انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اساتذہ حدیث کا ادب واحترام اساتذہ حدیث کا احترام بایں جہت کہ یہ نبی کریمﷺ کے علوم واقوال ہم تک پہنچا رہے ہیں اور یہی وارثین انبیاء ہیں، بہت ہونا چاہئے ان کی عزت وعظمت کا خوب خیال رکھے اور کوشش کرے کہ حدیث میں انہی لوگوں کواُستاذ بنائے جن کے دین پر اعتماد ہو، حضرت امام ابنِ سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم"۔ (مقدمہ مسلم:۱/۱۱) ترجمہ:بیشک یہ علم دین ہے سودیکھا کرو کہ کن لوگوں سے تم اپنا دین حاصل کرتے ہو۔ حضرت عقبہ بن نافع نے اپنے بیٹے کونصیحت فرمائی تھی "یابنی لاتقبلوا الحدیث عن رسول اللہﷺ الامن ثقۃ" (التمہید لابن عبدالبر:۱/۴۵) ترجمہ: اے میرے بیٹو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کسی معتمد آدمی سے ہی لیا کرو۔ اور حق یہ ہے کہ اس سے بڑی جہالت کی بات کیا ہوگی کہ انسان علم کے بغیر مسئلہ بتائے اور غیرمعتمد لوگوں سے حدیث لے لے، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرت قاسم بن محمد(۱۰۱ھ) جو اپنے دور کے سب سے بڑے عالم تھے بجا فرماتے ہیں "اقبح من الجمل ان اقول بغیرعلم اواحدث عن غیرثقۃ" (التمہید لابن عبدالبر:۴۶) ترجمہ: میں اونٹ سے بدتر ہوں گا؛ اگربغیرعلم کے کوئی بات کہوں یاغیرمعتمد سے حدیث بیان کروں۔ خلیفہ راشد سیدنا حضرت علی المرتضےٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: "اذاکتبتم الحدیث فاکتبوہ باسنادہ فان یک حقا کنتم شرکاء فی الاجر وان یک باطلا کان وزرہ علیہ" (الکفایہ فی علوم الروایہ:۱۲۳) ترجمہ:جب تم کوئی حدیث لکھو تواسے اس کی سند کے ساتھ لکھا کرو؛ اگروہ صحیح ہوگی توتم اس کے اجروثواب میں شریک ہوگئے اور اگرروایت غلط ہوگی تواس کاگناہ اس غلط راوی پر ہی ہوگا، حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں: "لاتاخذوا الحدیث عن رسول اللہﷺ الاعن ثقۃ" (الکفایہ فی علوم الروایہ:۳۲) ترجمہ:تم آنحضرتﷺ کی حدیث اس شخص سے لیا کرو جوثقہ (قابلِ اعتماد)ہو۔ صحابہؓ سے روایت کرنے والا راوی اگرکمزور بھی ہوتو اس سے اتنانقصان نہیں پہنچ سکتا جتنا کہ آنحضرتﷺ سے روایت کرنے والا کمزور راوی دین کے لیے وجہ خلفشار ہوسکتا ہے؛ سوحضورﷺ سے روایت کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔