انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
تعزیتی جلسہ کا حکم کسی مسلم کے انتقال پرمیت کے متعلقین کی تعزیت کرنا یعنی تلقین صبر وغیرہ کرنا سنت سے ثابت ہے؛ اگروہاں خود جاکر تعزیت کا موقع نہ ہوتوخط کے ذریعہ سے بھی سلفِ صالحین سے تعزیت کرنا منقول ہے، جس کے انتقال سے بہت لوگوں کوصدمہ ہو، یابہت لوگ عزیت کی ضرورت محسوس کریں اور سب کا پہنچنا دشوار ہو تواس کے لئے سہل صورت یہ ہے کہ ایک جلسہ کرکے تعزیت کردیجائے اس میں بڑی جماعت سفر کی زحمت سے بچ جاتی ہے اور میت کے متعلقین پرکثیر مہمانوں کا بار بھی نہیں پڑتا اور مجمعِ عظیم کی متفقہ دُعاء بھی زیادہ مستحق قبول ہے، بظاہر اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں؛ لیکن بہت جگہ اس نے محض رسم کی صورت اختیار کرلی ہے کہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اخبار میں نام آجائے اور ہماری شہرت ہوجائے؛ اگرہم نے تعزیتی جلسہ نہ کیا تولوگ ملاملت کریں گے وغیرہ وغیرہ؛ اگرچہ یہ صورت ہوتو پھرا س کا ترک کرنا چاہئے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۹/۲۵۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)