انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فقہ حنفی کا محدثین کے درمیان رواج اللہ تعالیٰ نے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کوجن امتیازی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان کی وجہ سے وہ اپنے معاصرین کے مرکزِتوجہ بن گئے تھے، آپ عقل وخرد اور فہم وفراست میں وحیدِعصر تھے، تفقہ وتدبر میں لاثانی تھے، آپؒ نے خدا کی دی ہوئی بصیرت کے ذریعہ قرآن وحدیث کے بحرِبیکراں میں غوطہ زنی کرکے فقہ اور اسلامی قانون کے انمول موتیوں اور جواہر سے امتِ مرحومہ کوآشنا کیا، آپ کے اس امتیازی وصف کودیکھ کرحقیقت شناس مجتہد حضرت امام شافعیؒ نے علی الاعلان فرمایا: "الْفِقْهَ فَهُوَعِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ"۱؎۔ جوفقیہ بننا چاہے، وہ امام ابوحنیفہؒ کی خوشہ چینی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے کوفقہ حنفی کا محتاج پاتے تھے اور بالالتزام فقہ حنفی کا مطالعہ کرتے تھے؛ بلکہ اگریہ کہا جائے کہ ہرمکتبِ فکرکے لوگوں نے فقہ حنفی کے اصول وضوابط اور ان کے بیان کردہ مسائل سے استفادہ کیا ہے توبے جانہ ہوگا؛ ابتداء سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، اس مختصرسے مقالہ میں ان کا تفصیلی جائزہ لینا بڑا مشکل ہے، سرِدست ان محدثین کا تذکرہ کرونگا؛ جن کے پاس حدیث کا ذخیرہ ہونے کے باوجود انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی فقہ کواختیار کیا، اس پر عمل کیا اور اس کے مطابق فتوے صادر کیئے۔ (۱)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۹۱۔ مقام ابی حنیفہؒ:۷۱۔ یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ علیہ آپ اونچے درجے کے محدث ہیں، اسماء رجال کے ماہرین میں آپ کا شمار ہوتا ہے، علامہ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال کے دیباچہ میں لکھا ہے: "فن رجال کے بانیوں میں یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ علیہ ہیں" حدیث میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ جب آپ مسندِدرس پرجلوہ افروز ہوتے، امام احمد بن حنبلؒ اور علی بن المدینیؒ وغیرہ مؤدب کھڑے رہتے تھے، راویوں کی تحقیق وتنقید میں ایسا کمال تھا کہ ائمہ حدیث عموماً کہا کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید القطان جس راوی کی روایت قبول نہیں کریں گے، ہم بھی اسے قبول نہیں کریں گے۲؎۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے: "مَارَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ"۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یحییٰ بن سعید القطان جیسا کسی کونہیں دیکھا۔ اس فضل وکمال، قابلیت ومقبولیت کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ کے حلقۂ درس میں اکثر شریک ہوتے اور ان کی شاگردی پر فخر کرتے، اس زمانے میں چونکہ خیرکاغلبہ تھا، اس لیے تقلید معین کا رواج نہیں ہوا تھا، تاہم اکثرمسائل میں وہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرتے تھے، خود ان کا قول ہے: "وَقَدْ أَخَذنَا بِأَكْثَرِ أَقْوَالِه"۳؎۔ یعنی ہم نے امام ابوحنیفہؒ کے اکثر اقوال کواختیار کیا ہے۔ علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں: "وَكَانَ يَحْيٰى الْقَطَّان يُفْتَي بِقَوْلِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ"۴؎۔ یحییٰ بن سعید القطان امام صاحبؒ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے۔ (۲)تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۸۔ (۳)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۹۰۔ سیرت ائمہ اربعہ:۴۰۲۔ (۴)حاشیہ مقدمہ اعلاء السنن:۱۹۰۔ تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۸۔ عبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے بڑے محدث تھے، امام نوویؒ نے "تہذیب الاسماء واللغات" میں ان کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے: "وہ امام جس کی امامت وجلالت پرہرباب میں عموماً اجماع ہے، جس کے ذکر سے خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے، جس کی محبت سے مغفرت کی امید کی جاسکتی ہے"۔ حدیث میں جوان کا پایہ تھا، اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ محدثین ان کوامیرالمؤمنین فی الحدیث کے لقب سے پکارتے تھے، ایک موقع پر ان کے شاگردوں میں سے ایک شخص نے ان سے خطاب کیا کہ "یاعالم المشرق" امام سفیان ثوریؒ جومشہور محدث ہیں اس موقع پرموجود تھے، بولے کہ "کیاغضب ہے" عالم مشرق کہتے ہو وہ "عالم المشرق والمغرب" ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے کہ عبداللہ بن مبارکؒ کے زمانہ میں ان سے بڑھ کر کسی نے حدیث کی تحصیل میں کوشش نہیں کی، خود عبداللہ بن مبارکؒ کا بیان ہے: "میں نے چارہزار شیوخ سے احادیث حاصل کی ہیں" صحیح بخاری ومسلم میں بھی ان کی سینکڑوں حدیثیں ہیں، یہ امام ابوحنیفہؒ کے مشہور شاگرد ہیں اور امام صاحبؒ سے ان کوخاص تعلق تھا، ان کواعتراف تھا کہ جوکچھ مجھ کوحاصل ہوا ہے، اس میں امام ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ کے فیض کا خاص دخل ہے، ان کا مشہور قول ہے: "لَوْلاَأَنَّ اللهَ تَعَالَیٰ أَعَانَنِي بِأَبِي حَنِيْفَةَ وَسُفْيَانَ، كُنْتُ كَسَائِرِ النَّاسِ"۵؎۔ اگراللہ تعالیٰ ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ کے ذریعہ میری دستگیری نہ کرتا تومیں ایک عام آدمی ہوتا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں انھوں نے بکثرت اشعار کہا ہے، جسے خطیب بغدادیؒ نے اپنی تاریخ میں بھی ذکر کیا ہے۔ عبداللہ بن مبارکؒ کوامام صاحبؒ سے والہانہ تعلق تھا، اس کا اندازہ آپ کودرجِ ذیل واقعہ سے بھی ہوگا، وہ خود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بیروت کا سفر کیا کہ وہاں کے مشہور محدث حضرت امام اوزاعیؒ سے فن حدیث کی تکمیل کریں، پہلی ہی ملاقات میں امام اوزاعیؒ نے مجھ سے پوچھا کہ کوفہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کون شخص پیدا ہوا ہے جودین میں نئی باتیں نکالتا ہے؟ انھوں نے کچھ جواب نہیں دیا اور اپنے قیامگاہ پر چلے آئے، دوتین دن کے بعد گئے توکچھ اجزاء ساتھ لے گئے، امام اوزاعیؒ نے ان کے ہاتھ سے وہ اجزاء لیے توان کے سرنامہ پر لکھا تھا "قَالَ نُعْمَانَ بْنُ ثَابِتْ" دیرتک ان اجزاء کوغور سے دیکھا؛ پھرعبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا نعمان کون بزرگ ہیں؟ انھوں نے کہا کہ عراق کے ایک شخص ہیں، جن کی صحبت میں میں رہا ہوں، فرمایا:بڑے پایہ کا شخص ہے، عبداللہ بن مبارکؒ نے عرض کیا کہ یہ وہی ابوحنیفہؒ ہیں جن کو آپ مبتدع بتاتے تھے۶؎۔ (۵)مقدمہ اعلاءالسنن:۳/۱۰۔ سیر ائمہ اربعہ:۲۰۶۔ (۶)مسندامام اعظمؒ:۲۳۔ تذکرۃ النعمان بستوی:۱۴۹۔ یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ رحمۃ اللہ علیہ مشہور محدث تھے، علامہ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں صرف ان لوگوں کاتذکرہ کیا ہے، جوحافظ الحدیث کہلاتے تھے؛ چنانچہ یحییٰ کا تذکرہ بھی انھوں نے اس میں کیا ہے اور ان کے طبقہ میں سب سے پہلے انہی کا نام لکھا ہے، علی بن المدینیؒ جوامام بخاریؒ کے مشہور استاذ ہیں، کہا کرتے تھے: "یحییٰ کے زمانہ میں یحییٰ پرعلم کا خاتمہ ہوگیا" صحاحِ ستہ میں ان کی روایت سے بہت سی حدیثیں ہیں، وہ محدث اور فقیہ دونوں تھے اور ان دونوں فنون میں انھیں بڑا کمال حاصل تھا؛ چنانچہ علامہ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں ان کے حالات کا بیان ان لفظوں سے شروع کیا ہے: "أَحَدَ الْفُقَهَاءُ الْكِبَارَ، وَالْمُحَدِّثِيْنَ الْأَثْبَاتَ"۷؎۔ یہ امام ابوحنیفہؒ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور مدت تک ان کے ساتھ رہے؛ یہاں تک کہ علامہ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں ان کوصاحب ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا لقب دیا ہے، یہ تدوین فقہ میں امام صاحبؒ کے شریک تھے؛ حتی کہ امام طحاویؒ نے لکھا ہے کہ وہ تیس برس تک شریک رہے؛ اگرچہ یہ مدت صحیح نہیں ہے؛ لیکن اس میں کچھ شبہ بھی نہیں کہ بہت دنوں تک امام صاحبؒ کے ساتھ تدوین کاکام کرتے رہے اور خاص کرتصنیف وتحریر کی خدمت انہیں سے متعلق تھی۸؎۔ (۷)سیرائمہ اربعہ:۴۰۷۔ (۸)تذکرۃ النعمان بستوی:۱۶۳ وکیع بن الجراح رحمۃ اللہ علیہ حدیث کے بڑے عالم تھے، فن حدیث کے ارکان میں شمار کئے جاتے ہیں، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کوان کی شاگردی پرفخر تھا؛ چنانچہ جب وہ ان کے واسطے سے کوئی حدیث بیان کرتے توان لفظوں سے شروع کرتے: "یہ حدیث مجھ سے اس شخص نے روایت کی کہ تیری آنکھوں نے ان کا مثل نہ دیکھا ہوگا"۔ یحییٰ بن معین جوفنِ رجال کے ایک رکن خیال کیئے جاتے ہیں ان کا قول تھا کہ میں نے کسی ایسے شخص کونہیں دیکھا جس کووکیع پر ترجیح دوں۹؎۔ اکثرائمہ حدیث نے ان کی شان میں اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں، بخاری ومسلم میں بھی ان کے واسطے سے بہت سی حدیثیں مذکور ہیں، آپ بھی اکثرمسائل میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرتے تھے اور انہی کے قول کے موافق فتویٰ دیتے تھے، خطیب بغدادیؒ نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے: "كَانَ يُفْتِي بِقَوْلِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ"۱۰؎۔ علامہ ذہبیؒ نے بھی "تذکرۃ الحفاظ" میں خطیب کے اس قول کونقل کیا ہے۔ (۹)سیرۃ النعمان:۱۸۷۔ (۱۰)تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۶۔ ائمہ اربعہ:۲۰۷۔ داؤد الطائی رحمۃ اللہ علیہ خدا نے آپ کوعجیب حسن قبول دیا تھا، صوفیہ ان کوبڑا مرشد کامل مانتے ہیں "تذکرۃ الاولیاء" میں ان کے مقاماتِ عالیہ مذکور ہیں، فقہاء اور خصوصاً فقہاء حنفیہ ان کے تفقہ اور اجتہاد کے قائل ہیں، محدثین کا قول ہے: "ثِقَۃٌ بِلَانِزَاع"۱۱؎۔ محدثین کا اتفاق ہے کہ آپ ثقہ ہیں۔ محارب بن دثار جومشہور محدث ہیں، وہ کہا کرتے تھے کہ داؤد اگراگلے زمانہ میں ہوتے توخدا قرآن مجید میں ان کے واقعات کوبھی بیان کرتا، ابتداء میں حدیث وفقہ کی تحصیل کی؛ پھرعلمِ کلام میں کمال پیدا کیا اور بحث ومناظرہ میں مشغول ہوئے، ایک دن کسی موقع پرایک شخص سے گفتگو کرتے ہوئے اس پرکنکری پھینک ماری، اس نے کہا: "داؤد تمہاری زبان اور ہاتھ دونوں دراز ہوچلے"۔ ان پر عجیب اثر ہوا، بحث ومناظرہ بالکل چھوڑ دیا، تاہم تحصیلِ علم کا مشغلہ جاری رہا؛ پھرکچھ دنوں بعد آپ نے اپنی کل کتابیں دریا میں ڈبودیں اور تمام چیزوں سے قطع تعلق کرکے اللہ کی یاد میں لگ گئے، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں داؤد سے اکثر مسئلے پوچھنے جانا؛ اگرکوئی ضروری اور عملی مسئلہ ہوتا توبتادیتے؛ ورنہ کہتے کہ بھائی مجھے اور ضروری کام ہیں، یہ امام صاحبؒ کے مشہور شاگرد ہیں، خطیب بغدادیؒ، ابنِ خلکانؒ، علامہ ذہبی اور دیگر مؤرخین نے جہاں ان کے حالات لکھے ہیں، ان سبھوں نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردی کا ذکرخصوصیت کے ساتھ کیا ہے، تدوینِ فقہ میں بھی امام صاحبؒ کے شریک اور اس مجلس کے معزم ممبر تھے۱۲؎۔ (۱۱)تذکرۃ النعمان:۱۷۱۔ (۱۲)سیر ائمہ اربعہ:۲۰۸۔ یزید بن ہارون رحمۃ اللہ علیہ فن حدیث کے مشہور امام ہیں، بڑے بڑے ائمہ حدیث ان کے شاگرد تھے، امام احمد بن حنبلؒ، علی بن المدینیؒ، یحییٰ بن معینؒ، ابنِ ابی شیبہؒ وغیرہ نے ان کے سامنے زانوے شاگردی طے کیا ہے، علامہ نوویؒ نے ان کے تلامذہ کی نسبت لکھا ہے کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا،یحییٰ بن ابی طالب کا بیان ہے کہ ایک بار میں ان کے حلقہ درس میں شریک تھا، لوگ تخمینہ کررہے تھے کہ حاضرین کی تعداد کم وبیش سترہزار ہے، کثرتِ حدیث میں لوگ ان کی مثال دیتے تھے، خود ان کا بیان ہے کہ مجھ کوبیس ہزار حدیثیں یاد ہیں۱۳؎۔ (۱۳)سیرۃ النعمان:۱۸۶۔ علی بن المدینی رحمۃ اللہ علیہ علی المدینیؒ امام بخاریؒ کے استاذ ہیں، امام بخاریؒ ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ میں نے ان سے زیادہ کسی کوحافظِ حدیث نہیں دیکھا، حدیث میں علی ابن المدینیؒ کوامام ابوحنیفہؒ سے بھی تلمذ حاصل تھا، علامہ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں جہاں ان لوگوں کے نام لکھے ہیں جنھوں نے امام صاحبؒ سے حدیثیں روایت کی ہیں، ان کا نام بھی لکھا ہے، آپ ایک مدت تک امام صاحبؒ کی صحبت میں رہے؛ اسی وجہ سے ان کوامام صاحبؒ کے اصول وضوابط پررائے قائم کرنے کا کافی موقع ملا، ان کا قول ہے کہ میں نے بہت سے لوگوں کی صحبت اُٹھائی؛ لیکن امام ابوحنیفہؒ سے بڑھ کرکسی کونہیں پایا۱۴؎۔ (۱۴)سیرۃ النعمان:۱۸۶۔ حفص بن غیاث رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے محدث تھے، خطیب بغدادیؒ نے ان کوکثیر الحدیث لکھا ہے اور علامہ ذہبیؒ نے ان کوحفاظِ حدیث میں شمار کیا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ علی بن المدینیؒ وغیرہ نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں، آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ جوکچھ روایت کرتے زبانی بیان کرتے تھے، کاغذ کتاب پاس نہیں رکھتے تھے، اس طرح بیان کی ہوئی حدیثیں ایک محتاط اندازے کے مطابق چار ہزار ہیں، آپ امام صاحبؒ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں، امام صاحبؒ کے شاگردوں میں چند بزرگ نہایت قریبی تعلق رکھا کرتے تھے، جن کی نسبت امام صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ تم میرے دل کی تسکین اور میرے غم کومٹانے والے ہو، حضرت حفص رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت بھی امام صاحبؒ کے یہی الفاظ تھے۱۵؎۔ (۱۵)سیرۃ النعمان:۱۸۷۔ عبدالرزاق بن ہمام رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبیؒ نے ان کا ترجمہ ان لفظوں سے شروع کیا ہے: "أَحَدُ الْأَعْلَامِ الثِّقَاتِ"۔ بہت بڑے نامور محدث تھے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیرہ ان کی روایتوں سے مالا مال ہیں، امام احمد بن حنبلؒ سے کسی نے پوچھا کہ حدیث کی روایت میں آپ نے عبدالرزاق سے بڑھ کر کسی کودیکھا ہے؟ جواب دیا کہ نہیں، بڑے بڑے ائمہ حدیث مثلاً امام سفیان بن عیینہؒ، یحییٰ بن معینؒ، علی بن المدینیؒ، امام احمد بن حنبلؒ فن حدیث میں ان کے شاگرد تھے، طالبانِ حدیث بہت دور سے سفر کرکے ان کی خدمت میں آتے اور حدیث سناکرتے تھے، یہاں تک کہ بعضوں کا قول ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد کسی شخص کے پاس اس قدر دوردراز مسافتیں طے کرکے لوگ نہیں گئے، حدیث میں ان کی ایک ضخیم تصنیف موجود ہے جو"جامع عبدالرزاق" کے نام سے مشہور ہے، امام بخاریؒ نے اعتراف کیا ہے کہ میں اس کتاب سے مستفید ہوا ہوں، علامہ ذہبیؒ نے اس کتاب کی نسبت میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ وہ علم کا خزانہ ہے، ان کوابوحنیفہؒ سے فن حدیث میں تلمذ تھا، عقود الجمان کے مختلف مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب کی صحبت میں زیادہ رہے، ان کا قول تھا کہ میں نے امام ابوحنیفہؒ سے بڑھ کر کسی کوحلیم نہیں دیکھا۱۶؎۔ (۱۶)سیرۃ النعمان:۱۸۸۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؒ طرزِ حنفی وطریقہ حنفی پرگامزن ہی نہیں بلکہ رازدان بھی تھے۔ مسعربن کدام رحمۃ اللہ علیہ آپ کوفہ کے باشندہ اور اونچے درجے کے محدث تھے، علامہ ذہبیؒ نے آپ کا تذکرہ "الامام احدالاعلام" کے ساتھ کیا ہے۱۷؎۔ آپ کی وفات ۵۳/ یا ۵۵/ سال میں ہوئی، آپ بھی فقہ حنفی پر فتویٰ دیتے تھے، قاضی ابوالقاسم بن کاؤس نے جعفر بن عون سے روایت کی ہے کہ مسعر بن کدامؒ سےعرض کیا گیا کہ آپ نے اپنے اصحاب کی رائے چھوڑ کر ابوحنیفہؒ کی رائے کیوں اختیار کی؟ توانھوں نے فرمایا ان کی رائے کی صحت وصواب کی وجہ سے، آپ حضرات امام ابوحنیفہؒ کی رائے سے بہتر رائے پیش کریں میں اس کواپنالوں گا۱۸؎۔ کتب تاریخ کی ورق گردانی اور بھی محدثین کے نام فراہم کرسکتی ہے، جوخود حافظ حدیث ہونے اور حدیث فہمی وحدیث دانی میں درجہ کمال رکھتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود وہ فقہ حنفی پر عمل پیرا تھے اور اسی کے مطابق فتاوے جاری کیا کرتے تھے، بعد کے ادوار میں بھی محدثین کی ایک بڑی تعداد ہرزمانے میں ایسی رہی ہے، جوفقہ حنفی پر عمل پیرا تھی، امام طحاویؒ، علامہ بن ہمامؒ، علامہ زیلعیؒ، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ، علامہ انورشاہ کشمیریؒ وغیرھم کے حدیث دانی کاکون انکار کرسکتا ہے؟ یہ حضرات بھی فقہ حنفی کے متبع تھے اوراسی کے مطابق فتاویٰ جاری کیا کرتے تھے، محدثین کے درمیان فقہ حنفی کا رواج یہ بتلاتا ہے کہ فقہ حنفی حدیث کے خلاف نہیں ہے؛ بلکہ جس قدر احادیث کے جمع اور تطبیق کا کام فقہ حنفی میں ہوا ہے، وہ کسی اور فقہ میں مشکل ہی سے نظر آئے گا۔ (۱۷)تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۸۸۔ تذکرۃ النعمان بستوی:۱۵۹۔ (۱۸)تذکرۃ الحفاظ:۱/۷۷۔