں مذکور ہے، ہارون الرشید کے زمانے تک عرب کی وہ سادگی اور سپاہیانہ زندگی موجود تھی جس میں شراب خوری کوکوئی دخل نہیں مل سکتا تھا، عربی شرافت جس کا ہارون سب سے زیادہ مدعی تھا، ہمیشہ سے شراب خوری کومذموم اور برا ٹھہراتی تھی؛ حتی کہ شرفائے عرب عہدِ جاہلیت میں بھی شراب نہیں پیتے تھے؛ لیکن اس کوشرفاء کا شیوہ نہیں جانتے تھے؛ حتی کہ شرفائے عرب عہدِ جاہلیت میں بھی شراب نہیں پیتے تھے؛ لیکن اس کوشرفاء کا شیوہ نہیں جانتے تھے؛ یہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بہت سے شرفائے عرب عہدِ جاہلیت میں بھی کبھی اس پلید چیز کے پاس تک نہیں گئے، ہارون الرشید اس ذلت وپستی کواحکام اسلام سے قطع نظر کرکے بھی قبول نہیں کرسکتا تھا۔ (۴)اس بے دینی اور عام بے حمیتی کے زمانے میں بھی جب کہ ہندوستان میں حکومتِ اسلامی باقی نہیں ہے اور حکومتِ موجودہ کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ہے، کوئی بے غیرت سے بے غیرت اور ذلیل سے ذلیل شخص بھی گووہ کیسا ہی علانیہ شراب کیوں نہ پیتا ہو یہ کسی طرح پسند نہیں کرسکتا کہ اس کی بہن بھی اس کے ساتھ شراب خوری کرے، ہمارے ملک میں چمار اور بھنگی شراب زیادہ پیتے ہیں، غالباً ان بھنگیوں اور چماروں سے بھی یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی بہنوں کولے کرغیرمردوں کے ساتھ شراب کے دور چلائیں؛ چہ جائیکہ ہارون الرشید عباسی جس کے دربار میں تابعین اور تبع تابعین موجود تھے، ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتا اور غیرت کے مارے مرنہ جاتا۔ (۵)جولوگ زنا، چوری، شراب خواری کرتے ہیں وہ عموماً اپنے اہلِ خاندان کوان کاموں سے ہمیشہ باز رکھنے کی کوشش کیا کرتے ہیں؛ اگرہارون کویہ پلید عادت ہوہی گئی تھی تووہ اپنے بہن کوتوہرگز شراب خوری پرآمادہ نہیں کرسکتا تھا، اس کی چہیتی بیوی زبیدہ جس کے ساتھ اس کی محبت حد سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی غالباً سب سے پہلے اس شراب خواری میں اس کی شریک ہوسکتی تھی؛ لیکن زبیدہ خاتون کی نسبت توکسی نے اس قسم کا کوئی اشارہ تک بھی نہیں کیا اور اس کی زندگی کے دامن پراس پلید چیز کی ذرا سی بھی کوئی چھینٹ نہیں پڑنے پائی، کیسے تعجب کی بات ہے کہ زبیدہ خاتون کے محل میں توہروقت قرآن خوانی ہورہی ہے اور اس کا عاشق زار خاوند جعفر وعباسہ کے ساتھ مصروف شراب نوشی ہے۔ (۶)مؤرخین نے یہ واقعہ باوثوق نقل کیا ہے کہ حکیم جبرئیل ایک یہودی طبیب ہارون الرشید کے دربار میں تھا اور دسترخوان پرخلیفہ کے ساتھ ہوتا اور کوئی مضر چیز دیکھتا توخلیفہ کواُس کے کھانے سے روک دیتا تھا، ایک مرتبہ خلیفہ کے لیے مچھلی خوان میں لگ کرآئی، خلیفہ نے اُس کے کھانے کا ارادہ کیا، حکیم نے خلیفہ کواس کے کھانے سے روک دیا اور خانسا ماں سے کہا کہ اُس کواُٹھاکر لے جاؤ اس کے بعد اتفاقاً خلیفہ کے کسی خادم نے دیکھا کہ اُسی مچھلی کوحکیم جبرئیل اپنی قیام گاہ پرجاکر خود نوش فرمارہے ہیں، اُس وقت یہ حقیقت کھلی کہ حکیم نے مچھلی کواپنے کھانے کے لیے روکا اور ہارون کواس کے کھانے سے باز رکھا تھا، خادم نے یہ خبر خلیفہ تک پہنچادی، بات تویہ محض ہنسی کی تھی اور ہارون بجز ہنسنے کے حکیم کواور کچھ نہ کہتا؛ لیکن حکیم کوجب معلوم ہوا کہ خلیفہ میری اس حرکت سے مطلع ہوچکا ہے تواس نے مچھلی کے تین قتلے الگ الگ تین پیالوں میں رکھے ایک پیلے میں گوشت اور دوسری کھانے کی چیزیں جودسترخوان پرہارون نے کھائی تھیں، ملادی تھیں، دوسرے قتلے پربرف کا پانی ڈالا تھا، تیسرے پیالے میں شار بڈال دی تھی، یہ تینوں پیالے خلیفہ کی خدمت میں پیش کرکے کہا کہ ان دونوں پیالوں میں آپ کا کھانا ہے اور اس تیسرے پیالے میں میرا کھانا ہے، دیکھا تووہ دونوں قتلے چند ہی گھنٹہ کے بعد سڑکربدبو دینے لگے تھے اور جس پیالے میں شراب تھی اُس میں مچھلی کا گوشت پانی ہوکر شراب میں مل گیا تھا، اس طرح حکیم نے اپنی شرمندگی دور کی اور خلیفہ کوبتایا کہ میں چونکہ شراب پیتا ہوں؛ لہٰذا میرے لیے یہ مچھلی نقصان رساں نہ تھی اور آپ چونکہ شراب نہیں پی سکتے؛ لہٰذا میں نے مچھلی کوروک دیا تھا، اس حکایت سے بھی صاف ثابت ہے کہ ہارون الرشید کوشراب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ (۷)حقیقت یہ ہے کہ عباسہ کی شادی ہارون نے محمد بن سلیمان سے کردی تھی، جب محمد بن سلیمان کے فوت ہونے پرعباسہ بیوہ ہوگئی تھی تواس کی دوسری شادی ابراہیم بن صالح بن علی سے کردی، جوہارون کے قریبی رشتہ دار اور آلِ عباس تھے، ایک ایسی شریف وپاکباز عورت کی نسبت ایسا سفید اور بے سروپا جھوٹ بولنا، جھوٹ بولنے والے کی انتہائی رذالت وکمینہ پن کا ثبوت ہے اور جو شخص اس جھوٹ کوسچ ثابت کرنے کی کوشش کرے اس کی افتادِ فطرت بھی یقیناً بہت ہی پست وذلیل ہوجاتی ہے؛ پھرسب سے عجیب بات اس سفید جھوٹ میں یہ ہے کہ جعفر وعباسہ کے ایک دوسرےکے چہرے پرنظرڈالنے کومباح کرنے میں توہارون کوشریعت کی پابندی کا اس قدر زیادہ خیال تھا؛ مگرشراب خوری کرتے ہوئے وہ شریعت کوبھول جاتا تھا۔