انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اُمِ حبیبہ رضی اللہ عنہا نام ونسب رملہ نام، اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، رملہ بنت ابی سفیان صخربن حرب بن امیہ بن عبدشمس، والدہ کا نام صفیہ بنت ابوالعاص تھا، جوحضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حقیقی پھوپھی تھیں، حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ۱۷/سال پہلے پیدا ہوئیں۔ (اصابہ:۸/۸۴) نکاح عبیداللہ بن جحش سے جو حرب بن امیہ کے حلیف تھے، نکاح ہوا۔ (اصابہ:۸/۸۴) اسلام اور ان ہی کے ساتھ مسلمان ہوئیں اور حبشہ کوہجرت کی، حبش میں جاکر عبیداللہ نے عیسائی مذہب اختیار کیا، اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا سے بھی کہا؛ لیکن وہ اسلام پر قائم رہیں، اب وہ وقت آگیا کہ اُن کواسلام اور ہجرت کی فضیلت کے ساتھ اُم المؤمنین بننے کا شرف بھی حاصل ہو، عبیداللہ نے عیسائی ہوکر بالکل آزادانہ زندگی بسرکرنا شروع کی، مے نوشی کی عادت ہوگئی، آخر اُن کا انتقال ہوگیا۔ (زرقانی:۳/۲۷۶، بحوالہ:ابن سعد) نکاحِ ثانی عدت کے دن ختم ہوئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمروبن اُمیہ ضمری کونجاشی کی خدمت میں بغرض نکاح بھیجا، جب وہ نجاشی کے پاس پہنچے تواس نے اُم حبیبہ کواپنی لونڈی ابرہہ کے ذریعہ سے پیغام دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کوتمہارے نکاح کے لیے لکھا ہے؛ انہوں نے خالد بن سعید اموی کووکیل مقرر کیا اور اس مژدہ کے صلہ میں ابرہہ کوچاندی کے دوکنگن اور انگوٹھیاں دیں، جب شام ہوئی تونجاشی نے جعفر رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب اور وہاں کے مسلمانوں کوجمع کرکے خود نکاح پڑھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چارسو دینار مہر ادا کیا، نکاح کے بعد حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا جہاز میں بیٹھ کرروانہ ہوئیں اور مدینہ کے بندرگاہ میں اُتریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خیبر میں تشریف رکھتے تھے، یہ سنہ۷ھ یا سنہ ۶ھ کا واقعہ ہے۔ (مسند:۶/۴۲۷۔ تاریخ طبری واقعات سنہ۶ھ) اس وقت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہاکی عمر ۳۶،۳۷/سال کی تھی۔ حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے متعلق روایتیں ہیں، ہم نے جوروایت لی ہے وہ مسند کی ہے اور مشہور روایتوں کے مطابق ہے؛ البتہ مہر کی تعداد میں کچھ غلطی معلوم ہوتی ہے، عام روایت یہ ہے اور مسند میں بھی ہے کہ ازواجِ مطہرات اور صاحبزادیوں کا مہرچار چارسو درہم تھا، اس بناپر چارسودینار راوی کا سہو ہے، اس موقع پرہم کوصحیح مسلم کی ایک روایت کی تنقید کرنا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ لوگ ابوسفیان کونظراُٹھاکر دیکھنا اور ان کے پاس بیٹھنا ناپسند کرتے تھے، اس بناپر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ۳/چیزوں کی درخواست کی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہاسے شادی کرلیجئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرمائی (مسلم:۲/۳۶۱) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوسفیان کے مسلمان ہونے کے وقت حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا ازواجِ مطہرات میں داخل نہیں ہوئی تھیں؛ لیکن یہ راوی کا وہم ہے؛ چنانچہ ابن سعد، ابن حزم، ابن جوزی، ابن اثیر، بیہقی اور عبدالعظیم منذری رحمہم اللہ نےاس کے خلاف روایتیں کی ہیں اور ابن سعد کے سوا سب نے اس روایت کی تردید کی ہے۔ وفات حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں سنہ۴۴ھ میں انتقال کیا اور مدینہ میں دفن ہوئیں، اس وقت ۷۳/برس کا سن تھا، قبر کے متعلق اس قدر معلوم ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مکان میں تھی (حضرت علی بن حسین ) سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ میں نے مکان کا ایک گوشہ کھدوایا توایک کتبہ برآمد ہوا کہ یہ رملہ بنت صخر کی قبر ہے؛ چنانچہ اس کومیں نے اسی جگہ رکھ دیا۔ (استیعاب:۲/۷۵۰) وفات کے قریب حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کواپنے پاس بلایا اور کہا (کہ سوکنوں میں باہم جوکچھ ہوتا ہے وہ ہم لوگوں میں بھی کبھی ہوجایا کرتا تھا، اس لیے مجھ کومعاف کردو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے معاف کردیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی) توبولیں، تم نے مجھ کوخوش کیا، خدا تم کوخوش کرے۔ (اصابہ جلد:۸/۸۵، بحوالہ ابن سعد۔ ابن سعد جزء نساء:۷۱) اولاد پہلے شوہر سے دولڑکے پیدا ہوئے، عبداللہ اور حبیبہ، حبیبہ رضی اللہ عنہ نے آغوشِ نبوت میں تربیت پائی اور داؤد بن عروہ بن مسعود کومنسوب ہوئیں، جوقبیلہ ثقیف کے رئیس اعظم تھے۔ حلیہ خوبصورت تھیں، صحیح مسلم میں خود ابوسفیان کی زبانی منقول ہے: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ۔ (مسلم، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ،بَاب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حدیث نمبر:۴۵۵۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میرے ہاں عرب کی حسین تراور جمیل ترعورت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا بنت ابوسفیان موجود ہے۔ فضل وکمال حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا سے حدیث کی کتابوں میں ۶۵/روایتیں منقول ہیں، راویوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، بعض کے نام یہ ہیں، حبیبہ رضی اللہ عنہا (دختر) معاویہ رضی اللہ عنہ اور عتبہ رضی اللہ عنہ پسران ابوسفیان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عتبہ، ابوسفیان بن سعید ثقفی (خواہر زادہ) سالم بن سوار (مولیٰ) ابوالجراح، صفیہ بنت شیبہ، زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، ابوصالح السمان، شہرابن حوشب۔ اخلاق حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا کے جوش ایمان کا یہ منظر قابل دید ہے کہ فتح مکہ سے قبل جب ان کے باپ (ابوسفیان) کفر کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آئے اور ان کے گھر گئے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے پربیٹھنا چاہتے تھے، حضرت اُم حبیبیہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھ کربچھونا اُلٹ دیا، ابوسفیان سخت برہم ہوئے کہ بچھونا اس قدر عزیز ہے؟ بولیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرش ہے اور آپ مشرک ہیں اور اس بناپرناپاک ہیں، ابوسفیان نے کہا کہ تومیرے پیچھے بہت بگڑگئی۔ (اصابہ:۸/۸۵، بحوالہ ابن سعد) حدیث پربہت شدت سے عمل کرتی تھیں اور دوسروں کوبھی تاکید کرتی تھیں، ان کے بھانجے ابوسفیان بن سعید بن المغیرہ آئے اور انہوں نے ستوکھاکر کلی کی توبولیں تم کووضو کرنا چاہئے؛ کیونکہ جس چیز کوآگ پکائے اس کے استعمال سے وضو لازم آتا ہے (مسند:۲/۳۲۶) یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے (یہ حکم منسوخ ہے، یعنی پہلے تھا؛ پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوباقی نہیں رکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام آگ پرپکی ہوئی چیزیں کھاتے تھے اور اگر پہلےپہلے سے وضو ہوتا)تودوبارہ وضو نہیں کرتے تھے؛ بلکہ پہلے ہی وضو سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے اس قسم کی ایک حدیث حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حالات میں آئندہ ملے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا توخوشبو لگاکر رخساروں پرملی اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ کسی پرتین دن سے زیادہ غم نہ کیا جائے؛ البتہ شوہر کے لیے ۴/مہینہ دس دن سوگ کرنا چاہیے۔ (بخاری:۲/۸۰۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ سنا تھا کہ جوشخص بارہ رکعت روزانہ نفل پڑھے گا اس کے لیے جنت میں گھربنایا جائے گا، فرماتی ہیں: فَمَا بَرِحْتُ أُصَلِّيهِنَّ بَعْدُ۔ (مسنداحمد بن حنبل،كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا،بَاب فَضْلِ السُّنَنِ الرَّاتِبَةِ،حدیث نمبر:۲۶۸۱۸، شاملہ،الناشر:مؤسسة قرطبة، القاهرة) میں اُن کوہمیشہ پڑھتی ہوں، اس کا یہ اثر ہوا کہ ان کے شاگرد اور بھائی عتبہ اور عتبہ کے شاگرد عمروابن اویس اور عمر کے شاگرد نعمان بن سالم سب اپنے اپنے زمانہ میں برابر یہ نمازیں پڑھتے تھے۔ فطرۃ نیک مزاج تھیں، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میری بہن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کرلیجئے، فرمایا: کیا تمھیں یہ پسند ہے، بولیں ہاں! میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہا بیوی نہیں ہوں، اس لیے میں یہ پسند کرتی ہوں کہ آپ کے نکاح کی سعادت میں میرے ساتھ میری بہن بھی شریک ہو۔(اس حدیث کےآخر میں آپﷺ نے حضرت ام حبیبہ سے فرمایا کہ مجھ پر اپنی لڑکیاں اور بہنیں نہ پیش کرو) (بخاری، بَاب﴿ وَأُمَّهَاتُكُمْ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ﴾ وَيَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعَةِ مَايَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ:۲/۷۶۴)