انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عبداللہ بن بدیل نام ونسب عبداللہ نام، باپ کا نام بدیل تھا، نسب نامہ یہ ہے،عبداللہ بن بدیل بن ورقاء ابن عبدالعزیٰ خزاعی،عبداللہ کے والد بدیل قبیلۂ خزاعہ کے سردار تھے۔ اسلام و غزوات فتح مکہ سے پہلے اپنے والد بدیل کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے، فتح مکہ حنین طائف اور تبوک وغیرہ غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے۔ (اسد الغابہ:۳/۲۴) عہدِ فاروقی عبداللہ نہایت حوصلہ مند بہادر تھے،حضرت عمرؓ کے عہد میں انہوں نے بڑے بڑے کارنامے کئے ۲۳ھ میں جب حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ قم وقاشان کی مہموں میں مصروف تھے تو حضرت عمرؓ نے عبداللہ کو ان کی مدد کے لیے روانہ کیا کہ وہ اصفہان کی مہم اپنے ہاتھ میں لے کر ابو موسیٰ اشعریؓ کا بار ہلکا کریں؛ چنانچہ اسی سنہ میں عبداللہ نے اصفہان کے علاقہ میں پیش قدمی کی اور "جی" نامی قریہ پر حملہ کرکے یہاں کے باشندوں کو مطیع بناکر ان سے جزیہ وصول کیا "جی" کے بعد اصفہان کا رخ کیا، یہاں کے حکمران فادوسفان نے شہر چھوڑ کر نکل جانا چاہا، مگر عبداللہ نے اس کا موقع نہ دیا اور آگے بڑھ کر اسے روک لیا، فادوسفان کے ساتھ تیس منتخب بہادر تھے اس نے عبداللہ سے کہا بے کار جانوں کو ضائع کرنے سے کیا فائدہ آؤ تنہا ہم تم نپٹ لیں، عبداللہ نے منظور کرلیا، دونوں کا مقابلہ ہوا، عبداللہ نے نہایت پھرتی سے وار کیا، فادوسفان نے خالی دیا، اوراس کے گھوڑے کی زین کو کاٹتا ہوا نکل گیا،فادو سفان نے ان کی شجاعت کا اعتراف کیا کہ تم ایسے عقلمند بہادر کو قتل کرنے کو دل نہیں چاہتا، میں اس شرط پر شہر حوالہ کرنے کو تیار ہوں کہ یہاں کے باشندوں کو اس امر کی آزادی دیجائے کہ ان میں جس کا دل چاہے وہ جزیہ دیکر رہے اورجس کا دل چاہے شہر چھوڑ کر چلا جائے،عبداللہ نے یہ درخواست منظور کرلی اورفادوسفان نے شہر حوالہ کردیا، اصفہان پر قبضہ کرنے کے بعداس کے قرب و جوار کے علاقوں کی طرف بڑھے اورچند دنوں میں پورا علاقہ بہ شمول کوہستان وزرعی اضلاع زیر نگیں کرلیا۔ (فتوح البلدان بلاذری:۳۲۰) عہد عثمانی ۲۸ھ میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کرمان کی مہم پر مامور کیا،عبداللہ نے طبس اورکرین دو قلعے فتح کئے،ان قلعوں کی تسخیر سے خراسان کا راستہ صاف ہوگیا (ایضاً) جسے بعد میں عبداللہ بن عامر نے فتح کیا۔ عہد مرتضوی حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ اورامیر معاویہ کے اختلاف میں عبداللہ معاویہ کے شدید مخالف اورحضرت علیؓ کے پر جوش حامیوں میں تھے،جب دونوں میں اختلاف شروع ہوا تو عبداللہ نے حضرت علیؓ کے حامیوں کے سامنے یہ تقریر کی: اما بعد لوگو:معاویہ نے ایک ایسا دعویٰ کیا ہے جس کے وہ ہرگز مستحق نہیں ہیں، وہ اس دعویٰ میں ایسے شخص سے جھگڑا کررہےہین جو یقیناً اس کا زیادہ مستحق ہے،امیر معاویہ اوراس شخص کا کوئی مقابلہ نہیں ،معاویہ باطل کو لیکر اٹھے ہیں تاکہ حق کو ڈگمگادیں ،لوگو! انہوں نے قبائل اور اعراب کو گمراہی میں مبتلا کردیا ہے اوران کے دلوں میں فتنہ و فساد کا بیچ بو کر ان سے حق و باطل کی تمیز اٹھا دی ہے، خدا کی قسم ! تم لوگ یقینا ً حق پر ہو، خدا کا نور اوربرہان تمہارے ساتھ ہے، سرکشوں اورظالموں کے مقابلہ کے لیے تیار ہوجاؤ اور ان سے جنگ کرو، خدا تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کا مزہ چکھائیگا۔ قاتلو الفۃ الباغیۃ الذین فازعوا الامراھلہ ترجمہ: لوگو باغی گروہ سے لڑو جنہوں نے ایک امر کے اہل ومستحق سے جھگڑا کیا ہے۔ تم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسے لوگوں سے جہاد کیا ہے، خدا کی قسم اس بارہ میں ان کی نیت پاک اور اچھی نہیں ہے، اس لیے اپنے اورخدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھو، خدا تم پر اپنی رحمت نازل فرمائےگا۔ (استیعاب:۱/۳۵۱) جنگ صفین کے درمیانی التوا کے بعد محرم الحرام کے اختتام کے بعد جب دوبارہ جنگ شروع ہوئی تو حضرت علیؓ نے عبداللہ کو پیدل فوج کا کماندار بنایا۔ شہادت جنگِ صفین کا سلسلہ مدتوں جاری رہا، پوری فوجیں میدان میں بہت کم اترتی تھیں عموماً چھوٹے چھوٹے دستے ایک دوسرے کے مقابلہ میں آتے تھے،ایک دن عبداللہ بن بدیل اپنا دستہ لے کر اترے،شامیوں کی طرف سے ابو اعور سلمی ان کے مقابلہ میں آیا، صبح سے شام تک نہایت پر زور مقابلہ ہوتا رہا، عبداللہ اس بہادری سے لڑتے تھے کہ جدھر رخ کردیتے تھے شامی کائی کی طرح چھٹ جاتے تھے،ایک حملہ میں زور میں بڑہتے ہوئے امیر معاویہ کے علم تک پہنچ گئے ،امیر نے حکم دیا کہ ان پر پتھر برساؤ، اس حکم پر چاروں طرف سے پتھر برسنے لگے اور علیؓ کا یہ جان نثار پتھروں کی بارش سے شہید ہوگیا۔ (اخبار الطوال:۱۸۸)