انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غلاموں کے حقوق غلامی کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ ایک بد قسمت شخص میدان جنگ میں گرفتار ہوجاتا ہے گرفتاری کے بعد مال غنیمت کے ساتھ اس کی تقسیم ہوتی ہے اور وہ ایک خاص شخص کی ملک بن جاتا ہے اس کےبعد اپنے آقا کی شخصی حکومت کے ساتھ اس کو سلطنت کے عام قوانین کے ماتحت زندگی بسر کرنا ہوتی ہے اس لئے اگر کسی قوم کی نسبت یہ سوال ہو کہ غلاموں کے متعلق اس کا کیا طرز عمل تھا؟ تو بہ ترتیب حسب ذیل عنوانات میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے۔ ۱۔حالت قید میں ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا گیا؟ ۲۔آقانے غلام کو غلام بناکر رکھا یا آزاد کردیا؟ ۳۔غلاموں کو کیا کیا ملکی حقوق دیئے اوربادشاہ کا غلاموں کے ساتھ کیا طرز عمل رہا؟ صحابہ کرام کے زمانے میں جو لوگ غلام بنائے گئے ہم ان کے متعلق اسی ترتیب سے بحث کرتے ہیں۔ اسیران جنگ کا قتل نہ کرنا اسلام سے پہلے مہذب سےمہذب ملکوں میں غلاموں کو قید کرکے بیدریغ قتل کردیا جاتاتھا،چنانچہ تاریخ قدیم میں اس کی بکثرت مثالیں ملتی ہیں، لیکن قرآن مجید میں اسیران جنگ کے متعلق یہ حکم ہے۔ حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً۔ (محمد:۴) یہاں تک کہ جب تم اُن کی طاقت کچل چکے ہو تو مضبوطی سے گرفتار کرلو،پھر چاہے احسان کرکے چھوڑدو یا فدیہ لے کر اورصحابہ کرام نے شدت کے ساتھ اس کی پابندی کی،چنانچہ ایک بار حجاج کے پاس ایک اسیر جنگ آیا اوراس نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اس کے قتل کرنے کا حکم دیا، لیکن انہوں نے کہا ہم اس پر مامور نہیں ہیں، اس کے بعد قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت پڑھی۔ (کتاب الخراج للقاضی ابی یوسف) اسیران جنگ کو کھانا کھلانا اوران کے آرام وآسائش کا سامان بہم پہونچانا صحابہ کرام اسیران جنگ کو اپنے آپ سے بہتر کھانا کھلاتے تھے اوران کے آرام و آسائش کے ضروری سامان بہم پہونچاتے تھے خود قرآن مجید نے صحابہ کرام کی اس فضیلت کو نمایاں کیاہے۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا۔ (الدھر:۸) باوجود یکہ ان لوگوں کو خود کھانے کی خواہش ہو پھر بھی وہ مسکین کو یتیم کو اورقیدی کو کھانا کھلاتےہیں۔ معجم طبرانی میں ہے کہ صحابہ کرام اسیران جنگ کے ساتھ اس قدر لطف و مراعات کرتے تھے کہ خود کھجور کھالیتے تھے مگر ان کو جو کی روٹی کھلاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جب مالک بن نویرہ اپنے رفقا کے ساتھ گرفتار ہوا تو رات کو ان کو سخت سردی محسوس ہوئی،حضرت خالد بن ولیدؓ کو خبر ہوئی تو عام منادی کرادی۔ ادفئوااسراکم (طبری ،صفحہ ۱۹۲۵) اپنے قیدیوں کو گرم کپڑے اوڑھاؤ شاہی خاندان کے اسیران جنگ کے ساتھ برتاؤ اگرچہ صحابہ کرام تمام قیدیوں کے ساتھ نہایت عمدہ برتاؤ کرتے تھے؛ لیکن شاہی خاندان کے قیدی اوربھی لطف و مراعات کے مستحق ہوتے تھے، حضرت عمروبن العاصؓ نے جب جنگ مصر میں ہلیس پر حملہ کیا اور مقوقس شاہ مصر کی بیٹی ارمانوسہ گرفتار ہوکر آئی تو انہوں نے حضرت عمرؓ کے حکم سے نہایت عزت واحترام کے ساتھ اس کو مقوقس کے پاس بھیج دیا اورمزید احتیاط کے لئے اس کے ساتھ ایک سردار کو کردیا کہ بحفاظت تمام اس کو پہنچاآئے۔ (مقریزی،جلد۱صفحہ۱۸۴) اسیران جنگ کو اعزہ واقارب سے جدانہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام حکم یہ تھا کہ قیدی اپنے اعزہ واقارب سے جدا نہ کئے جائیں ،صحابہ کرام اس حکم پر نہایت شدت کے ساتھ عمل فرماتھے، ایک بار حضرت ابو ایوب انصاریؓ کسی فوج میں تھے اسیران جنگ کی تقسیم ہوئی تو بچوں کو ماں سے علیحدہ کردیا گیا، بچے رونے لگے تو انہوں نے ان کو ماں کی آغوش میں ڈال دیا اورکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص ماں سے بچوں کو جدا کرے گا خدا قیامت کے دن اس کو اس کے اعزہ واقارب سے جدا کردے گا۔ (مسند دارمی کتاب الجہاد باب النہی عن التفریق بین الوالدۃ وولدہا) لونڈیوں کے ساتھ استبراء کے بغیر جماع کرنا عرب میں یہ وحشیانہ طریقہ جاری تھا کہ جو لونڈیاں گرفتار ہوکر آتی تھیں، ان سے استبراء رحم کے بغیر مباشرت کرنا جائز سمجھتے تھے اوراس میں حاملہ وغیرہ حاملہ کی کوئی تفریق نہیں کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اس طریقہ کو بالکل ناجائز قرار دیا اوران لونڈیوں کو مطلقہ عورتوں کے حکم میں شامل کرلیا ،یعنی جب تک غیر حاملہ لونڈیوں پر عدت حیض نہ گذر جائے اورحاملہ لونڈیوں کا وضع حمل نہ ہوجائے ان سے اس قسم کا فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوسکتا ،صحابہ کرام غزوات میں اس حکم کی شدت کے ساتھ پابندی کرتے تھے ،ایک بار حضرت رویفع بن ثابت انصاریؓ نے مغرب کے ایک گاؤں پر حملہ کیا مال غنیمت کی تقسیم کا وقت آیا تو فوج کو یہ ہدایت فرمائی۔ من اصاب من ھذا السبی فلایطوءھا حتی تحیض یہ لونڈیاں جن لوگوں کے حصے میں آئیں جب تک ان کو حیض نہ آجائے وہ ان سے جماع نہ کریں۔ دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: أيها الناس إني لا أقول فيكم إلا ما سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول قام فينا يوم حنين فقال لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره يعني آتيان الحبالى من السبايا وأن يصيب امرأة ثيبا من السبي حتى يستبرئها (مسند ابن حنبل،جلد۴،صفحہ۱۰۸،۱۰۹) لوگو!میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے آپ نے حنین کے دن فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لایا اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ دوسرے کی کھیتی میں آب پاشی کرے یعنی حاملہ اورثیبہ لونڈیوں سے بغیر استبراء رحم جما کرے۔ غلاموں کی آزادی یہ وہ احسانات تھے جو صحابہ کرام حالت قیدمیں غلاموں کے ساتھ کرتے تھے؛ لیکن ان کا اصلی احسان یہ ہے کہ جو لوگ قید کرکے غلام بنالئے جاتے تھے، اکثر ان کو بھی مختلف طریقوں سے آزاد کردیتے تھے۔ حضرت ام ورقہ بنت نوفلؓ ایک صحابیہ تھیں جنہوں نے دو غلام مدبر کئے تھے،(مدبران غلاموں کوکہتے ہیں جن کی آزادی آقا کی موت کے ساتھ مشروط ہوتی ہے) جنہوں نے ان کو شہید کردیا تھا کہ جلد آزاد ہوجائیں۔ (ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب امامۃ النساء) حضرت عائشہؓ نے ایک لونڈی اورایک غلام کو آزاد کرنا چاہا مگر چونکہ دونوں کا نکاح ہوگیا تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے شوہر کو آزاد کردو تاکہ بی بی کو طلاق لینے کا اختیار باقی نہ رہے۔ (ابوداؤد کتاب الطلاق باب فی المملوکین یعتقان معاہل تخیر امراتہ) ایک بار حضرت عائشہؓ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے ناراض ہوگئیں اوران سے بات بند کرنے کی قسم کھائی،پھر معاف کرنے کے بعد قسم کے کفارہ میں ۴۰ غلام آزاد کئے۔ (بخاری کتاب الادب باب الہجرۃ) حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ دفعۃ حالت خواب میں مرگئے ،حضرت عائشہؓ نے ان کی جانب سے بکثرت غلام آزاد کئے، (موطا امام مالک کتاب الحق والولاوباب عتق الحیی عن المیت) ان کے پاس اسیران قبیلہ بنو تمیم میں سے ایک لونڈی تھی،آپ نے فرمایا کہ اس کو آزاد کردو کیونکہ یہ اسماعیل کی اولاد میں سے ہے۔ (مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل غفار واسلم وغیرہم) حضرت میمونہؓ کی ایک لونڈی تھی جس کو انہوں نے آزاد کردیا آپﷺ کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ خدا تم کو اس کا اجر دیگا؛ لیکن اگر اپنے ماموں کو دے دیتیں تو اس سے زیادہ ثواب ملتا۔ (ابوداؤد کتاب الزکوۃ باب فی صلۃ الرحم وبخاری کتاب الہبۃ) سفینہ حضرت ام سلمہؓ کی ایک لونڈی تھی انہوں نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گذاری کے لئے آزاد کردیا۔ (ابوداؤد کتاب العتق باب فی العتق علی شرط) ایک صحابی نے آپ کی خدمت میں بیان کیا کہ میری ایک لونڈی دامن کوہ میں بکریاں چرارہی تھی،بھیڑیا آیا اورایک بکری کو اٹھالے گیا،اس پر میں نے اس کو طمانچے مارے، یہ واقعہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی اوراس کو بلواکر پوچھا کہ خدا کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان پر پھر پوچھا میں کون ہوں؟ بولی رسول اللہ ﷺ ارشاد ہوا کہ اس کو آزاد کردو یہ تو مسلمان ہے۔ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب تشمیت العاطس فی الصلوٰۃ) مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس کو ایک رقم معین کے ادا کرنے کے بعد آزادی کا حق حاصل ہوجاتا ہے، حضرت ام سلمہؓ اپنے غلاموں کو مکاتب بناتی تھیں ؛لیکن قبل اس کے کہ پورا معاوضہ یعنی بدل کتابت اداکریں اس سے کسی قدررقم لے کر جلد سے جلد آزاد کردیتی تھیں۔ (موطا امام مالک کتاب العتق والولاء باب القطاعۃ فی الکتابۃ) ایک صحابی نے انتقال کیا تو وارث کی جستجو ہوئی، معلوم ہوا کہ کوئی نہیں ہے، ان کا صرف ایک آزاد کردہ غلام ہے، آپ نے اسی کو ان کی وراثت دلوادی۔ (ابوداؤد کتاب الفرائض باب فی میراث ذوی الارحام ) ایک غلام دو صحابیوں کے درمیان مشترک تھا ،ایک صحابی نے اپنا حصہ آزاد کردیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا، خدا کا کوئی شریک نہیں اوراس غلام کو آزادکردیا۔ (ابوداؤد کتاب العتق باب فیمن اعتق نصیبا لہ من مملوک) حضرت حکیم بنؓ حزام نے زمانہ جاہلیت میں سو غلام آزاد کئے تھے، اسلام لائے تو زمانہ اسلام میں بھی سو غلام آزاد کئے،(مسلم کتاب الایمان باب بیان حکم عمل الکافر اذا اسلم بعدہ) ان غلاموں کی آزادی نہایت شان و شوکت کے ساتھ عمل میں آئی؛ چنانچہ وہ حج کو آئے تو عرفہ کے دن ان غلاموں کے گلے میں چاندی کے طوق ڈال کر لائے جن پر" عتقاء اللہ عن حکیم بن حزام "لکھا ہوا تھا، یعنی یہ حکیم بن حزام کی جانب سے خدا کی راہ میں آزاد ہیں۔ (نزہتہ الابرار تذکرہ حکیم ابن حزام) حضرت عثمانؓ کی شہادت کا وقت آیا تو ۲۰ غلام آزاد کئے۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۱،صفحہ ۷۳ ،مسند عثمانؓ) حضرت عمرؓ نے انتقال کے وقت جو وصیتیں کیں ان میں ایک یہ تھی: مَنْ أَدْرَكَ وَفَاتِي مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ فَهُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ یعنی غلامان عرب میں سے جو لوگ میری وفات کا زمانہ پائیں وہ خدا کے مال سے آزاد ہیں۔ (مسند ابن حنبل ،جلد۱،صفحہ ۲۰) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک غلام کو آزاد کیا تو غلام کے پاس جو مال تھا اگرچہ وہ اس کے مالک ہوسکتے تھے؛لیکن مال بھی اسی کو دے دیا۔ (سنن ابن ماجہ ابواب العتق باب من اعتق عبد اولہ مال) حضرت ابومذکورؓ ایک انصاری صحابی تھے،ان کی جائداد کی کل کائنات ایک غلام سے زیادہ نہ تھی؛ لیکن انہوں نے اس کو بھی مدبر کردیا، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسندنہیں فرمایا اورفروخت کرکے ان کو اس کی قیمت دلادی۔ (ابوداؤد کتاب العتق باب فی بیع المدبر) ایک اورصحابی کی ملک میں صرف ۶ غلام تھے جن کو انہوں نے مرتے وقت آزاد کردیا؛ لیکن وصیت کے قاعدے کے موافق آپﷺنے صرف دو غلاموں کی آزادی کو جائز رکھا۔ (ابوداؤد کتاب العتق باب فیمن عتق عبید الہ یبلغہم الثلث) اسیران ہوازن میں سے حضرت عمرؓ کے پاس ایک لونڈی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کیا تو انہوں نے بھی حکم دیا کہ یہ لونڈی بھی انہی آزاد شدہ لوگوں کے ساتھ کردی جائے۔ (ابوداؤد کتاب الصیام باب العتکف یعود المریض کتاب الجہاد میں ہے کہ دو لونڈیاں تھیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام اورآقا کو بھائی بھائی بنادیا تھا اس لئے اگر صحابہ غلاموں کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آجاتے تھے تو اس جرم کے کفارے میں ان کو آزاد کردیتے تھے، حضرت ابو مسعود انصاریؓ اورحضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اسی طرح ایک ایک غلام آزاد کئے تھے۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی حق الملوک) ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے دو غلام ہیں، جو نہایت خائن، کذاب اورنافرمان ہیں ،میں جرائم پر ان کو برا بھلا کہتا ہوں اور سزا دیتا ہوں اس معاملہ میں میرا کیا انجام ہوگا؟ ارشاد ہوا ان کی خیانت ،کذب ،نافرمانی اور تمہاری سزا کا حساب ہوگا۔ اگر تمہاری سزا ان کے جرائم سے زیادہ ہوگی تو اس زیادتی کا تم سے بدلہ لیا جائے گا، یہ سن کر وہ رونے پیٹنے لگے اورکہا کہ بہتر یہی ہے کہ میں ان کو اپنے پاس سے علیحدہ کردوں،آپ گواہ رہئے کہ وہ آزاد ہیں۔ (ترمذی ابواب تفسیر القرآن تفسیر سورہ انبیاء) ایک بار آپﷺ نے ابو الہثیم بن الیتھان انصاریؓ کو ایک غلام عنایت فرمایا اورہدایت کی کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ان کی بی بی نے کہا تم سے یہ نہ ہوسکے گا، بہتر یہ ہے کہ اس کو آزاد کردو، انہوں نے اس کو آزاد کردیا۔ (ترمذی ابواب الزہد) ایک بار آپﷺ نے حضرت ابوذرؓ کو ایک غلام دیا اورکہا کہ اس کے ساتھ نیکی کرو، انہوں نے یہی نیکی کی کہ اس کو آزاد کردیا۔ (ادب المفرد باب العفوعن انحادم) حضرت ابوہریرہؓ اسلام لانے کے لئے چلے تو ساتھ میں غلام بھی تھا، وہ موقع پاکر راستے ہی میں بھاگا یا بھٹک گیا،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لائے تو اسی حالت میں غلام بھی آیا ،آپﷺ نے فرمایا ابو ہریرہ !لےلو یہ تمہارا غلام ہے، بولے کہ آپ گواہ رہئے یہ خدا کی راہ میں آزاد ہے۔ (بخاری ابواب الشرکۃ باب اذا قال نعبدہ ہوللہ ونوی لعتق والا شہاد فی العتق) ایک بار کسی شخص نے اپنے غلام سے کسی کام کو کہا وہ سوگیا، وہ آیا تو اس کو چہرے پر آگ ڈال دی ،غلام گھبراکر اٹھا تو کنویں میں گرپڑا،حضرت عمرؓ نے اس کے چہرے کی حالت دیکھی تو اس کو آزاد کردیا۔ (ادب المفرد باب حسن الملکۃ ) صرف یہی نہیں تھا کہ صحابہ کرام اپنےمملوکہ لونڈی غلام کو آزاد کرتے تھے ؛بلکہ یہ اس قدر افضل کام خیال کیا جاتا تھا کہ دوسروں کے غلاموں کو صرف آزاد کرنے کے لئے خرید تے تھے، چنانچہ حضرت عائشہؓ نے ایک لونڈی کو اس لئے خریدنا چاہا کہ اس کو آزاد کردیں،(ابوداؤد کتاب الفرائض باب فی الولاء) ابتدائے اسلام میں حضرت ابوبکرؓ نے بھی سات غلام خرید کر آزاد کئے تھے۔ حضرت زبیر بن عوامؓ نے ایک غلام خریدا اوراس کو آزاد کردیا،(موطا امام مالک کتاب العتق والو لاء باب حرا لاعبد الولاء ) ان کے علاوہ بکثرت غلاموں کو صحابہ کرام نے آزاد کیا۔ میر اسماعیل نے بلوغ المرام کی شرح میں نجم الوہاج سے ایک فہرست نقل کی ہے جس کی رو سے صحابہ کرام کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ونتالیس ہزار دوسو سینتیس(۳۹۲۳۷) تک پہونچتی ہے،چنانچہ ان صحابہ کے نام اوران کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد حسب ذیل ہے: حضرت عائشہؓ ۶۷ حضرت حکیم بن حزامؓ ۱۰۰ ذوالکلاع حمیری ۸۰۰۰ حضرت عباسؓ ۷۰ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ۱۰۰۰ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ۳۰۰۰۰ اس کتاب میں حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد نہیں بتائی ہے؛لیکن لکھا ہے کہ انہوں نے بکثرت غلام آزاد کئے ۔ (سبل السلام ،صفحہ ۳۳۵،کتاب العتق) سیاسی حیثیت سے صحابہ کرام نے غلاموں کو جو حقوق عطا کئے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: عرب کا غلام نہ بنانا اوپر گذرچکا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس قبیلہ بنو تمیم کی ایک لونڈی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا کہ اس کو آزاد کردو، کیونکہ یہ اسماعیل کی اولاد میں سے ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خود آپ ﷺاہل عرب کا غلام بنانا پسند نہیں فرماتے تھے؛لیکن حضرت عمرؓ نے عام قانون بنادیا کہ عرب کا کوئی شخص غلام نہیں بنایا جاسکتا ؛چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں قبائل مرتدہ کے جو لوگ گرفتارہوئے تھے ، ان کو انہوں نے اسی بنا پر آزاد کرادیا۔ (یعقوبی،جلد۲،صفحہ۱۵۸) اسلام کے پہلے عرب کے جو لوگ لونڈی یا غلام بنالئے گئے تھے ان کی نسبت یہ حکم دیا کہ اگر کسی قبیلہ کا کوئی شخص کسی قبیلہ میں غلام بنالیا گیا ہو تو وہ اس کے بدلے میں دو غلام بطور فدیہ کے دے کر آزاد کراسکتا ہے، اسی طرح ایک لونڈی کے عوض میں دو لونڈی دے کر آزاد کرائی جاسکتی ہے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ ریاح بن حارث) غیر قومیں اگرچہ غلام بنائی جاسکتی تھیں تاہم حضرت عمرؓ نے ان کو بھی بہت کم غلام بنایا مصرفتح ہوا تو چھ لاکھ مرد اور عورت مسلمانوں کے قبضہ میں آئے،فوج کے اکثر حصہ کا اصرار تھا کہ ان کو لونڈی غلام بنا کر تمام فوج پر تقسیم کردیا جائے؛لیکن حضرت عمرؓ نے جزیہ مقرر کرکے ان کو بالکل آزاد کردیا، چند گاؤں کے لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تھی،وہ گرفتار ہوئے تو لونڈی غلام بناکر مدینہ میں بھیج دیئے گئے، لیکن حضرت عمرؓ نے ان کو بھی واپس کردیا۔ (حسن المحاضرہ،جلد۲،صفحہ۵۴) حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے نام عام حکم بھیج دیا کہ کوئی کاشتکار یا پیشہ ورغلام نہ بنایا جائے۔ (کنزل العمال،جلد۲،صفحہ۳۱۲) حضرت عمرؓ کے عہد میں زراعت کو جو ترقی ہوئی اوراس کی وجہ سے محاصل وخراج میں جو اضافہ ہوا اس کی اصل وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اکثر مفتوح قوموں کو آزاد رکھا اوروہ آزادی کے ساتھ زراعت کے کاروبار میں مصروف رہے۔ غلاموں کو مکاتب بنانا غلاموں کی آزادی کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے یہ شرط کرلی جائے کہ اتنی مدت میں وہ اس قدر رقم ادا کرکے آزاد ہوسکتے ہیں یہ حکم خود قرآن مجید میں مذکور ہے۔ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا۔ (النور:۳۳) اگر تم کو غلاموں میں بھلائی نظر آئے تو ان سے مکاتبت کرلو لیکن حضرت عمرؓ کی خلافت سے پہلے یہ حکم وجوبی نہیں سمجھا جاتا تھا؛ لیکن آقا کو معاہدہ مکاتبت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار تھا، لیکن حضرت عمرؓ نے عملاً اس حکم کو وجوبی قرار دیا؛ چنانچہ جب سیرین نے آپنے آقا حضرت انسؓ سے مکاتبت کی درخواست کی اورانہوں نے اس کو منظور کرنے سے انکار کردیا، تو حضرت عمرؓ نے ان کو بلوا کر درےسےمارا اورقرآن مجید کی اس آیت کے رو سے ان کو معاہدہ کتابت کرنے کاحکم دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المکاتب) حضرت عمرؓ ہمیشہ اس قسم کے غلاموں کی آزادی میں آسانیاں پیدا کرتے رہتے تھے،ایک بار ایک مکاتب غلام نے مال جمع کرکے کے بدل کتابت ادا کرنا چاہا؛لیکن آقا نےیکمشت رقم لینے سے انکار کردیا اوربااقساط لینا چاہا،وہ حضر ت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا ،تو انہوں نے کل رقم لے کر بیت المال میں داخل کروادی اورکہا، تم شام کو آنا میں تمہیں آزادی کا فرمان لکھدوں گا، اس کے بعد لینے یا نہ لینے کا تمہارے آقا کو اختیار ہوگا، آقا کو خبر ہوئی تو اس نے آکر یہ رقم وصول کرلی۔ (طبقات ابن سعدتذکرہ ابو سعید المقبری) ام ولد کی خرید وفروخت سے ممانعت آقا سے جس لونڈی کے اولاد پیدا ہوجاتی ہے اس کو ام ولد کہتے ہیں، حضرت عمرؓ کے عہد خلافت سے پہلے اس قسم کی لونڈیاں عام لونڈیوں کے برابر سمجھی جاتی تھیں؛لیکن حضرت عمرؓ نے یہ عام قاعدہ مقرر فرمادیا کہ اس قسم کی لونڈیاں نہ فروخت کی جاسکتیں ہیں نہ ان میں وراثت جاری ہوسکتی، نہ ان کا ہبہ ہوسکتا؛بلکہ وہ آقا کی موت کے بعد آزاد ہوجائیں گی، اس طرح لونڈیوں کی آزادی کا نیا راستہ نکل آیا۔ (موطا امام محمد باب بیع امہات الاولاد) اسیران جنگ سے اعزہ واقارب کو جدانہ کرنا اگرچہ صحابہ کرام مذہباً اوراخلاقاً خود ہی قیدیوں کو ان کے اعزہ واقارب سے جدا کرنا ناجائز سمجھتے تھے؛لیکن حضرت عمرؓ نے قانوناً وحکما ًاس کی ممانعت فرمادی؛ چنانچہ تمام امرائے فوج کے نام فرمان بھیجے کہ بھائی کو بھائی سے اورلڑکی کو ماں سے جدانہ کیا جائے ،ایک بار بازار میں شورسن کر حضرت عمرؓ نے اپنے دربان یرقاء کو بھیجا تو معلوم ہوا کہ ایک لونڈی کی ماں فروخت کی جارہی ہے، انہوں نے تمام مہاجرین وانصار کو جمع کیا اوریہ آیت پڑھی: "فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ" (محمد:۲۲) پھر اگر تم نے منہ موڑاتو تم سے کیا توقع رکھی جائے؟یہی کہ تم زمین میں فساد مچاؤ اور اپنے خونی رشتہ کاٹ ڈالو اور کہا کہ اس سے بڑھ کر کیا قطع رحم ہوسکتا ہے کہ لڑکی کو ماں سے جدا کیا جائے؛چنانچہ اس کے بعد تمام امراء کے نام فرمان بھیج دیا کہ اس قسم کا قطع رحم جائز نہیں۔ (کنز العمال،جلد۲،صفحہ،۲۲۶،۲۲۷) غلاموں کے وظیفے بیت المال سے مسلمانوں کو جو وظیفہ ملتا تھا، اس میں غلام برابر کے شریک تھے ،اول اول حضرت ابوبکرؓ نے غلاموں کو بیت المال میں تمام مسلمانوں کا شریک بنایا،ابوداؤد کتاب الخراج میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے۔ کان ابی یقسم للحروالعبد میرے باپ غلام اور آزاد کو مال تقسیم فرمادیتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے جب باضابطہ طورپر تمام مسلمانوں کے وظائف مقرر فرمائے تو آقا کے برابر غلاموں کے وظائف بھی مقرر فرمائے، (فتوح البلدان،صفحہ۴۵۵) ان کو اس بات میں اس قدر فکر تھی کہ جب ایک عامل نے غلاموں کو وظیفہ نہیں دیا، تو اس کو لکھ بھیجا کہ کسی مسلمان کا اپنے بھائی مسلمان کو حقیر سمجھنا نہایت بری باتی ہے،(فتوح البلدان،صفحہ ۴۶۲) حضرت عمرؓ نے اورمختلف طریقوں سے غلاموں کو مالی اعانتیں دیں اہل عوالی کے مزدوری پیشہ غلاموں کی مردم شماری کرائی اوران کے روزینے جاری کئے، حضرت عثمانؓ نے اس کو اورترقی دی اورخوراک کے ساتھ کپڑے بھی مقرر فرمائے، حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ ہفتہ کے روز عوالی کو جاتے اورجو غلام ضعیف نظر آتے ان کے ٹیکس معاف کردیتے۔ حضرت عثمانؓ نے عام طورپر یہ ہدایت کی کہ جو لونڈی کوئی پیشہ نہیں جانتی اورجو غلام صغیر السن ہیں ان کو کسی پیشہ کی تکلیف نہ دی جائے ورنہ ناجائز طریقے سے وہ روزینہ پیدا کریں گے، لیکن اس کے ساتھ ان کو عمدہ کھانا دیا جائے۔ (موطا امام مالک کتاب الجامع باب الامر بالرفق بالملوک) غلاموں کی تعلیم سب سے بڑھ کر یہ کہ صحابہ کرام نےغلاموں کو تعلیم بھی دلائی، ایک بار چند عیسائی غلام پکڑ کر آئے، تو حضرت عمرؓ نے ان کو مکتب میں داخل کردیا۔ (فتوح البلدان،صفھہ۱۴۹) حضرت عثمانؓ نے حمران بن ابان کو خرید کر لکھنا سکھایا اوراپنا میر منشی بنایا،(فتوح البلدان ،صفحہ ۳۶۰) بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ مکاتب میں آزاد بچوں کے ساتھ بہت سے غلاموں کے لڑکے بھی تعلیم پاتے تھے ؛چنانچہ ایک بار حضرت ام سلمہؓ نے اون صاف کرنے کے لئے مکتب سے لڑکے طلب کئے تو کہلا بھیجا کہ آزاد بچے نہ بھیجے جائیں۔ (بخاری کتاب الدیات باب من استعار عبدااوصبیا) غلاموں کو امان دینے کا حق دینا امان دینے کا حق صرف فاتح قوم کو حاصل ہوتا ہے؛ لیکن خلفاء نے یہ حق خود غلاموں کو بھی دیا، چنانچہ ایک بار مسلمانوں نے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ایک غلام نے محصور فوج کو امان دیدی ،تمام مسلمانوں نے کہا اس کا اعتبار نہیں ہے؛ لیکن ان لوگوں نے کہا ہم آزاد اورغلام کو نہیں جانتے، اب اس باب میں حضرت عمرؓ سے معلوم کیا گیا تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ مسلمانون کے غلاموں کا معاہدہ خود مسلمانوں کا معاہدہ ہے۔ (فتوح البلدان،صفحہ۳۹۸) غلاموں کی عزت و آبرو کی حفاظت خلفاء راشدین لونڈیوں اورغلاموں کی عزت و آبرو کا اسی قدر پاس کرتے تھے جس قدر ایک آزاد مرد یا آزاد عورت کا کیا جاسکتا ہے، ایک بار ایک غلام نے کسی لونڈی کی ناموس پر ناجائز حملہ کیا اورحضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو غلام کو جِلا وطن کردیا۔ (موطا امام محمد باب الاستکراہ فی الزناء) مساوات ان حقوق کے علاوہ ذاتی طورپر خلفائےراشدینؓ غلاموں کو عام مسلمانوں کے برابر سمجھتے تھے؛چنانچہ اس کی بعض مثالیں حسن معاشرت کے عنوان میں گذر چکی ہیں۔ ان تمام مراتب کے پیش نظر ہوجانے کے بعد صاف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صحابہ کرام کے زمانے میں شخصی اورملکی دونوں حیثیتوں سے غلام غلام نہیں رہے تھے؛ بلکہ مسلمانوں کے ایک فرد بن گئے تھے۔