انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سہیل بن عمرو کی سفارت قریش نے سہیل بن عمرو کو سفیر بنا کر بھیجا ، وہ نہایت فصیح و بلیغ مقرر تھے، چنانچہ لوگوں نے ان کو خطیب قریش کا خطاب دیا تھا، ان کے ساتھ خویطب بن عبدالعزیٰ اور مکر زبن حفص نے بھی مذاکرات میں حصہ لیا؛ لیکن صاحب معاملہ خطیب قریش سہیل بن عمرو ہی تھے، سہیل نے کہا کہ قریش نے ان سے کہہ دیاہے کہ صلح صرف اس شرط پر ہوسکتی ہے کہ محمد( ﷺ) اس سال واپس چلے جائیں، آپﷺ اسی مقام پر اپنے قربانی کے جانور نحرکریں، آئندہ سال اس عمرہ کی قضا کریں، آپﷺ کی خاطر مکہ تین دن تک خالی کر دیا جائے گا ،حضور اکرم ﷺ نے اس شرط کو منظور فرمالیا ، سہیل نے کہا : جو کوئی آپﷺ کے اصحاب میں ہمارے پاس آئے گا وہ واپس نہیں کیا جائے گا اور جو ہم میں سے آپﷺ کی طرف جائے گا اس کو ہماری طرف لوٹا دیا جائے گا، اس موقع پر حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ اس شرط کو قبول نہ کیا جائے ؛لیکن حضور ﷺنے فرمایا : عمر خاموش رہو، پھر مسکرا کر حضرت عمر ؓ سے ارشاد فرمایا ! جو کوئی ان میں سے نکل کر ہماری طرف آنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اس کا راستہ خود ہی پیدا کر دے گا اور جو ہم میں سے جانا چاہے گا وہ منافق ہوگا اور ہمیں اس سے نجات مل جائے گی ، آپسی بات چیت کے بعد معاہدہ کی شرائط پر اتفاق ہوا اور آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ معاہدہ لکھو: حضرت علیؓ نے عنوان پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ، عرب کا یہ قدیم طریقہ تھا کہ خطوط کی ابتداء میں با سمک اللھم لکھتے تھے، " بسم اللہ الرحمن الرحیم " سے وہ آشنا نہ تھے ، اس فقرہ میں شرک کا کوئی پہلو نہ تھا اس لئے حضور ﷺ نے اجازت دے دی ، آگے کا فقرہ تھا : یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ اور اہل مکہ کے درمیان ہوا ، حضرت علیؓ نے فوراً لکھ دیا ، اس پر سہیل نے کہا کہ اگر ہم آپ ﷺ کو پیغمبرمان لیتے تو جھگڑا ہی کس بات کا تھااس لئے آپ ﷺ صرف اپنا اور اپنے والد کا نام لکھوائیں،یہ سن کر حضرت علیؓ نے کہا یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا ، اس پر حضور اکرم ﷺ نے خود اپنے دستِ مبارک سے رسول اللہ مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھ دیا، یہ صحیح روایات سے ثابت ہے ، دوسری صحیح روایت یہ ہے کہ حضرت علی ؓ سے لکھوایا ،یہاں اس بات کی صراحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ پہلی صورت کے بارے میں علماءکا استدلال ہے کہ نزول وحی سے پہلے تک آپﷺ اُمی( لکھنے پڑھنے سے نا آشنا ) تھے، اُمیت آپ ﷺ کا معجزہ ہے، نزول وحی کے بعد آپﷺ مخزن علوم بن گئے ، عون بن عبداللہ سے روایت ہے کہ " آپﷺ دنیا سے اس وقت تک تشریف نہیں لے گئے تا وقتیکہ آپﷺ کو نوشت و خواند حاصل نہیں ہو گئی، قاضی عیاض اندلسی کا خیال ہے کہ حضور ﷺ نے بطور معجزہ خود ہی تحریر فرمایا ،