انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کثرت روایت سے حتی الوسع احتراز حدیث بیان کرنے میں پوری احتیاط کرنی چاہیے، صحابہ کبرسنی (بڑھاپے) میں جب ذرا محسوس کرتے کہ اب روایت صحیح نہ ہوسکے گی توصاف کہدیتے کہ ہمیں اب حدیث پر ضبط نہیں رہا، حضرت زید بن ارقمؓ نے ایک موقع پر صاف فرمادیا تھا: "کبرنا ونسینا والحدیث عن رسول اللہﷺ شدید"۔ (مقدمہ مشکوٰۃ:۱۰۵) ترجمہ: اب ہم بوڑھے ہوگئے اور بھولنے لگے ہیں اور آنحضرتﷺ سے حدیث روایت کرنا توایک بڑا اہم معاملہ ہے۔ حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ، امام شافعیؒ سے نقل کرتے ہیں: "کان مالک اذاشک فی الحدیث طرحہ کلہ" (التمہید:۱/۶۳) امام مالک رحمۃ اللہ کو جب کسی حدیث کی روایت میں کوئی شک ہوجاتا تووہ اس پوری کی پوری روایت کو چھوڑ جاتے؛ اسی سے آپ محدثین کی احتیاط فی الحدیث کا اندزہ لگائیں، کثرت روایت سے احتراز اسی احتیاط کے لیے تھا۔ بعض محدثین اسی وجہ سے اکثارالحدیث (حدیث کثرت سے روایت کرنا) کے خلاف تھے کہ اس میں احتیاط نہیں رہ سکتی، امام بغویؒ (۵۱۶ھ) لکھتے ہیں: صحابہ اورتابعین میں سے کچھ حضرات حضوراکرمﷺ سے حدیث کثرت سے روایت کرنا مکروہ سمجھتے تھے، یہ اس اندیشے سے تھا کہ آپ سے روایت کرنے میں زیادتی کمی اور کہیں غلطی نہ ہوجائے.... یہاں تک کہ بعض ایسے تابعین بھی تھے جوحدیث کومرفوع (آنحضرتﷺ تک پہنچی ہوئی) بیان کرنے سے ڈرتے تھے اور اسے صحابی پر ہی (جواسے روایت کررہا ہو) موقوف کردیتے تھے (گویا کہ یہ صحابی کا ہی ارشاد ہے) اور سمجھتے تھے کہ کوئی بات صحابی کے بارے میں غلط ہوجائے یہ اس سے آسان ہے کہ حضورﷺ کے نام سے کوئی بات زبان سے غلط نکل جائےاور ان میں ایسے بھی تھے جوحدیث کوآنحضرتﷺ تک پہنچاتے؛ لیکن جب حضورﷺ تک پہنچتے توصرف "قال" (انہوں نے کہا) کہہ کربیان کردیتے "قال رسول اللہ" نہ کہتے اور یہ سب کچھ حضورﷺ سے حدیث بیان کرنے میں آپ کی ہیبت اور جلال سے ہوتا اور اس وعید سے (جس میں آپ نے فرمایا کہ جوشخص میرے نام سے کوئی ایسی بات کہے جومیں نے نہ کہی ہو تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے) سے ڈرنے کی وجہ سے ہوتا تھا۔