انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تبلیغ اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ توحید کا حکم پاتے ہی تبلیغ کا کام شروع کردیا،لوگوں کو شرک سے باز رکھنے اورتوحید الہی کی طرف بلانے کا کام اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر ہی سے شروع کیا، حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں،حضرت علیؓ بن ابو طالب اورحضرت زید بن حارث بھی پہلے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے،یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی تھے،حضرت ابوبکرؓ بن ابی قحافہ بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے،پہلے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے، ان سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی،ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام، ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خالص و مخلص دوست تھے،ظاہر ہے کہ یہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وخصائل سے بخوبی واقف تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی بھی پہلو اُن سے پوشیدہ ومحجوب نہیں، ان کا سب سے پہلے ایمان لانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وراست بازی کی ایک زبردست دلیل ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء اپنی تعلیم کی تبلیغ نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تک محدود رکھی ،تبلیغ اسلام کے اس اولین عہد میں سب سے زیادہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے خدمات نمایاں انجام دیں،حضرت ابوبکر صدیقؓ کا رسوخ اورحلقہ احباب قریش مکہ میں بہت وسیع تھا، اُن کے اثر اور ترغیب سے حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ،حضرت سعدؓ بن ابی وقاصؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ وغیرہ ایمان لائے، پھر حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ، حضرت ابو سلمہؓ، عبدالاسدؓ بن ہلال، حضرت عثمان بن مظعونؓ، حضرت قدامہ بن مظعون،حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت فاطمہ ہمشیرہ حضرت عمر بن الخطابؓ، زوجہ حضرت سعید وغیرہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ان حضرات کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بھائی حضرت عمیرؓ،حضرت عبداللہ بن مسعود،حضرت جعفر بن ابو طالبؓ وغیرہ ایمان لائے اورمسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہوگئی جس میں عورت مرد، جوان،بوڑھے اوربچے سب شامل تھے،مشرکین کے خوف سے مسلمان مکہ سے باہر پہاڑ کی گھاٹی میں جاکر نمازیں ادا کیا کرتے تھے، تین سال تک اسلام کی تبلیغ اسی طرح چپکے چپکے ہوتی رہی اورلوگ رفتہ رفتہ شرک اوربت پرستی سے بیزار ہو ہو کر اسلام میں داخل ہوتے رہے،اس تین سال کے عرصہ میں قریش کی ہر مجلس اورہر ایک صحبت میں اس نئے دین کا چرچا اور تذکرہ ہوتا تھا، مسلمان چونکہ خود اپنے اسلام کا اعلان نہیں کرتے تھے،لہذا بہت سے مسلمانوں کو آپس میں بھی ایک دوسرے کے مسلمان ہونے کا علم نہ ہوتا تھا، قریش ابتداء اس تحریک اسلام کو کچھ زیادہ اہم اورخطرناک نہیں سمجھتے تھے ،لہذ،تمسخر،استہزاء اور زبانی طور پر ایذاء رسانی کرتے تھے،بہ حیثیت مجموعی قوم کی قوم درپے استیصال نہیں ہوئی تھی ،قریش میں بعض بعض ایسے شرارت پیشہ لوگ تھے کہ وہ قابوپاکر مسلمانوں کو ایذائے جسمانی بھی پہنچاتے تھے،ایک مرتبہ حضرت سعد بن وقاصؓ معہ چند مسلمانوں کو سختی ودرشتی کے ساتھ اس عبادتِ الہیٰ سے روکا ،حضرت سعد بن وقاصؓ نے اُن کا مقابلہ کیا اورایک کا فر حضرت سعدؓ کی تلوار سے زخمی ہوا،یہ سب سے پہلی تلوار تھی جو خدا کی راہ میں چلی۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت علیؓ کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے،اتفاقاً ابو طالب اُس طرف آنکلے اورخاموش کھڑے ہوئے دیکھتے رہے،جب آپ نماز ختم کرچکے تو پوچھا کہ یہ کیا مذہب ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ دین ابراہیمی ہے ساتھ ہی ابو طالب سے کہا کہ آپ بھی اس دین کو قبول کرلیں،ابو طالب نے کہا کہ میں تو اپنے باپ دادا کا مذہب نہیں چھوڑوں گا، لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ بیٹا! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑنا مجھ کو یقین ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم کو نیکی کے سوا کسی برائی کی ترغیب ہرگز نہ دیں گے، غرض اسی طرح نزولِ وحی سے لے کر تین سال تک اسلام کی تبلیغ خاموشی کے ساتھ ہوتی رہی اورسعید روحیں کھنچ کھنچ کر اسلام کی طرف جذب ہوتی رہیں۔