انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مقامِ حدیبیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہ تھی کہ بیت اللہ اورمکہ پر جوبلدالحرام ہے،حملہ کرنا حرمتِ کعبہ کے خلاف ہے اس لئے خدا تم کو روک رہا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا،وہ اُٹھ کر چل پڑی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حدیبیہ کے کنوئیں پر پہنچ کر قیام کیا،اُس کنویں میں بہت ہی تھوڑا سا پانی تھا جو ذرا سی دیر میں ختم ہوگیا،لوگوں کو پانی کی تکلیف ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر حضرت براء بن عازبؓ کو دیا کہ یہ تیر کنویں میں ڈال دو، تیر کے ڈالتے ہی پانی کنویں میں اس قدر بڑھ گیا کہ لشکرِ اسلام کو پانی کی قطعاً تکلیف نہ ہوئی، جب حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقیم ہوئے تو قریشِ مکہ کی جانب سے بُدیل بن ورقاء خزاعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند قوموں کے ہمراہ آیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا سبب دریافت کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ قافلہ کے آگے قربانی کے اونٹوں کی قطار ہے اور ہم احرام باندھے ہوئے ہیں، بُدیل یہ سُن کر واپس چلا گیا اورقریشِ مکہ سے کہا کہ تم ناحق شور وغوغا مچارہے ہو،محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف بیت اللہ کی زیارت کو آئے ہیں،تم سے لڑنے کو نہیں آئے،قریش کے فتنہ پسند لوگوں نے کہا کہ ہم اُن کو بیت اللہ کی زیارت کے لئے بھی نہیں آنے دیں گے،لیکن ان کے سمجھ دارو لوگ کچھ خاموش ہوکر سوچنے لگے،اُس کے بعد اہلِ مکہ نے حلیس بن علقمہ کنانی قبائل احابیش کے سردار اعظم کو قاصد بناکر بھیجا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تک بھی نہیں آیا؛بلکہ قربانی کے اونٹوں کو دیکھ کر راستے ہی سے واپس چلا گیا اور کہا کہ مسلمان لڑنے کے ارادے سے نہیں آئے ؛بلکہ عمر ے کے ارادے سے آئے ہیں، زیارتِ کعبہ سے روکنے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں ہے،یہ سُن کر قریش نے کہا کہ تم جنگلی آدمی کچھ نہیں جانتے ہو،ہم مسلمانوں کو ہرگز مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے ورنہ ہماری بڑی بے عزتی ہوگی حلیس کو سُن کر غصہ آگیا اس نے کہا: اگر تم مسلمانوں کو عمرہ نہ ادا کرنے دو گے تو میں اپنے تمام آدمیوں کو لے کر تم سے لڑوں گا،یہ رنگ دیکھ کر قریش نے حلیس کے غصہ کو ٹھنڈا کیا اور منت وسماجت کے ساتھ سمجھا بجھا کر اُسے خاموش کیا،اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خراش بن امیہ خزاعی کو تغلب نامی اونٹ دے کر قریشِ مکہ کے پاس روانہ کیا اورکہلا بھجوایا کہ ہم لڑنے کے ارادے سے نہیں آئے،ہمارا مقصود صرف زیارتِ کعبہ سے مشرف ہونا اورقربانی ادا کرنا ہے،خراش نے یہ پیغام قریش کو پہنچایا،قریش نے خراش کے اونٹ کو ذبح کردیا اورخراش کو بھی مار ڈالنا چاہا،لیکن حلیس اوراُس کے لوگوں نے خراش کو قریشِ مکہ کے چنگل سے بچا کر واپس روانہ کردیا، اُس کے بعد قریش کےخود سر نوجوانوں کی ایک جماعت مکہ سے نکل کر وادی میں آئی کہ موقع پاکر مسلمانوں پر حملہ آور ہو،لیکن صحابہ کرام نے ان کو دیکھ لیا اورسب کو گرفتار کرلیا، مگر بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق سب کو رہا کردیا، اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ حضرت عمر فاروقؓ کو اہل مکہ کے پاس بھیجیں،حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا کہ مجھ کو اہل مکہ کے پاس جانے میں کوئی عذر نہیں ہے؛ لیکن مکہ میں میرے قبیلہ بنو عدی بن کعب کا کوئی آدمی نہیں ہے جو مجھ کو اپنی حمایت میں لے،لہذا میرا جانا خطرہ کا موجب ہوسکتا ہے مجھ سے بہتر عثمان بن عفانؓ ہیں ؛کیونکہ ان کے قبیلہ بنو امیہ کے بہت سے بااثر اورطاقتور آدمی موجود ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کی اس تجویز کو بہت پسند فرمایا اورحضرت عثمان غنیؓ کو بطور ایلچی ابو سفیان کے پاس روانہ کیا، حضرت عثمانؓ کی مکہ میں سب سے اول ابان بن سعید بن العاص سے ملاقات ہوئی ابان نے فوراً اُن کو اپنی حمایت میں لے لیا اور ابو سفیان اوردوسرے سردارانِ قریش کے پاس لے گیا سردارانِ قریش نے حضرت عثمان غنیؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سُن کر کہا کہ ہم تم کو تو اجازت دیتے ہیں،خانۂ کعبہ کا طواف کرلو ،حضرت عثمانؓ نے کہا کہ میں بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تنہا طواف نہیں کرسکتا،یہ سُن کر قریش برہم ہوئے اورحضرت عثمانؓ کو مکہ میں روک لیا۔