انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دولتِ اسماعیلیہ حشاشین ۳۸۸امام جعفر صادق کے بیٹے موسیٰ کاظم کواثنا عشری شیعہ ان کا جانشین اور امام مانتے ہیں لیکن امام موسیٰ کاضم کے ایک بھائی امام اسماعیل تھے، جولوگ بہ جائے موسیٰ کاظم کے ان کے بھائی کوامام مانتے ہیں وہ شیعہ اسماعیلیہ کہلاتے ہیں، دولت عبیدیین اسماعیلی شعوں کی سب سے بڑی سلطنت تھی، اسماعیلیوں نے اپنے حصولِ مقصد کے لیے ہمیشہ پوشیدہ اور خفیہ کاروائیوں اور نہاں درنہاں سازشوں سے کام لیا، سلطنت عبیدیہ نے اپنے عقائد اور خیالات کی اشاعت کے لیے شروع ہی سے ایک خفیہ محکمہ قائم کردیا تھا، جس کے ذریعہ سے داعیوں کواپنی مقبوضہ مملکت میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی بھیجا جاتا تھا، یہ داعی واعظوں، درویشوں اور تاجروں وغیرہ کی شکل میں تمام اسلامی ممالک کے اندر پھیلے ہوئے تھے اور لوگوں کواسماعیلی عقائد کی تعلیم وترغیب دیتے تھے، ان کے کفریہ عقائد نہایت خطرناک تھے، قرآن مجید کویہ لوگ قابل عمل نہیں جانتے تھے۔ اسماعیل بن جعفر صادق کوپیغمبر مانتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم رتبہ خیال کرتے اور محمد مکتوم بن اسماعیل بن جعفر صادق کوبھی نبی یقین کرتے تھے، ان کے نزدیک اماموں کی تعداد سات تھی، بانی دولت عبیدیہ کوساتواں امام قرار دیتے اور عبیدیہ سلاطین کی فرماں برداری واطاعت کوذریعہ نجات ثابت کرتے وغیرہ، ان داعیوں کی کوششوں نے سلطنت عبیدیہ کوبہت فائدہ پہنچایا اور اس کی قبولیت کوبڑھایا تھا۔ حسن بن صباح ایک شخص رَے کا باشندہ تھا، اس کے نسب میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ وہ عربی النسل تھا، اس کے آباواجداد یمن سے آئے تھے، بعض کا قول ہے کہ وہ مجوسی النسل تھا (اس نے قلعہ الموت میں اپنی سلطنت قائم کررکھی تھی؛ اس کے پیروکار حشیشین کہلاتے تھے، حشیش کا نشہ ان کی زندگی کا لازمہ تھا، بعض نے حسن بن صباح کوعربی النسل یہودی کہا ہے) بہرحال حسن بن صباح کے باپ اور اہلِ خاندان کا عقیدہ شیعی تھا، حسن بن صباح نے نیشاپور میں تعلیم پائی تھی، وہ عمرخیام اور نظام الملک طوسی وزیراعظم، الپ ارسلان وملک شاہ کا ہم سبق رہ چکا تھا، نہایت ذہین اور خوددار شخص تھا، مستنصر عبیدی کے زمانے میں حسن بن صباح مصر پہنچا، وہاں اس کی بڑی عزت وتکریم ہوئی، سال بھر سے زیادہ عرصہ تک وہ مصر میں شاہی مہمان اور مستنصر کے مصاحب کی حیثیت سے رہا، وہاں اس نے عقائد اسماعیلیہ سے پوری واقفیت حاصل کرکے مستنصر کے ہاتھ پربیعت کی اور دولت عبیدیہ کے اعلیٰ درجہ کے داعیوں میں شمار ہوا، جب حسن بن صباح اسماعیلیہ داعی بن کرروانہ ہوا تواس نے مستنصر سے پوچھا کہ آپ کے بعد کس کے احکام کی تعمیل کروں اور آپ کے بعد میرا امام کون ہوگا؟ مستنصر نے کہا کہ میرے بعد تمہارا امام میرا بیٹا نزار ہوگا؛ چنانچہ اسی وجہ سے حسن بن صباح کی قائم کی ہوئی جماعت کونزاریہ بھی کہتے ہیں۔ مصر سے عراق وایران میں واپس آکر حسن بن صباح نے مختلف شہروں میں تھوڑے تھوڑے دن اقامت اختیار کی اور لوگوں کواپنا ہم خیال بنانا شروع کیا؛ یہاں پہلے ہی سے اسماعیلی داعیوں کی کوشش سے بہت سے شیعہ اور غیرشیعہ اسماعیلیہ خیالات کے پیروہوچکے تھے، اس لیے حسن بن صباح کوبہت جلد بہت سے معاون ومددگار مل گئے، ملک شاہ کی طرف سے صوبہ اصفہان وقہستان کا حاکم مہدی علوی تھا، حسن بن صباح نے مہدی علوی سے اپنی عبادت گاہ بنانے کے لیے قلعہ الموت کوخیرد لیا، اس قلعہ میں بیٹھ کراس نے ہرقسم کی مضبوطی کرلی اور اپنے معتقدین کوجمع کرکے اور اردگرد کے جاہل وجنگجو قبائل میں اپنا اثرقائم کرنے کے بعد اپنی حکومت کی بنیاد قائم کی اور شیخ الجبل کے نام سے مشہور ہوا، اس نے بعض عجیب وغریب عقائد وامعال ایجاد کرکے لوگوں کوان کیتلقین کی، اس نے فدائیوں کا ایک گروہ تیار کیا، ان فدائیوں نے بڑے بڑے کام کیے، دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں، وزیروں، عالموں کوحسن بن صباح قلعہ الموت میں بیٹھا ہوا اپنے فدائیوں کے ہاتھ سے قتل کرادیتا تھا، حسن بن صباح نے اپنے مشہور داعی کیا بزرگ اُمید کواپنا ولی عہد وجانشین بنایا، اس کے بعد کیا بزرگ اُمید کی اولاد میں کئی پشت تک حکومت قائم رہی، آخر سنہ۶۲۵ھ میں ہلاکوخاں کے ہاتھ سے اس کی حکومت کا خاتمہ ہوا، یہ سلطنت جوحسن بن صباح نے قائم کی تھی، قہستان میں سنہ۴۸۳ھ سے سنہ۶۵۵ھ تک پونے دوسوسال تک قائم رہی، اس اسماعیلی حکومت کی دھاک ساری دُنیا میں بیٹھی ہوئی تھی اور بڑے بڑے بادشاہ فدائیوں سے ڈرتے تھے؛ کیونکہ وہ ہمیشہ دوھکے سے اور دشمن کوتنہا پاکر اچانک حملہ کرتے تھے۔