انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
نماز میں ہاتھ باندھنے کے طریقہ کی دلیل کیا ہے؟ فقہاءِ حنفیہ نے لکھا ہے کہ ہاتھ اس طرح باندھا جائے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کے اوپری حصہ پرہو شہادت کی انگلی اور اس سے ملی ہوئی دوانگلیاں یعنی کل تین اُنگلیاں بائیں ہاتھ کے گٹوں پر ہوں اور انگوٹھا؛ نیز چھوٹی اُنگلی سے بائیں ہاتھ کے گٹہ پرحلقہ بنالیا جائے، حنفیہ کے یہاں چونکہ تمام حدیثوں پرعمل کرنے کا خصوصی اہتمام ہے؛ اسی لئے وہ کسی مسئلہ سے متعلق مختلف روایات کو جمع کرتے ہیں اور ایسی صورت اختیار کرتے ہیں جس میں سبھوں پرعمل ہوجائے؛ چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگوں کوحکم دیا جاتا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھیں اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دایاں ہاتھ کو بائیں ہتھیلی کی پشت گٹے اور کلائی پر رکھتے تھے اور ترمذی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے تھے، تو پہلی روایت سے ہتھیلی کی پشت پر ہاتھ کا رکھنا معلوم ہوا، دوسری روایت سے کلائی اور گٹے پر ہاتھ رکھنا اور تیسری روایت سے ہاتھ کا پکڑنا، احناف نے ان تینوں روایتوں پرعمل کرنے اور جمع کرنے کے لئے یہ کیفیت متعین فرمائی کہ داہنے ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے پشت پر، تین اُنگلیاں گٹے اور کلائی پر ہوں اور دو انگلیوں سے حلقہ بناکر بائیں ہاتھ کو پکڑا جائے؛ تاکہ کوئی روایت عمل سے محروم نہ رہ جائے، احادیث کی توضیح وتشریح اور اس پرعمل کرنے میں یہی احناف کا خاص طریقہ ہے، جس کے پیچھے تمام سنتوں کی اتباع کا جذبہ کارفرما ہے؛ مگر افسوس کہ جن حضرات کی نظر سطحی ہوتی ہے، وہ ایک حدیث پرعمل کرکے باقی ساری حدیثوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور اپنی لاعلمی کی وجہ سے اپنے آپ کو متبعِ سنت خیال کرتے ہیں اور جو لوگ تمام سنتوں کا احاطہ کرتے ہیں، ان کوتارکِ سنت کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ (کتاب الفتاویٰ:۲/۱۷۰،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)