انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سراقہ ؓبن مالک نام ونسب سراقہ نام، ابو سفیان کنیت،نسب نامہ یہ ہے،سراقہ بن مالک بن جعثم بن مالک بن عمرو بن تیم بن عدلج ابن مرہ بن عبد مناۃ بن علی بن کنانہ عدلجی کنانی قبل از اسلام ہجرت میں مدینہ سے نکلنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کا تعاقب انہیں نے کیا تھا، شبِ ہجرت میں جب آنحضرتﷺ مشرکین کو غافل پاکر مدینہ سے نکل گئے اورمشرکین کو اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی، تو انہوں نے اعلان کیا کہ جو شخص محمدﷺ اورابوبکرؓ کو قتل کردیگا یا انہیں زندہ پکڑ لائیگا اس کو گراں قدر انعام دیا جائے گا، سراقہ اپنے قبیلہ بنی عدلج کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آکر ان سے کہا کہ میں نے ابھی ساحل کی طرف کچھ سیاہی دیکھی ہے، میرا خیال ہے کہ وہ محمدﷺ اوران کے ساتھی تھے، سراقہ کو یقین ہوگیا، لیکن انعام کی مطع میں انہوں نے تردید کی کہ نہیں وہ لوگ نہیں ہیں، تم نے فلاں فلاں شخص کو دیکھا ہوگا، جو ابھی ہمارے سامنے گئے ہیں، تھوڑی دیر کے بعد سراقہ اٹھ کر گھر گئے اورلونڈی سے کہا کہ وہ گھوڑا تیار کرکے انہیں آکے ایک مقام پر دے اورنیزہ سنبھال کر چپکے سے گھر کی پشت سے نکلے، لونڈی سے گھوڑا لیا اور لوگوں کی نظر بچا کر نکل گئے اورگھوڑا دوڑاتے ہوئے آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گئے ،جیسے ہی قریب پہونچے گھوڑے نے ٹھوکرلی، اوریہ نیچے گر گئے اسے انہوں نے بدشگونی پر محمول کیا، استخارہ کے تیر ساتھ تھے، فوراً انہوں نے ترکش سے نکال کر استخارہ دیکھا کہ وہ رسول اللہ کو گزند پہنچاسکتے ہیں یا نہیں، استخارہ خلاف نکلا، لیکن انعام کی طمع میں انہوں نے استخارہ کی پرواہ نہ کی اورگھوڑے پر سوار ہوکر پھر آگے بڑھے، اب اتنے قریب پہنچ گئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی تلاوت کی آواز انہیں سنائی دینے لگی، رسول اللہ ﷺ ہمہ تن تلاوت میں مصروف تھے، لیکن حضرت ابوبکرؓ بار بار مڑ مڑ کے دیکھتے جاتے تھے،اتنے میں سراقہ کے گھوڑے کے اگلے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور وہ گر پڑے، پھر گھوڑے کو ڈانٹ کر اٹھایا،جب اس نے اپنے پاؤں زمین سے نکالے تو بڑا غبار بلند ہوا، اس دوسری بد شگونی پر انہوں نے پھر تیروں سے استخارہ کیا،اس مرتبہ بھی مخالف جواب ملا، اب انہیں اپنی ناکامی کا پورا یقین ہوگیا اوران کے دل میں بیٹھ گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ضرور کامیابی ہوگی؛چنانچہ انہوں نے آواز دیکر روکا،آپ رک گئے اورسراقہ نے پاس جاکر کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کی گرفتاری پر انعام مقرر کیا ہے اوران کے ارادوں سے آپ کو خبردار کیا اور جو کچھ زاد راہ ساتھ تھا اس کو آپ کے سامنے پیش کیا، آپ نے اسے قبول نہیں فرمایا، البتہ یہ خواہش کی کہ وہ کسی کو آپ کی اطلاع نہ دیں اس کے بعد سراقہ نے درخواست کی کہ انہیں ایک امان نامہ مرحمت فرمایا جائے،آپ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا،انہوں نے چمڑے کے ٹکڑے پر امان نامہ لکھ کر دیا اورسراقہ لوٹ گئے۔ (بخاری،جلداول،باب بنیان الکعبۃ باب ہجرۃ النبی ﷺ واصحابہ ابی المدینۃ ملخصا) انتظام اس واقعہ کے آٹھ سال بعد جب مکہ فتح ہوچکا اورمشرکین کی قوتیں ٹوٹ چکیں اور حنین وطائف کی لڑائیاں ختم ہولیں اس وقت سراقہ رسول اللہ ﷺ سے جب کہ آپ حنین اور طائف کے معرکوں سے واپس آرہے تھے راستہ میں مقام جعرانہ میں ملے اور رسول اللہ ﷺ کا عطا کیا ہوا امان نامہ پیش کرکے اپنا تعارف کرایا، کہ یہ تحریر آپ نے مجھے دی تھی اور میں سراقہ بن جعثم ہوں، آپ نے ارشاد فرمایا آج ایفائے عہد اورنیکی کا دن ہے،سراقہ اس وقت مشرف باسلام ہوگئے ،ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ میں اس شرف سے مشرف ہوئے ،لیکن پہلی روایت زیادہ مستند ہے۔ ذات نبوی سے استفادہ سراقہ بہت آخر میں اسلام لائے،اس لیے انہیں صحبت نبویﷺ سے استفادہ کا بہت کم موقع ملا، لیکن قبولِ اسلام کے بعد زیادہ تر مدینہ میں رہے، اس لیے تلافی مافات کا کچھ نہ کچھ موقع مل گیا تھااور اس موقع سے انہوں نے پورا فائدہ اُٹھایا،آنحضرتﷺ خود انہیں تعلیم و تربیت دیا کرتے تھے،ایک مرتبہ آپ نے فرمایا،سراقہ میں تمہیں جنتیوں اوردوزخیوں کی پہچان بتاؤں؟عرض کیا ہاں، ارشاد فرمایا تندخو اتراکرچلنے والا اورمتکبر دوزخی ہے اورزیردست ضعیف اورناتواں جنتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل:۴/۱۷۵) سراقہ خود بھی پوچھ پوچھ کر استفادہ کیا کرتے تھے،آخری سوال انہوں نے آنحضرتﷺ کے مرض الموت میں کیا، پوچھا یا رسول اللہ اگر کوئی بھٹکا ہوا اونٹ میرے اونٹ کے حوض پر آئے ،جسے میں نے خاص اپنے اونٹ کیلئے بھرا ہواورمیں اس میں بھٹکے ہوئے اونٹ کو پانی پلادوں تو کیا مجھ کو اس کا کوئی اجر ملے گا، فرمایا کیوں نہیں ہر جاندار کو پانی پلانے میں ثواب ہے۔ (ایضاً) حجۃ الوداع حجۃ الوداع میں آنحضرتﷺ کے ساتھ تھے؛چنانچہ جب آنحضرتﷺ مقام عسفان میں پہنچے،تو سراقہ نے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم کو اس نومولود قوم کی طرح تعلیم دیجئے جو گویا ابھی ظہور میں آئی ہے،ہمارا یہ عمرہ اسی سال کے لیے ہے، یا ہمیشہ کے لیے فرمایا نہیں ہمیشہ کے لیے ۔ (مسند احم دبن حنبل:۴/۱۷۵) ایک پیشین گوئی کی تصدیق آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا تھا کہ سراقہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے؛چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب مدائن فتح ہوا اورکسریٰ کا خزانہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور کسریٰ کے ملبوسات حضرت عمرؓ کے سامنے پیش ہوئے تو آپ نے سراقہ کو بلاکر کسری کا تاج ان کے سرپر رکھا اوراس کے کنگن پہنا کر اس کا پٹکا ان کی کمر میں باندھا۔ (اصابہ:۲/۶۹) وفات حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت میں ۲۴ھ میں وفات پائی۔ فضل وکمال گو سراقہ کو ذات نبویﷺ سے استفادہ کا بہت کم موقع ملا، تاہم ان سے انیس۱۹ حدیثیں مروی ہیں،جابر،ابن عمر ابن مصیب،مجاہد اورمحمد بن سراقہ نے ان سے روایت کی ہے۔ (تہذیب الکمال:۱۶۱) شاعر بھی تھے ؛چنانچہ آنحضرتﷺ کے تعاقب میں جو واقعات پیش آئے ان کی داستان ابو جہل کو نظم میں سنائی تھی