انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت محمد بن جعفر غندرؒ نام ونسب محمد نام،ابو عبداللہ کنیت اورغندر لقب تھا (مراۃ الجنان:۱/۴۴۳)بعض اہلِ تذکرہ نے ان کی کنیت ابوبکر بتائی ہے (تہذیب التہذیب:۹/۹۸)ہذیل بن مدر کہ سے نسبت ولاءرکھنے کے باعث ہذلی اوروطن کی طرف منسوب ہوکر بصری کہلاتے ہیں لیکن غندر کے لقب سے زیادہ مشہور ہوئے،یہ لقب ان کو ابن جریج نے عطا کیا تھا؛کیونکہ ابنِ جعفر ان سے بہت شغف رکھتے تھے اور اہلِ حجاز ایسے اشخاص کو عام طور سے غندر کے نام سے پکارتے تھے،کتابوں میں اس لقب سے موسوم متعدد تذکرے ملتے ہیں جن میں محمد بن جعفر اپنے گونا گوں کمالات کی وجہ سے بہت ممتاز تھے۔ علوِّ مرتبت علم وفضل کے اعتبار سے شیخ غندر بلند مرتبہ اورجلیل القدر حفاظِ حدیث میں تھے،امام شعبہ کے دامنِ فیض سے کامل بیس سال تک وابستہ رہے تھے،اس طویل صحبت نے فضائل وکمالات میں اپنے استاد کا جانشین بنادیا اوراس بنا پر مرویاتِ شعبہ کے باب میں ان کا پایہ باتفاقِ علماء سب سے بلند ہے؛چنانچہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: احد ارباب المتفنین ولا سیما فی شعبۃ (میزان الاعتدال للذہبی:۳/۳۶) وہ ارباب اتقان میں سے تھے،بالخصوص امام شعبہ کے باب میں ان کا تثبت مسلم تھا۔ حدیثِ رسولﷺ حدیثِ رسول کی تحصیل انہوں نے امام شعبہ کے علاوہ سعید بن ابی عروبہ معمر بن راشد، ابن جریج،ہشام بن حسان، سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ وغیرہ سے کی تھی،خود ان سے مستفید ہونے والوں میں امام احمد بن حنبلؒ،اسحاق بن راہویہ،یحییٰ بن معین،علی بن المدینی،ابوبکر بن ابی شیبہ،قتیبہ، عثمان بن شیبہ اورابو بکر بن خلاد کے نام نمایاں ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۹/۹۲) روایات کا پایہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ شیخ غندر کی مرویات حجت اورقابلِ قبول ہیں،علامہ ابن کثیر رقمطراز ہیں۔ کان ثقۃ جلیلا حافظاً متقناً (البدایہ والنہایہ:۱۰/۲۲۴) وہ ثقہ،جلیل المرتبت،حافظ اورصاحبِ اتقان تھے۔ اتقان،ثبت اور ثقاہت ان کے نمایاں جوہر تھے،ایسے شیوخ حدیث کم ہی ہیں،جن کی مرویات پر کسی نے جرح کی جرأت نہ کی ہو،بلاشبہ ان ہی مثتثنیات میں امام غندر بھی ہیں، ابن معین کا بیان ہے کہ بعض معاصر علماء نے شیخ غندر کی مرویات میں خامی نکالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ناکام رہے اور برملا اعترافِ عجز کیا کہ: "ما وجدنا شیئاً" یعنی ہم کو کچھ نہیں ملا،امام الجرح والتعدیل عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے: غندر فی شعبۃ اثبت منی (ایضاً) غندر امام شعبہ کے باب میں مجھ سے زیادہ تثبت رکھتے تھے۔ صحتِ کتاب امام غندر ان علماء متقنین میں سے تھے،جن کی کتاب یعنی مجموعہ روایات اپنی صحت وثقاہت کی وجہ سے سند کا مقام رکھتی ہے؛چنانچہ ابن معین فرماتے ہیں "کان من اصح الناس کتاباً"(العبر فی خبر من غبر:۳۱۱)امام وکیع انہیں صحیح الکتاب کہا کرتے تھے،عبدالرحمن بن مہدی کا ارشاد ہے،ہم لوگ امام شعبہ کی زندگی ہی میں غندر کے خزینہ روایات سے استفادہ کرنے لگے تھے،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: اذا اختلف الناس فی حدیث شعبۃ فکتاب غند رحکم بینھما (میزان:۳/۳۶) جب لوگ امام شعبہ کی کسی روایت کے بارے میں مختلف الرائے ہوجاتے تو غندر کی کتاب کو حکم قرار دیا جاتا۔ عبادت دولتِ علم کے ساتھ زیورِ عمل سے بھی آراستہ تھے،پچاس سال تک مسلسل صومِ داؤدی پر عمل پیرا رہے،یعنی ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن افطار سے رہتے: مکث غندرخمسین سنۃ بصوم یوماً ویفطر یوماً (مراۃ الجنان:۱/۴۴۳) غندر پچاس سال تک ایک دن روزہ رکھتے رہے اورایک دن بے روزہ رہتے۔ وفات سنہ وفات میں بہت اختلاف ہے،لیکن صحیح ترین یہ ہے کہ ذی قعدہ ۱۹۳ھ میں بمقام بصرہ انتقال فرمایا،اس وقت ۷۰ سال کی عمر تھی۔ (البدایہ والنہایہ:۱۰/۲۲۴،وتہذیب التہذیب:۱/۹۸ والعبر:۱/۳۱۱)