انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۲)حضرت اُبی بن کعبؓ (۱۹ھ) ابوالمنذر الانصاری حضرت ابوبکرالصدیقؓ سیدالمہاجرین ہیں توحضرت ابی بن کعب سیدالانصار تھے، آپ سے بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے روایات لی ہیں اور حضرت ابوایوب انصاری، عبداللہ بن عباس، سوید بن غفلہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین جیسے اکابر نے آپ سے کتاب وسنت کی تعلیم پائی، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: "حملوا عنہ الکتاب والسنۃ"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶) ترجمہ: آپ سے ان صحابہ نے کتاب وسنت کا علم حاصل کیا ہے۔ آپؓ کی شخصیت اتنی اُونچی تھی کہ حضرت عمرؓ بھی بعض دفعہ علمی مسائل میں آپ کی طرف رجوع فرماتے، آپؓ صحابہ میں سب سے زیادہ قرآن پڑھنے والے تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا: "أقْرَءھُمْ أبی بِنْ کَعَبْ"۔ (مشکوٰۃ:۵۵۰) ترجمہ:صحابہؓ میں سب سے زیادہ قرآن پڑھے ہوئے ابی بن کعبؓ ہیں۔ حضرت مسروقؓ تابعی (۶۲ھ) نے جن چھ بزرگوں کومرکزِفتوئے تسلیم کیا ہے اُن میں حضرت اُبی بن کعبؓ بھی ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰) حافظ ذہبیؒ آپ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: "اقرأ الصحابۃ وسید القراء شہدبدراً وجمع بین العلم والعمل"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۶) ترجمہ:صحابہؓ میں سب سے بڑےقاری، قاریوں کے سردار، جنگِ بدر میں شامل ہونے والے اور علم وعمل کے جامع تھے۔ آنحضرتﷺ نے رمضان شریف میں صرف تین راتیں تراویح کی نماز پڑھائی اور پھرتراویح کے لیئے مسجد میں تشریف نہ لائے کہ آپﷺ کی مواظبت سے یہ نماز امت پرواجب نہ ٹھہرے، حضورﷺ کی عدم موجودگی میں صحابہؓ مسجد میں تراویح کی نماز علیٰحدہ علیٰحدہ جماعتوں میں ادا کرتے رہے، ایک رات حضورﷺ اتفاقاً وہاں آنکلے تودیکھا کہ حضرت اُبی بن کعبؓ مسجد کی ایک طرف تراویح پڑھا رہے ہیں، آپﷺ نے پوچھا اور جواب ملنے پر اُن کے عمل کی تصویب فرمائی، ارشاد فرمایا: "أَصَابُوا وَنِعْمَ مَاصَنَعُوا"۔ (سنن ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ،حدیث نمبر:۱۱۶۹، شاملہ، موقع الإسلام) انہوں نے درست کیا اور اچھا ہے جوانہوں نے کیا۔ اِس سے پتہ چلا کہ تراویح کی نماز ان دنوں بھی جماعت سے جاری تھی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بات جب حضورﷺ کے علم میں آئی توآپﷺ نے اسے صحیح عمل قرار دیا، اس سے منع نہیں کیا، حضورﷺ کے مسجد میں تراویح نہ پڑھانے کونسخ تراویح نہ سمجھنا اور اُمت میں اس عمل کوپورا مہینہ باقی رکھنا یہ حضرت ابی بن کعبؓ کا ہی اجتہاد تھا، جس نے آنحضرتﷺ سے شرفِ تائید پایا اور امت میں یہ عمل آج تک جاری ہے، حضرت عمرؓ نے جن دوصحابہؓ کوتراویح پڑھانے پر مامور کیا تھا، وہ حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت تمیم داریؓ ہی تھے، خطیب تبریزیؒ لکھتے ہیں: "احدالفقہاء الذین کانوا یفتون علی عہد رسول اللہ"۔ (الاکمال:۵۹۰) ترجمہ:آپؓ ان فقہائے صحابہؓ میں سے تھے جوآنحضرتﷺ کے عہدِ مبارک میں بھی فتوےٰ دیتے تھے۔ حضورﷺ نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم پر قرآن پڑھوں، حضرت ابیؓ نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کرکہا ہے، حضورﷺ نے فرمایا: ہاں! حضرت ابیؓ پر رقت طاری ہوئی اور رونے لگے، جس دن آپؓ کی وفات ہوئی، حضرت عمرؓ نے فرمایا: "الیوم مات سیدالمسلمین"۔ (تذکرہ:۱/۱۲) ترجمہ: آج مسلمانوں کے سردار چل بسے۔