انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۵۸۔کعب احبارؒ نام ونسب کعب نام،ابو اسحٰق کنیت،نسبایمن کے مشہور حمیری خاندان کی شاخ آل ذی روعین سے تھے، نسب نامہ یہ ہے،کعب بن مانع بن ہنیوع بن قیس بن معن بن حشم بن عبد شمس بن وائل بن عوف بن جمہر بن عوف بن زہیر بن ایمن بن حمیر بن سبا حمیری۔ اسلام اوردرودِ مدینہ کعب مشہور تابعی ہیں،قبول اسلام سے پہلے وہ یہود کے جید علماء میں تھے،عہد رسالت میں موجود تھے،بروایت صحیح اس زمانہ میں اسلام کی سعادت سے محروم رہے،ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی عہد میں مشرف باسلام ہوگئے تھے ،بروایت کعب شاطبی کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ جب یمن آئے تو میں نے اُن کے پاس جاکر رسول اللہ ﷺ کے اوصاف پوچھے انہوں نے بتائے میں سُن کر مسکرایا،علیؓ نے مجھ سے مسکرانے کا سبب پوچھا میں نے کہا ہمارے یہاں (نبی آخرالزماں کے) جو علامات بتائے گئے ہیں (رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کی مطابقت پر مسکرایا یہ سننے کے بعد میں مسلمان ہوگیا اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگا لیکن قیام یمن ہی میں رہا، عمرؓ کے عہد میں ہجرت کرکے مدینہ گیا کاش میں نے اس سے پہلے ہجرت کی ہوتی (اصابہ:۵/۳۲۲)ایک روایت یہ ہے کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اسلام کے شرف سے مشرف ہوئے۔ (ایضاً) جو ابن سعد ہیں کعب کے حلیف حضرت عباسؓ سے مروی ہے جس سے خود کعب کی زبان سے عہد فاروقی میں ان کا اسلام لانا ثابت ہوتا ہے،سعید بن مسیب کابیان ہے کہ عباس نے کعب کے اسلام کے بعد ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ اورابوبکرؓ کے زمانہ میں قبولِ اسلام سے تمہارے لیے کیا چیز مانع تھی کہ اب عمرؓ کے زمانہ میں اسلام لائے انہوں نے جواب دیا میرے والد نے مجھ کو تورات سے ایک تحریر لکھ کردی تھی اورہدایت کردی تھی کہ اس پر عمل کرنا اوراپنی جملہ مذہبی کتابوں پر مہر لگا کر حق ابوت کا واسطہ دلا کر مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ مہر کو کبھی نہ توڑنا،اس لیے میں نے اُن کو نہیں توڑا اوروالد جو تحریر دے گئے تھے اس کے مطابق عمل کرتا رہا،جب اسلام کی اشاعت اوراس کا غلبہ ہونے لگا اورکسی قسم کا خوف باقی نہیں رہ گیا،اس وقت میں نے دل میں خیا ل کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مجھ سے والد نے کچھ علم چھپا یا ہے مجھے ان کتابوں کو کھول کر دیکھنا چاہئے؛چنانچہ میں نے مہر توڑ کر کتابیں پڑھیں تواُن میں محمد ﷺ اوران کی امت کے اوصاف نظر آئے اُس وقت مجھ پر اصل حقیقت روشن ہوئی اس لیے اب آکر میں مسلمان ہوا (ابن سعد،۷،ق۲ص۱۵۶) قبولِ اسلام کے بعد وہ آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کے حلیف بن گئے تھے۔ فضل وکمال کعب یہود کے بڑے ممتاز اورنامور علماء میں تھے،یہودی مذہب کے متعلق ان کی معلومات نہایت وسیع تھیں،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ علم کا ظرف اور اہل کتاب کے علمائے کبار میں تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۵)امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کے وفور علم اورتوثیق پر سب کا اتفاق ہے وہ اپنی وسعت علم کی وجہ سے کعب الاحبار اورکعب الحبر کہتے جاتے تھے ان کے مناقب بکثرت ہیں اوران کے اقوال وحکم بہت مشہور ہیں (تہذیب الاسماء:۱/۹)اکابر صحابہ ان کی وسعتِ نظر کے معترف تھے،حضرت ابودردا انصاری جن کا حمص میں کعب کا بڑا ساتھ رہا تھا، فرماتے تھے کہ ابن حمیریہ کے پاس بڑا علم ہے،امیر معاویہ کہتے تھے کہ ابودرداء حکماء میں ہیں اور کعب علماء میں ان کے پاس سمندر جیسا بے تھا علم تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۵) چونکہ ایک مذہب کے وہ ایک بڑے عالم تھے،اس لیے اسلامی علوم کے ساتھ بھی انہیں خاص مناسبت تھی،انہوں نے کتاب وسنت کی تعلیم صحابہ سے مدینہ میں حاصل کی تھی اورصحابہ نے ان سے اہل کتاب کے علوم سیکھے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۵) کتاب وسنت میں انہوں نے ،حضرت عمرؓ،حضرت صہیبؓ اورحضرت عائشہؓ سے استفادہ کیا تھا اوراسرائلیات میں صحابہ میں ابوہریرہؓ ،معاویہؓ،ابن عباسؓ اورتابعین میں مالک بن ابی عامراصبحی،عطاء بن ابی رباح،عبداللہ بن ریاح انصاری،عبداللہ بن حمزہ سلولی ابورافع،صائغ ،عبدالرحمن بن شعیب ایک کثیر جماعت ان سے فیضیاب ہوئی تھی۔ (تہذیب التہذیب:۵/۴۳۸) علم وعلماء اورزوالِ علم ایک مرتبہ عبداللہ بن سلام نے ان سے پوچھا کہ کعب،علماء کون لوگ ہیں، جواب دیا جو علم جانتے ہیں،ابن سلام نے پوچھا کون سی شے علماء کے دلوں سے علم زائل کردے گی،فرمایا طمع حرص اورلوگوں کے سامنے اپنی حاجت پیش کرنا ،عبداللہ بن سلام نے کہا تم نے سچ کہا۔ (اصابہ:۳۲۴) شام کا قیام کعب کا آبائی مذہب یہودی تھا، اس لیے پہلے سے ان کو ارض شام کے ساتھ دلی لگاؤ تھا،اسلام کے نزدیک بھی یہ سر زمین مقدس ومحترم ہے اس لیے چند دنوں مدینہ میں قیام کرنے کے بعد شام چلے گئے تھے اور حمص میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ (ابن سعد،ج ۷،ق۲،ص۱۵۶) مواعظ شام کے زمانہ قیام میں ان کا مشغلہ زیادہ تر اسرائیلی قصص کے مواعظ تھے، ایک مرتبہ عوف بن مالک نے دورانِ وعظ میں ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ امیر مامور اور مکلف کے علاوہ لوگوں کے سامنے اورکسی کو مواعظ وقصص نہ بیان کرنے چاہیے،یہ سُن کر کعب نے وعظ چھوڑدیا،لیکن پھر امیر کے حکم سے کہنے لگے۔ (اصابہ:۵/۳۲۳) اسلامی روایات میں اسرائیلیات کا شمول کعب کی علمی جلالت میں کوئی شک نہیں ،وہ یہودی مذہب کے بڑے نامور عالم تھے،لیکن خود یہودیوں کا سرمایہ علم زیادہ تر قصص وحکایات تھیں، اس لیے کعب کا سرمایہ معلومات بھی اسی پر مشتمل تھا، اس سے ایک نقصان یہ ہوا کہ بہت سی بے سروپا اسرائیلی روایات اسلامی لٹریچر میں بھی سرایت کر گئیں ،اسی بناء پر بعض آئمہ کعب کی روایات ساقط الاعتبار سمجھتے ہیں۔ وفات حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت ۳۲ میں شام میں وفات پائی۔ (ابن سعد،ج۷،ق۲،ص:۱۵۶)