انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ۵۹۳ء شام کا سفر ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ مالِ تجارت لے کر دومرتبہ جرش بھی گئے جو طائف کے آگے یمن جانے والی شاہراہ پر واقع ہے ، تجارت میں آپ ﷺ کی دیانت داری اورمعاملہ فہمی کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی، حضرت خدیجہّ بنت خویلد شہر کی ایک معزز دولت مند خاتون تھیں، وہ اکثر اپنا بہت زیادہ مال تجارت ان قافلوں کے ذریعہ روانہ کرتی تھیں، جب انھیں حضور ﷺ کی صداقت اور دیانت و خوش اخلاقی کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے آپ ﷺ سے خواہش کی کہ ان کا مال تجارت شام لے جائیں ، چنانچہ آپ ﷺ اپنے چچا سے مشورہ کرکے سامان لے گئے، اس سفر میں حضرت خدیجہؓ کے ایک غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھے، جو آپﷺ کے اخلاق و عادات دیکھ کر آپ کے گرویدہ ہوگئے ، سفر میں بصریٰ نام کے مقام پر پہنچ کر آپﷺ اور ساتھی ایک سوکھے درخت کے نیچے ٹھہرے جو دیکھتے دیکھتے ہرا ہونے لگا، و ہاں قریب ہی ایک کلیسا میں نسطورا نامی راہب رہا کرتا تھا، اس نے دریافت کروایا تو معلوم ہوا کہ قریش کے تاجر ہیں، اس نے کہا کہ آسمانی کتابوں کے بموجب اس درخت کے نیچے سوائے پیغمبر کے کوئی اور نہیں اُترے گا اور اس کے قیام کی برکت سے سوکھی ڈالیاں بھی ہری ہونے لگیں گی، پھر اس نے خود میسرہ سے آپﷺ کے خد و خال کے بارے میں دریافت کیا، میسرہ نے کہا کہ آپﷺ کی آنکھیں بڑی اور سیاہ ہیں البتہ سفید حصہ میں سرخ ڈورے ہیں، نسطورا نے کہا کہ جس میں یہ علامتیں ہوں بلا شبہ وہ آخری نبی ہونے والا ہے، اس کے بعد آپﷺ مالِ تجارت کی خرید و فروخت میں مشغول ہوگئے ، کسی بات میں ایک شخص آپﷺ سے جھگڑنے لگا، اس نے لا ت و عزّیٰ کی قسم کھانے کو کہا ، آپﷺ نے فرمایا ! قسم کھانا تو بڑی بات ہے، میں ان کے سامنے سے گذرتا ہوں تو منہ پھیر لیتا ہوں، مسیرہ بھی وہاں موجود تھے ، انھوں نے لوگوں سے یہ کہتے سناکہ ہمارے علماءکی بموجب اس شخص میں تو پیغمبرانہ صفات ہیں، میسرہ نے دیکھا جب دھوپ تیز ہوتی ہے تو دو فرشتے آپﷺ پر سایہ کئے ہوتے ہیں، جب آپﷺسفر سے لوٹے اور حضرت خدیجہؓ کے گھر جانے لگے تو دوپہر کا وقت تھا، دور سے حضرت خدیجہؓ نے بھی یہی منظر دیکھا، مال کی خرید و فروخت کا حساب آپﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو دیا، منافع دوگنے سے زیادہ تھا، حضرت خدیجہؓ نے طئے شدہ معاوضہ کا دو چند آپﷺ کو دیا یعنی بجائے چار اونٹ کے آٹھ اونٹ معاوضہ میں دیئے۔ (ابن سعد، طبقات - جلد اول)