انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت ماعز ؓبن مالک نام ونسب ماعز نام، باپ کا نام مالک تھا، قبیلہ اسلم سے نسبی تعلق رکھتے تھے۔ اسلام ان کے اسلام کا زمانہ متعین طور سے نہیں بتایا جاسکتا ،غالباً اپنے قبیلہ کے ساتھ کسی وقت مشرف باسلام ہوئے ہوں گے۔ توبۃ النصوح کی اعلیٰ ترین مثال ماعز کی زندگی کا ایک واقعہ صحاح میں ملتا ہے،یہ واقعہ گو بظاہر نہایت مکروہ ہے،لیکن خطا کاروں کے لیے اس میں بڑا درس بصیرت اوربہترین اسوہ پنہاں ہے،اس سے بڑہ کر توبۃ النصوح کی مثال نہیں مل سکتی، اس لیے اس حیثیت سے اس کا لکھنا ضروری ہے،ممکن ہے اس اسوہ سے کسی خطا کار کو توبۃ النصوح کی توفیق ہو۔ ماعز گو صحابی تھے،لیکن پیغمبر کے علاوہ کوئی انسان معصوم اورنفسانی کمزوریوں سے مستثنیٰ نہیں؛چنانچہ ایک مرتبہ ماعز سے بھی زنا کی لغزش ہوگئی، اس وقت جذبات کے طوفان میں کچھ نہ دکھائی دیا،جب ہوش آیا تو اس لغزش کا احساس ہوا ،اسی وقت دوڑتے ہوئے بے تابانہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اورعرض کیا یا رسول اللہ! مجھے پاک کیجئے، آنحضرتﷺ سمجھ گئے ؛لیکن اس خیال سے کہ جب خدا نے پردہ ڈالا ہے تو اسے کیوں اٹھایا جائے، فرمایا جاؤ خدا سے مغفرت چاہو اوراس کے حضور میں توبہ کرو، یہ جواب سن کر ماعز لوٹ گئے،لیکن تھوڑی دور جاکر پھر لوٹ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ !مجھے پاک کیجئے،پھر آپ نے وہی جواب دیا،جاؤ خدا سے توبہ اوراستغفار کرو،پھر یہ لوٹ گئے،تھوڑی دور جاکر پھر واپس آئےاورکہا یا رسول اللہ ! مجھے پاک کیجئے، پھر وہی جواب ملا، ماعز پھر لوٹ گئے، لیکن دل کی خلش کسی طرح قرار نہیں لینے دیتی تھی،اس لیے چوتھی مرتبہ پھر آئے اس مرتبہ آنحضرتﷺ نے صاف صاف پوچھا کس چیز سے پاک کروں ،عرض کیا، زنا کی گندگی سے ،آنحضرتﷺ کو اس صریح اعتراف کا اس لیے پورا یقین نہیں آیا کہ کوئی عاقل انسان ایسے فعل کا بھی اقرار کرسکتا ہے، جس کا نتیجہ یقینی طور پر جان سے ہاتھ دھونا ہے، اس لیے آپ نے لوگوں سے پوچھا انہیں جنوں تو نہیں ہے، معلوم ہوا نہیں، اس قسم کی کوئی شکایت نہیں ہے ،پھر دریافت فرمایا شراب تو نہیں پی ہے، ایک شخص نے اٹھ کر منہ سونگھا،مگر شراب کا کوئی اثر نہ تھا، یہ شکوک دور کرنے کے بعد آپ نے پھر زیادہ وضاحت کے ساتھ دریافت فرمایا کیا تم نے واقعی زنا کیا ہے، ماعز نے اثبات میں جواب دیا، اس اعتراف کے بعد تاویل کی کوئی گنجایش باقی نہ تھی، اس لیے آپ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا،جس کی فورا ًتعمیل کی گئی، ایسے موقع پر عموماً جتنے منہ ہوتے ہیں،اتنی ہی باتیں ہوتی ہیں، کوئی کہتا ،ماعز تباہ ہوگئے ان کے گناہوں نے انہیں گھیر لیا، کوئی کہتا ماعز سے بڑھ کر کسی کی خالص توبہ نہیں،انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر کہا کہ مجھے سنگسار کیجئے،کئی دن تک اس قسم کی رائے زنیاں ہوتی رہیں،دو چار دن کے بعد آنحضرتﷺ صحابہ کے مجمع میں تشریف لائے اورسلام کرکے بیٹھ گئے اورفرمایا تم لوگ ماعز بن مالک کے لیے مغفرت کی دعا کرو، سب نے مل کر مغفرت کی دعا کی اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ماعز نے ایسی توبہ کی ہے تنہا یہی توبہ کافی ہے۔ (مسلم کتاب الحدود باب من اعتراف علی نفسہ ب) اس واقعہ سے سبق اس میں شبہ نہیں کہ ماعز کی یہ لغزش ان کے مرتبہ صحابیت سے بہت فرو تر تھی،لیکن اس کا یہ روشن پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس واقعہ میں ان کی فطری کمزوری سے زیادہ اہل نظر کو ان کے قلب کی صفائی اوران کی روح کی پاکیز گی نظر آتی ہے۔ ماعز سے زنا کی لغزش ہوتی ہے،جس کی سنگساری جیسی دردناک سزا ہے، ماعز کو اس کا یقین ہے، کہ اگر انہوں نے اس کا اعتراف کیا تو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیئے جائیں گے ،ان کے علاوہ کسی انسان کو اس لغزش کا علم نہیں،اگر وہ چاہتے تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پاتی،لیکن روح کی پاکیز گی معصیت کے اس دھبہ کو نہیں برداشت کرتی ہے اور ماعز آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر گناہ کا اقرار کرتے ہیں،آنحضرتﷺ اس خیال سے کہ جب خدانے ان کے گناہ پر پردہ ڈالا ہے، تو دنیا میں کیوں رسوا کیا جائے،چشم پوشی فرماتے ہیں اورایک مرتبہ نہیں ، تین تین بار ماعز کو واپس کرتے ہیں کہ جاؤ خدا سے مغفرت چاہو، اوراس کے سامنے توبہ کرو،لیکن ماعز کے دل کو تسکین نہیں ہوتی اوراس قانون کے مطابق۔ من اصاب من ذالک شیئا فعوقب فھو بحفارتہ (بخاری کتاب الحدود باب السارق اذا لم یسم) ترجمہ:جو شخص ان میں (شرک، چوری ،زنا) سے کسی شئے کا مرتکب ہو اوراس کو اس کی سزا ملے تویہ سزا اس کا کفارہ ہے طاہر بین دنیا میں اپنے کو رسوا کرا کے اپنے اوپر حد جاری کراتے ہیں اوردنیا سے پاک وصاف اٹھتے ہیں کہ عاقبت میں کوئی مواخذہ باقی نہ رہے، اس واقعہ میں ایسا نظر آتا ہے کہ اسلام نے اپنے پیرؤں میں ہر طرح کے اخلاقی نمونے پیدا کئے تھے،ان نمونوں میں ایک ایسی مثال کی بھی ضرورت تھی کہ اگر کوئی مسلمان انسانی کمزوری سے آلودۂ معصیت ہوجائے تو اس کا کفارہ کس طرح سے ادا کرنا چاہیے،اس نمونہ کے لیے ماعز کی ذات انتخاب ہوئی، جنہوں نے ایک لغزش کی سزا میں دنیا کی رسوائی اور انتہائی درد ناک سزا برداشت کرکے مسلمانوں کو سبق دیدیا کہ اس طرح دنیا میں گناہوں کا کفارہ ادا کیا جاتا ہے۔