انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
شہداء پرسوگ منانا چاہئے یانہیں؟ یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید نے کہا ہے کہ نہ صرف شہداء بلکہ تمام ہی مسلمانوں کی جان ومال کواللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلہ خرید لیا ہے، ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کرنفع کا سودا کیا ہوسکتا ہے کہ فانی جان ومال کا سودا جنت کی لافانی نعمتوں سے ہو؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس سودے پرخوش ہوجاؤ: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ (التوبۃ:۱۱۱) ترجمہ: واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے مال اس بات کے بدلے خرید لئے ہیں کہ جنت اُنہی کی ہے، وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں، یہ ایک سچا وعدہ ہے، جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور اِنجیل میں بھی لی ہے اور قرآن میں بھی اور کون ہے جواللہ سے زیادہ اپنے عہد کوپورا کرنے والا ہو؟ لہٰذا اپنے اُس سودے پرخوشی مناؤ جوتم نے اللہ سے کرلیاہے اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔ (توضیح القرآن:۱/۶۱۰، مفتی تقی عثمانی، مکتبہ فریدبکڈپو، نیودہلی) اس لئے یہ صحیح ہے کہ انجام کے اعتبار سے ایمان واسلام پرموت اور بالخصوص شہادت کی موت ایک مؤمن کے لئے مژدۂ جان فزا ہے؛ لیکن چونکہ پسماندگان کوفطری طور پر اپنے عزیز واقارب کی جدائی کا رنج ہوتا ہے اور اس فطری رنج وتکلیف سے انبیاء بھی مستثنیٰ نہیں؛ اس لئے رسولﷺ نے اپنے عام رشتہ داروں کی موت پرتین دنوں تک اور شوہر کی موت پراس کی بیوہ کوچار مہینہ دس دنوں تک سوگ کی اجازت دی ہے؛ بشرطیکہ شرعی حدود کے اندر ہو، سینہ کوبی، بال نوچنا، اپنے رخساروں پرمارنا وغیرہ اس مدت کے اندر بھی روا نہیں اور حدیث میں صراحتاً ان باتوں سے منع کیا گیا ہے؛ خود حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پرآپﷺ نے اس طرح اظہارِ رنج نہیں فرمایا؛ حالانکہ دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں بہت ہی بے دردی کے ساتھ ان کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا؛ اس لئے شہداء کا حکم بھی اس مسئلہ میں دوسرے وفات پانے والے مسلمانوں کا سا ہے کہ شہادت کے بعد تین دونوں سے زیادہ سوگ جائز نہیں۔ (کتاب الفتاویٰ:۳/۲۴۴،کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)