انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت علیؓ کی تاریخی تقریر اس کے بعد حضرت امیر معاویہؓ نے حبیب بن مسلمہ شرجیل بن السمط ،معن بن یزید کو حضرت علیؓ کی خدمت میں بطور سفیر روانہ کیا حبیب بن مسلمہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا کہ عثمانؓ خلیفہ برحق تھے اور کتاب وسنت کے موافق حکم دیتے تھے،ان کی زندگی تم کو ناگوار گزری اورتم نے اس کو قتل کرڈالا، اگر تم نے ان کو قتل نہیں کیا تو ان کے قاتلین کو ہمارے سپرد کردو،پھر خلافت سے دستبردار ہوجاؤ، اس کے بعد مسلمان جس کو چاہیں گے اپنا خلیفہ اور امیر مقرر کرلیں گے، یہ کلام سن کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو غصہ آیا اورانہوں نے فرمایا کہ تو خاموش ہوجا،امارت وخلافت کے متعلق ایسی تقریر کرنے کا تجھ کو کوئی حق نہیں ہے، حبیب بن مسلمہ نے کہا کہ تم مجھ کو ایسی حالت میں دیکھ لوگے جو تم کو ناگوار ہوگی،مدعایہ تھا کہ تلوار کے ذریعہ ہم فیصلہ کرلیں گے،حضرت علیؓ نے کہا کہ جا جو تیرا جی چاہے کر، یہ کہہ کر حضرت علیؓ کھڑے ہوگئے اورحمد وثنا کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کا ذکر کیا،پھر خلافت شیخین اوراُن کے خصائل پسندیدہ کا ذکر کرکے فرمایا کہ ہم نے ان دونوں کو اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرتے ہوئے پایا لہذا ہم نے باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ میں قریب تر تھے اُن کی خلافت میں کوئی دست اندازی نہیں کی، پھر لوگوں نے عثمانؓ کو خلیفہ بنایا،اُن کا طرزِ عمل ایسا تھا کہ لوگ اُن سے ناراض ہوگئے اورانہوں نے عثمانؓ کو قتل کر ڈالا،اس کےبعد لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کی درخواست کی،میں نے اس درخواست کو قبول کرلیا،بیعت کے بعد طلحہؓ وزبیرؓ نے عہد شکنی کی اور معاویہؓ نے میری مخالفت کی حالانکہ وہ میری طرح سابق بالاسلام نہیں مجھ کو تعجب ہے کہ تم لوگ کس طرح اُس کے مطیع ہوگئے؛حالانکہ میں کتاب وسنت اورارکانِ دین کی طرف بُلاتا،احیاء حق اورابطال باطل کی کوشش کرتا ہوں، شرجیل بن السمط نے یہ تقریر سُننے کے بعد حضرت علیؓ سے کہا کہ کیا ٓپ اس امر کی شہادت نہیں دیتے کہ عثمانؓ مظلوم ہوئے، حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ میں نہ عثمانؓ کو مظلوم کہتا ہوں،نہ ظالم،یہ سُن کر تینو ں شخص یہ کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوئے کہ جو شخص عثمانؓ کو مظلوم نہیں کہتا ہم اُس سے بیزار ہیں، اُن لوگوں کو نصیحت کرنا نہ کرنا مساوی ہے،اُن پر کوئی اثر نہ ہوگا، اس کے بعد پھر مصالحت کی کوئی کوشش جو قابلِ تذکرہ ہو عمل میں نہیں آئی۔