انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ضعیف حدیث اور قوت استدلال فقہ اسلامی کی بنیاد جن چار چیزوں پر ہے ان میں سے ایک اہم ماخذ حدیثِ نبویﷺ بھی ہے، جس کے بیان ونقل میں انتہائی حزم واحتیاط سے کام لیا گیا ہے، ماضی میں بعض اسباب کے تحت احادیث کووضع کرنے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناپاک سازش کی گئی تھی، جن کے خلاف محدثین نے سخت محاذ آرائی کی؛ اِسی پسِ منظر میں "ائمۂ جرح وتعدیل" کی جماعت کا ظہور ہوا؛ جنھوں نے موضوع اور من گھڑت احادیث کو چھانٹ کر موضوعات کے نام سے الگ کردیا اور راویوں کے حالات کو مدنظررکھتے ہوئے ان کے احوال واعمال کے مطابق احادیث کی تقسیم کردی، ان ہی اقسام میں ایک "ضعیف" حدیث بھی ہے، جو فی الحال موضوعِ بحث ہے، اس کے تحت تعارف، حکم اور اس میں فقہاء کا اختلاف اور دیگرضروری امور کو بیان کیا جائے گا: حدیثِ ضعیف حدیثِ ضعیف کی تعریف میں متقدمین اور متأخرین کی الگ الگ رائیں ہیں، متقدمین کی اصطلاح میں "ضعیف" وہ حدیث کہلاتی ہے جومنکر اور باطل نہ ہو اور اس کےراوی متہم بالکذب نہ ہو؛ گویا متقدمین کے یہاں حدیث صحیح ہی کی ایک قسم "حدیثِ ضعیف" ہے اور اسے متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ حسن" کہا جاتا ہے اور متقدمین نے یہ طے کررکھا تھا کہ اس ضعیف حدیث کے خلاف اگرکوئی حدیث صحیح نہ ہو توپھر اس حدیثِ ضعیف (حدیثِ حسن عندالمتأخرین) پر عمل کیا جائے گا اور اسے قیاس پربھی ترجیح دی جائے گی۔ (اعلاء السنن:۱/۶۰) لیکن متأخرین کی اصطلاح میں "حدیثِ ضعیف" وہ کہلاتی ہے جس میں حدیث صحیح وحسن کے شرائط نہ پائے جائیں، اس کے راوی غیرعادل یامتہم بالکذب، یامستورالحال ہوں اور وہ متعدد طرق سے مروی بھی نہ ہو یااس میں شذوذ وعلتِ خفیہ ہوں یہ اسباب کسی حدیث کوضعیف قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔ (احکام القرآن للجصاص:۱/۳۸۶) حدیثِ ضعیف کا ضعف ختم ہوسکتا ہے اگرحدیث ضعیف ہے تواس کا ضعف مختلف قرائن سے دور ہوسکتا ہے، ان میں سے ایک تعدد طرق ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرحدیث ضعیف کئی سندوں سے مروی ہو تواس کی وجہ سے وہ ضعف سے نکل جاتی ہے اور اسے قوی ومعتبر اور لائق عمل قرار دیا جاتا ہے، محدثین کی اصطلاح میں اس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں، حافظ بن حجرؒ کی تفصیل کے مطابق یہ حدیث مقبول ومعتبر کی چار اقسام میں سے ایک ہیں۔ (ردالمحتار:۱/۲۵۳) بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حسن لغیرہ بھی اصل میں ضعیف ہی ہے؛ مگرکسی قوت پہونچانے والے امر کی وجہ سے اس میں حسن پیدا ہو جاتاہے۔ (فتح المغیث:۳۵/۳۶) "الحسن لغيره أصله ضعيف وإنماطرأعليه الحسن بالعاضد الذي عضده"۔ (بدایۃ المجتہد:۱/۴۳) ترجمہ:حسن لغیرہ دراصل ضعیف ہی ہے اور اس میں حسن دیگر روایات کے اس کی تائید کرنے کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ضعف کسی راوی کے فسق یاکذب بیانی کی وجہ سے نہ ہو؛ کیونکہ تعددِطرق ان کے کذب وفسق کے احتمال کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ (حاشیہ اعلاء السنن:۱/۵۸) دوسرا قرینہ یہ ہے کہ وہ حدیث ضعیف کسی اصل شرعی ودلیلِ شرعی کے موافق ہو؛ خواہ کوئی نص قرآنی ہویاقولِ صحابی ہو یاشریعت کا کوئی قاعدہ وضابطہ ہو۔ (نزھۃ النظر:۲۹) اس کے علاوہ بھی کچھ قرائن ہیں جو کہ حدیث ضعیف کوتقویت پہنچاتے ہیں؛ اسی لیے حافظ ابنِ حجرؒ نے نخبہ میں ذکرفرمایا ہے کہ؛ اگرکوئی ایسا قرینہ مل جائے جوحدیث ضعیف کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کو راجح بتائے تواس کو "حسن لغیرہ" کہتے ہیں۔ (اعلاء السنن:۱/۶۲۔ اصول امام احمدبن حنبل:۲۶۹) ضعیف کی اقسام زمانہ قدیم میں حدیث کی دوہی قسمیں ہوا کرتی تھیں؛ لیکن سب سے پہلے جس نے احادیث کوتین قسموں میں منقسم کیا وہ حضرت امام ترمذیؒ کی شخصیت ہے، صحیح، حسن، ضعیف، ان ہی کی اس تقسیم کومدنظر رکھتے ہوئے احادیث ضعیف کی پھر چارقسمیں سامنے آتی ہیں: (۱)وہ ضعیف جس کا ضعف تعددِ طرق اور دیگرقرائن سے دور ہوجاتا ہو (۲)ضعیف متوسط الضعف (۳)ضعیف شدید الضعف (۴)موضوع۔ فقہاء کا اختلاف قسم اوّل سے توباتفاق احتجاج واستدلال جائز ہے اور قسم سوم وچہارم سے باتفاق استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ البتہ قسمِ دوم سے استدلال کی امام احمدؒ وامام اعظمؒ وغیرہ گنجائش دیتے ہیں؛ جب کہ بہت سے علماء اس سے منع کرتے ہیں۔ (المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۳۔ اصول امام احمدبن حنبل:۲۷۱) حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کے شرائط حافظ ابن حجرؒ نے حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں: (۱)اس حدیث کا ضعف ضعفِ شدید نہ ہو یعنی اس کا راوی کا ذب اور دروغ گوئی میں مشہور نہ ہو اور نہ فاحش غلطیوں کا مرتکب ہو (۲)حدیث جس مفہوم پر مشتمل ہو اس کی ایسی بنیاد موجود ہو جومعمول بہ ہو، یعنی اس پر عمل کرنا اپنے اندر غرابت کا کوئی پہلو نہ رکھتا ہو اور اسلام کے ثابت اور مقرر ومعروف قواعد کے خلاف نہ ہو (۳)دورانِ عمل اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے؛ بلکہ ازروئے احتیاط اس پر عمل ہو، یعنی اس طور پر نہ قبول کی جائے کہ واقعتاً یہ حدیث صحیح النسبت ہے؛ بلکہ اس بناء پر عمل کیا جائے کہ ممکن ہے کہ نفس الامر میں اس کی نسبت آپﷺکی طرف درست ہو۔ (اعلاء السنن:۱/۵۸) ضعیف اور مضعف میں فرق حدیثِ مضعف کا درجہ حدیثِ ضعیف سے اونچا ہوتا ہے کہ احکامات میں حدیثِ مضعف سے استدلال کیا جاتا ہے اور ضعیف سے فقط فضائل میں ہی استدلال کرنا درست ہے۔ دوسرا فرق:جو"علامہ قسطلانی رحمہ اللہ" نے بیان کیا ہے کہ مضعف وہ حدیث ہے جس کے متن میں یاسند میں ایسا وقتی ضعف آگیا ہو، جس کی تلافی دیگراسناد وروایات سے ہوسکتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ نے بھی ایسی احادیث کو بعض مرتبہ انپے صحیح میں جگہ دی ہے۔ (اعلام الموقعین:۱/۸۲) حدیثِ ضعیف اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت امام ابوحنیفہؒ وامام احمدؒ حدیث ضعیف کا درجہ حدیث صحیح سے کمتر قرار دیتے ہیں؛ البتہ وہ حدیثِ ضعیف کے بالمقابل فتاویٰ اور اقوالِ صحابہ کوترجیح دیتے ہیں۔ (المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۶۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۵۰) صحابہ کرامؓ سے جوفقہی فتاوے منقول ہیں، ان کی ایک بڑی تعداد ہے جومختلف واقعات وحوادثات سے متعلق ہیں، ان فتاویٰ واقوال میں رنگا رنگ کی غذاء فکری اور طرح طرح کے امراض اجتماعی کی چارہ گری موجود ہے۔ (اعلام الموقعین:۱/۸۴) اگران کے فتاویٰ اوراقوال کا تعارض حدیثِ ضعیف سے ہوجائے توفتاویٰ صحابی کو ترجیح حاصل ہوگی؛ کیونکہ صحابہ کرامؓ درس رسالت کے چراغ ہیں، ان کا ہرقول وعمل سنت کے مطابق ہوا کرتا تھا، ان کے کلام سے کلام رسالت کی بومہکتی ہے اور انھوں نے دین کوپہلو رسالت میں رہ کر جتنا سمجھا اور سیکھا ہے دوسرا ان کی خاک تک نہیں پہونچ سکتا، ان کے اقوال وافعال میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اورحدیث ضعیف کی صحت وعدمِ صحت مشتبہ ہے؛ لہٰذا صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ واقوال کو ضعیف حدیث پر ترجیح حاصل ہوگی۔ حدیثِ ضعیف اور قیاس کا تعارض جب کہیں حدیث ضعیف اور قیاس میں تضاد نظر آئے توفقہاء کرامؓ کے اس سلسلے میں دونقطہ نظر ہیں۔ حنفیہ وحنابلہ ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ ضعیف حدیث کی موجودگی میں قیاس کوئی معنی نہیں رکھتا؛ بلکہ قیاس کی طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، حدیث اگرچہ ضعیف ہے؛ لیکن بہرِحال موجود توہے اور اس میں صحت کا بھی پہلو ہے؛ اس لیے قیاس کے مقابلہ میں حدیثِ ضعیف ہی کو ترجیح دی جائے گی (الاحکام لابنِ حزم:۲/۵۴) چنانچہ امام احمد کا قول خود ان کے فرزندِارجمند حضرت عبداللہ نقل کرتے ہیں کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوگی۔ (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۲۔ المسودہ فی اصول الفقہ:۲۷۵) ایک مرتبہ عبداللہ نے اپنے والد امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ کسی جگہ ایک محدث ہیں جودرسِ حدیث دیا کرتے ہیں اور وہ حدیث کی صحت وضعف میں تمیز نہیں کرپاتے اور اسی جگہ ایک صاحب رائے شخص موجود ہو، جواپنی رائے اور قیاس سے مسائل کو حل کرتا ہو اور ایک ایسا شخص جوعلم سے ناواقف حلال وحرام میں تمیز خود سے نہ کرپاتا ہو تووہ مسئلہ کس سے دریافت کرے، محدث سے یاصاحبِ رائے سے؟ امام احمدؒ نے فرمایا محدث سے مسئلہ دریافت کرے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام احمدؒ کا مسلک یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیح دی جائے گی۔ (الاحکام لابنِ حزم:۲/۵۴) شوافع اور مالکیہ امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگرنصِ قرآنی اور حدیثِ صحیح نہ ہوتوپھر حدیثِ ضعیف کونظر انداز کرکے قیاس کرنا واجب ہوگا، ٹھیک اسی طرح مالکیہ میں سے قاضی ابوالفرج اور ابوبکر الابہریؒ کا بھی یہی کہنا ہے کہ حدیثِ ضعیف پر قیاس کوترجیح حاصل ہوگی۔ (بدایہ المجتھد:۱/۲۹) فقہ حنفی اور حدیثِ ضعیف احناف کا مذہب چونکہ حدیثِ ضعیف (بقول متقدمین جودرحقیقت حدیثِ حسن ہے) کوقیاس کے مقابلے میں ترجیح دینے کا ہے؛ اسی لیے فقہ حنفی میں بکثرت ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں قیاس کو نظر انداز کرکے حدیث ضعیف پر عمل کیا گیا ہے، مثلاً: ۱۔نمازی حالت صلوٰۃ میں قہقہہ لگادے توقیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا وضو نہ ٹوٹے؛ کیونکہ قہقہہ میں خروجِ نجاست کا تحقق نہیں ہوتا ہے؛ مگراس سلسلہ میں ایک ضعیف حدیث ہے جویہ بتلاتی ہے کہ ایسے شخص کا وضوٹوٹ جاتا ہے؛ لہٰذا قیاس کو ترک کرکے احناف نے یہاں ضعیف حدیث پر عمل کیا اور قہقہہ کوناقض وضو قرار دیا۔ (اعلام الموقعین:۱/۸۵) ۲۔دس درہم سے کم کے سرقہ میں بھی قطع ید کا حکم قیاس کے مطابق ہونا چاہیے؛ کیونکہ وہ بھی توشرعاً سرقہ ہے؛ لیکن ایک "ضعیف حدیث" ہے کہ دس درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ لگایا جائے؛ چنانچہ حنفیہ نے قیاس کے مقابلہ میں اسی ضعیف حدیث کوحجت مانا ہے۔ (اصول امام احمدبن حنبلؒ:۲۸۲) ضعیف حدیث اور عقائد جمہور فقہاء کا مذہب یہی ہے کہ عقائد کے ثبوت کے لیے مشہور یامتواتر حدیث ضروری ہے، حدیث ضعیف اور خبرِواحد اثبات عقائد کے لیے کافی نہیں ہے، امام احمدؒ نے اگرچہ خبرواحد سے عقائد کے باب میں استدلال کیا ہے لیکن وہ بھی حدیثِ ضعیف کے بارے میں اس بات کے قائل ہیں کہ حدیثِ ضعیف سے عقائد کے باب میں استدلال کرنا درست نہیں ہے؛ چنانچہ سیدشریف احمدجرجانیؒ فرماتے ہیں کہ "حدیثِ ضعیف" سے صفاتِ باری وعقائد میں استدلال کرنا جائز نہیں۔ (الرسالہ فی فن اصول الحدیث علی الترمذی:۲) ایک شبہ یہاں اس شبہ کا ازالہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سابق میں احناف وحنابلہ کا یہ مسلک بیان کیا گیا کہ وہ حدیث ضعیف کومعتبر مانتے ہیں اور فقہ حنفی سے کچھ ایسے مسائل بھی ذکر کئے گئے جن میں محض حدیث ضعیف کی بناء پرقیاس کوچھوڑدیا گیا ہے، بظاہر یہ دعویٰ سابقہ تصریحات کے خلاف ہے؛ لیکن یہ شبہ اس لیے نہیں کیا جاسکتاکیونکہ حدیث ضعیف کی اصطلاح درحقیقت دو ہیں، ایک متاخرین کی اصطلاح ہے، جس کی وضاحت اسی مقالہ کے ابتداء میں کی جاچکی ہے اور دوسری اصطلاح متقدمین کی ہے (اس کی وضاحت بھی ابتداء میں آچکی ہے) کہ وہ حضرات حسن لغیرہ کو بھی ضعیف کے ہی درجہ میں شمار کیا کرتے تھے؛ چنانچہ علامہ ابنِ قیم رقمطراز ہیں: "وليس المراد بالحديث الضعيف في اصطلاح السلف هوالضعف في اصطلاح المتأخرين؛ بل مايسميه المتأخرون حسنا قد يسميه المتقدمون ضعيفا"۔ (اعلام الموقعین:۱/۸۴) ترجمہ:سلف کی اصطلاح میں حدیثِ ضعیف سے مراد وہ حدیث نہیں ہے جسے متاخرین حدیث ضعیف کہتے ہیں؛ کیونکہ متقدمین کی اصطلاح میں اس حدیث کو بھی ضعیف کہہ دیا جاتا ہے جسے متاخرین نے حسن کا درجہ دیا ہے۔ اس لیے فضائل کے باب کے علاوہ جہاں کہیں احناف وحنابلہ حدیث ضعیف کو قابلِ حجت شمار کرتے ہیں اس سے مراد متقدمین کی اصطلاح ہیں اور اس سے "حدیث حسن" ہی مراد ہے، متاخرین کی اصطلاح کے مطابق حدیث ضعیف مراد نہیں ہے۔ ضعیف حدیث اور فضائل علامہ سخاویؒ نے اس تعلق سے کافی طویل بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں متعدد مذاہب کو نقل کیا ہے، جن میں سے ایک حافظ الحدیث امام مسلمؒ اور دیگرمحدثین اور ابنِ حزمؒ کا ہے کہ ضعیف حدیث کسی بھی باب میں حجت نہیں بن سکتی، چاہے وہ فضائل کا باب ہی کیوں نہ ہو؛ البتہ اگرمتقدمین کی اصطلاح کے مطابق ضعیف حدیث ہو کہ اس کے طرق متعدد ہوں جس کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا ہے تواس سے فضائل کے باب میں استدلال کرنا درست ہوگا ابنِ حزم کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث کے مقابلہ میں قیاس اولیٰ ہے؛ کیونکہ حدیثِ ضعیف آپؐ سے ثابت نہیں ہے، رائے میں اگرغلطی ہوگی توشرعاً وہ معاف ہے؛ بلکہ اس پر اجتہاد کا ثواب بھی ملے گا۔ (نووی علی مسلم:۱/۶۰) دوسرا مذہب جس کو علامہ سخاویؒ نے جمہور کا مذہب کہہ کر بیان کیاہے اور حافظ ابنِ حجر مکیؒ اور ملا علی قاریؒ نے بھی جسے جمہور کا اجماعی مسلک قرار دیا ہے کہ فضائل کے باب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے۔ (الفتاویٰ الحدیثیہ :۱۱۰) ائمہ حدیث میں عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، امام احمدوغیرہ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے (اصول امام احمد بن حنبل:۲۷۴) شیخ تقی الدین تحریر فرماتے ہیں کہ یہ گنجائش اس لیے ہے کہ اگرایسی حدیث نفس الامر اور واقع میں صحیح ہے تواس پر عمل کرنا اس کا حق تھا اور اگرواقع میں صحیح نہ تھی توبھی فضائل کے باب میں اس پر عمل کرنے کی وجہ سے دین میں کوئی فساد لازم نہیں آئےگا، اس لیے کہ یہ صورت تحلیل وتحریم اور کسی کے حق سے متعلق نہیں ہے اور پھریہ جواز مطلق نہیں ہے؛ بلکہ ماقبل میں ذکرکردہ شرائط کے ساتھ ہے۔ (شرح الکوکب المنیر:۲/۵۷۱) اس لیے فضائل کے باب میں حدیث ضعیف کا اعتبار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔