انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تلاوتِ قرآن مجیدکی فضیلت اور اُس کے حقوق وفوائد قرآن مجید کی تلاوت قرآن مجید کی تلاوت بھی "ذکراللہ" کی ایک قسم ہے اور بعض حیثیتوں سے سب سے افضل اور اعلیٰ قسم ہے، اس میں بندے کی مشغولیت اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے، حضرت مولانا محمدمنظور رنعمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بلاشبہ اللہ تعالیٰ تشبیہ اور مثال سے وراء الورا (پاک) ہے لیکن ناچیز راقم سطور نے اس حقیقت کو اپنے ذاتی تجربہ سے خوب سمجھا ہے کہ جب کبھی کسی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ میری لکھی ہوئی کوئی کتاب قدر اور توجہ سے پڑھ رہا ہے تو دل سرور سے بھرگیا اور اس شخص سے ایک خاص تعلق اور لگاؤ پیدا ہوگیا، اب تعلق اور لگاؤ جو بہت سے قریبی عزیزوں، دوستوں سے بھی نہیں ہوتا؛ بہرحال میں نے تو اپنے اسی تجربہ سے یہ سمجھا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنے پاک کلام قرآن مجید کی تلاوت کرتے سنتا اور دیکھتا ہوگا تو اس بندہ پر اس کو کیسا پیار آتا ہوگا (الا یہ کہ اپنے کسی شدید جرم کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور نظرکرم کا مستحق ہی نہ ہو)۔ (معارف الحدیث، کتاب الاذکار والدعاء: ۳/۶۷، مطبوعہ: دارالاشاعت، پاکستان) قرآن کریم کی عظمت وفضیلت قرآن مجید کی بے انتہا عظمت کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ کلام اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی صفت ہے واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے؛ یہاں تک کہ زمینی مخلوقات میں کعبۃ اللہ اور انبیاء علیہم السلام کی مقدس ہستیاں اور عالم غیب کی مخلوقات میں عرش، کرسی، لوح وقلم، جنت اور جنت کی نعمتیں اور اللہ کے مقرب ترین فرشتے یہ سب اپنی معلوم ومسلم عظمت کے باوجود غیراللہ اور مخلوق ہیں؛ لیکن ذاتِ عالی کے ساتھ قائم ہیں، یہ اللہ پاک کا بے انتہاء کرم اور اس کی عظیم ترنعمت ہے کہ اس نے اپنے رسول امینﷺ کے ذریعہ وہ کلام ہم تک پہنچایا اور ہمیں اس لائق بنایا کہ اس کی تلاوت کرسکیں اور اپنی زبان سے اس کو پڑھ سکیں؛ پھراس کو سمجھ کر اپنی زندگی کا راہنمابناسکیں، قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طورسینا کی مقدس وادی میں ایک مبارک درخت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا کلام سنوایا تھا، کتنا خوش قسمت تھا وہ بے جان درخت جس کو حق تعالیٰ نے اپنا کلام سنوانے کے لیے بطورِ آلہ استعمال فرمایا تھا، جو بندہ اخلاص اور عظمت واحترام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اس کو اس وقت شجرۂ موسوی والا یہ شرف نصیب ہوتا ہے اور گویا وہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے کلامِ مقدس کا ریکارڈ ہوتا ہے، حق یہ ہے کہ انسان اس سے آگے کسی شرف کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس مختصر تمہید کے بعد قرآن مجید کی عظمت وفضیلت کے بیان میں رسول اللہ کی مندرجہ ذیل چند احادیث پڑھیے: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو قرآن نے میرے ذکر سے اور مجھ سے سوال اور دعا کرنے سے باز رکھا، میں اس کو اس سے افضل عطا کرونگا جو سائلوں اور دعا کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں اور دوسرے اور کلاموں کے مقابلہ میں اللہ کے کلام کو ویسی ہی عظمت وفضیلت حاصل ہے جیسی اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے مقابلہ میں۔ (ترمذی، باب ماجاء کیف کانت قرأۃ النبیﷺ، حدیث نمبر:۲۸۵۰۔ شعب الایمان، باب من شغلہ قرأۃ القرآن، حدیث نمبر:۱۹۵۹) حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا: "آگاہ ہوجاؤ ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے" میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس فتنہ کے شر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے امتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں (یعنی اعمال واخلاق کے جو دنیوی واخروی نتائج وثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں، قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے) اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں ان کا حکم اور فیصلہ موجود ہے (حق وباطل اور صحیح وغلط کے بارے میں) وہ قول فیصل ہے، وہ فضول بات اور یادہ گوئی نہیں ہے، جو کوئی جابروسرکش اس کو چھوڑے گا (یعنی غرور وسرکشی کی راہ سے قرآن سے منہ موڑے گا) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئیگی (یعنی وہ ہدایت حق سے محروم رہے گا) قرآن ہی حبل اللہ المتین یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ ہے اور محکم نصیحت نامہ ہے اور وہی صراطِ مستقیم ہے، وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں اور زبانیں اس کو گڑبڑ نہیں کرسکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہوگئی اور محرفین (تحریف کرنے والوں) نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کردیا اس طرح قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوسکے گی، اللہ تعالیٰ نے تاقیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرمادیا ہے) اور علم والے کبھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبر کا عمل اور اس کے حقائق ومعارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہیگا اور کبھی ایسا وقت نہیں آئیگا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کرلیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہا؛ بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہیگا کہ وہ علم قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہیں گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہوگا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے) اور وہ قرآن کثرت مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہوگا (یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا، قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ جتنا پڑھا جائیگا اس میں تفکر وتدبر کیا جائیگا اتنا ہی اس کے لطف ولذت میں اضافہ ہوگا) اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق ولطیف حقائق ومعارف) کبھی ختم نہیں ہوں گے، قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بے اختیار بول اٹھے "اِنَّاسَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَّھْدِیٰٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّابِہٖ" (الجن:۲،۱) ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے، رہنمائی کرتا ہے پس ہم اس پر ایمان لے آئے، جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحق اجروثواب ہوا اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل وانصاف کیا اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہوگئی۔ (ترمذی، باب ماجاء فی فضل القرآن، حدیث نمبر:۲۸۳۱۔ المعجم الکبیر، باب معاذبن جبل الأنصاری، عقبی بدری یکنی ابی عبدالرحمن، حدیث نمبر:۱۶۰) قرآن کا معلم اورمتعلّم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر اور افضل بندہ وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔ (بخاری، باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، حدیث نمبر:۴۶۳۹۔ ترمذی، باب ماجاء فی النھی عن سب الریاح، حدیث نمبر:۲۱۸۹) حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صرف دوآدمی قابلِ رشک ہیں (اور ان پر رشک آنا برحق ہے) ایک وہ جس کو اللہ نے قرآن کی نعمت عطا فرمائی؛ پھروہ دن رات اس میں لگارہتا ہے اور دوسرا وہ خوش نصیب آدمی جس کو اللہ نے مال ودولت سے نوازا اور وہ دن اور رات راہِ خدا میں اس کو خرچ کرتا رہتا ہے۔ (بخاری، باب قول النبیﷺ رجل آتاہ، حدیث نمبر:۶۹۷۵۔ مسلم، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ، حدیث نمبر:۱۳۵۰) قرآن کے خاص حقوق حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے قرآن والو! قرآن کو اپنا تکیہ اور سہارا نہ بنالو بلکہ دن اور رات کے اوقات میں ان کی تلاوت بھی کیا کرو جیسا کہ اس کا حق ہے اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو دلچسپی سے اور مزہ لے لے کر پڑھا کرو اور اس میں تدبر کرو امید رکھو کہ تم اس سے فلاح پاجاؤ گے اور اس کا عاجل (دنیا میں) معاوضہ لینے کی فکر نہ کرو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا عظیم ثواب اور معاوضہ (اپنے وقت پر) ملنے والا ہے۔ (شعب الایمان، باب یااھل القرآن لاتوسدواالقرآن، حدیث نمبر:۱۹۵۱۔ جمع الجوامع اوالجامع الکبیر للسیوطی، باب حرف المیاء، حدیث نمبر:۵۹۵) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جن بندوں کو قرآن کی دولت نصیب فرمائی ہے وہ اسی پر تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائیں کہ ہمارے پاس قرآن ہے اور ہم قرآن والے ہیں؛ بلکہ انہیں چاہیے کہ قرآن مجید کے حقوق ادا کریں، رات اور دن کے اوقات میں اس کو حق کے مطابق اس کی تلاوت کیا کریں، اس کو اور اس کے پیغام ہدایت کو دوسروں تک پہنچائیں اس کو مزہ لے لے کر پڑھیں، اس کے احکام، اس کے ہدایات، اس کے قصص اور نصائح پر غوروفکر کیا کریں؛ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کی فلاح کی پوری امید ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ قرآن کے اس پڑھنے اور پڑھانے اور اس کی خدمت کا معاوضہ دنیا ہی میں نہ چاہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اپنے وقت پر اس کا بڑا غیرمعمولی معاوضہ اور عظیم صلہ ملنے والا ہے۔ قرآن اور قوموں کا عروج وزوال حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کتابِ پاک (قرآن مجید) کی وجہ سے بہت سوں کو اونچا کریگا اور بہت سوں کو نیچے گرائیگا۔ (مسلم، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ، حدیث نمبر:۱۳۵۳۔ ابن ماجہ، باب فضل من تعلم القرآن وعلمہ، حدیث نمبر:۲۱۴) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی صفت قائمہ اور بندوں کے لیے اس کا فرمان اور عہدنامہ ہے اس کی وفاداری اور تابعداری اللہ تعالیٰ کی وفاداری اور تابعداری ہے، اسی طرح اس سے انحراف اور بغاوت اللہ تعالیٰ سے انحراف اور سرکشی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ جو قوم اور جو امت خواہ وہ کسی نسل سے ہو اس کا کوئی بھی رنگ اور کوئی زبان ہو، قرآن مجید کو اپنا راہنما بناکر اپنے کو اس کا تابعدار بنادیگی اور اس کے ساتھ وہ تعلق رکھے گی جو کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے اس کا حق ہے، اللہ تعالیٰ اس کو دنیا اور آخرت میں سربلند کریگا اور اس کے برعکس جو قوم اور امت اس سے انحراف اور سرکشی کریگی وہ اگر بلندیوں کے آسمان پر بھی ہوگی تو نیچے گرادی جائیگی۔ اسلام اور مسلمانوں کی پوری تاریخ اس حدیث کی صداقت کی گواہ اور اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ کی آئینہ دار ہے، اس حدیث میں "قواما" کے لفظ سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ عروج وزوال کے اس الٰہی قانون کا تعلق افراد سے نہیں بلکہ قوموں اور امتوں سے ہے۔ تلاوتِ قرآن کا اجروثواب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جس نے قرآن پاک کا ایک حرف پڑھا اس نے ایک نیکی کمالی اور یہ کہ ایک نیکی اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دس نیکیوں کے برابر ہے (مزید وضاحت کے لیے آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا (میرا مطلب یہ نہیں ہے) کہ "الٓم" ایک حرف ہے بلکہ "الف" ایک حرف ہے "لام" ایک حرف ہے اور "میم" ایک حرف ہے (اس طرح "الٓم" پڑھنے والا بندہ تیس نیکیوں کے برابر ثواب حاصل کرنے کا مستحق ہوگا)۔ (ترمذی، باب ماجاء فیمن قرأ حرفا من القرآن، حدیث نمبر:۲۸۳۵۔ شعب الایمان، باب من قرأحرفاً من القرآن کتب اللہ لہ حسنۃ، حدیث نمبر:۱۹۲۷) اللہ تعالیٰ کا یہ کریمانہ قانون کہ ایک نیکی کرنے والے کو دس نیکیوں کے برابر ثواب عطا ہوگا، واضح طور پر قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا گیا: "مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُاَمْثَالِھَا"۔ (الانعام:۱۲۰) "جو بندہ ایک نیکی لیکر آئیگا اس کو اس جیسی دس نیکیوں کا ثواب دیا جائیگا"۔ اس حدیث سے ایک واضح اشارہ یہ بھی ملاکہ قرآن مجید کی تلاوت پر ثواب کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ تلاوت کے معنی مفہوم سمجھ کر ہی ہو؛ کیونکہ "الٓم" اور سارے حروفِ مقطعات کی تلاوت معنی مفہوم سمجھے بغیر ہی کی جاتی ہے اور حدیث نے صراحتاً بتلایا کہ ان حروف کی تلاوت کرنے والوں کو بھی ہرحرف پر دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ تلاوتِ قرآن کا فائدہ حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی آدم کے قلوب پر اس طرح زنگ چڑھ جاتا ہے، جس طرح پانی لگ جانے سے لوہے پر زنگ آجاتا ہے، عرض کیا گیا کہ حضورﷺ! دلوں کے اس زنگ کو دور کرنے کا ذریعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایاکہ موت کو زیادہ یادکرنا اور قرآن کریم کی تلاوت۔ (شعب الایمان، باب القلوب تصدأ، حدیث نمبر:۱۹۵۸۔ مسندالشھاب القضاعی، حدیث نمبر:۱۰۹۰) قلب کا زنگ یہ ہے کہ وہ اللہ سے اور آخرت کے انجام سے غافل اور بے فکر ہوجائے، یہ سارے چھوٹے بڑے گناہوں کی جڑ اور بنیاد ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن میں مہارت حاصل کرلی ہو (اور اس کی وجہ سے وہ اس کو حفظ یاناظرہ بہتر طریقے پر اور بے تکلف رواں پڑھتا ہو) وہ معزز اور وفادار وفرمانبردار فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو بندہ قرآن پاک (اچھا یاد اور رواں نہ ہونے کی وجہ سے زحمت اور مشقت سے) اس طرح پڑھتا ہو کہ اس میں اٹکتا ہو تو اس کو دواجر ملیں گے (ایک تلاوت کا اور دوسرے زحمت ومشقت کا)۔ (مسلم، باب فضل الماھرفی القرآن والذی یتتعتع فیہ، حدیث نمبر:۱۳۲۹۔ بخاری، باب قول النبیﷺ الماھربالقرآن) حضرت معاذ جھنی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس نے قرآن پڑھا اور اس میں جو کچھ ہے اس پر عمل کیا، قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایساتاج پہنایا جائیگا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ حسین ہوگی، جب کہ وہ روشنی دنیا کے گھروں میں ہو اور سورج آسمان سے ہمارے پاس ہی اتر آئے (اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا) پھر تمہارا کیا گمان ہے خود اُس آدمی کے بارے میں جس نے خود یہ عمل کیا ہو؟۔ (ابوداؤد، باب فی ثواب قرأۃ القرآن، حدیث نمبر:۱۲۴۱۔ شعب الایمان، باب من قرأ القرآن وعمل بمافیہ ألبس والداہ، حدیث نمبر:۱۸۹۳) حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ارشاد فرماتے تھے کہ قرآن پڑھا کرو، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا شفیع بن جائیگا (خاصکر) "زہراوین" یعنی اس کی دواہم نورانی سورتیں البقرۃ اور اٰل عمران پڑھاکرو، وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کو اپنے سایہ میں لیے اس طرح آئیں گے جیسے کہ وہ ابرکے ٹکڑے ہیں یاسائبان ہیں یاصف باندھے پرندوں کے پر ہیں یہ دونوں سورتیں قیامت میں اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے مدافعت کریں گی (آپ ﷺ نے فرمایا) بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کو حاصل کرنا بڑی برکت والی بات ہے اور اس کو چھوڑنا بڑی حسرت اور ندامت کی بات ہے اور اہل بطالت اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مسلم، باب فضل قرأۃ القرآن و البقرۃ، حدیث نمبر:۱۳۳۷۔ مسنداحمد، حدیث ابی امامۃ الباھلی، حدیث نمبر:۲۲۲۰۰) اس حدیث کے بعض راویوں نے کہا ہے کہ اہل بطالت سے مراد "ساحرین" ہیں اور مطلب یہ ہے کہ بقرۃکی تلاوت کا معمول رکھنے والے پر کبھی کسی کا جادو نہیں چلے گا۔ (ھامش شعب الایمان، باب اقرأ والقرآن فانہ یاتی شفیعا لصاحبہ، حدیث نمبر:۱۹۲۴) مذکورہ احادیث میں تلاوت قرآن کے فوائد میں اخروی اکرام واعزاز کے علاوہ دنیوی فوائد دل کا میل اور زنگ کا دور ہونا وغیرہ بتایا گیا ہے اس کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ایک فائدہ یہ بتلایا کہ جب آدمی بغور تلاوت کرتا ہے یاوعظ ونصیحت سنتا ہے اور اس کو دل میں اتارتا ہے تو اللہ کا ڈر اور اللہ سے امید اور عظمت الہٰی کے سامنے حیرانی طاری ہوتی ہے؛ نیزاحساناتِ خداوندی جو قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان کئے گئے ہیں اور قدرت کی کرشمہ سازی جس کا بار بار تذکرہ آتا ہے، آدمی کا نفس ان مضامین میں ڈوب جاتا ہے اور خوابیدہ طبیعت جاگ اٹھتی ہے اور نفس میں ملکوتی انوار کے فیضان کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اسی وجہ سے یہ دونوں باتیں موت کے بعد انسان کے لیے بے حد نفع بخش ثابت ہوتی ہیں اور قبر میں نکیرین کے سوالات کے صحیح جوابات دینے میں ان دونوں باتوں سے بڑی مدد ملتی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص فرشتوں کے سوالات کے صحیح جوابات نہیں دیگا، فرشتے اس سے کہیں گے کہ "تونے نہ تو حق کو پہچانا اور نہ تونے قرآن کریم کی تلاوت کی؛ پھرتو صحیح جوابات کیسے دے سکتا ہے؟ تجھے امتحان میں فیل ہونا تھا جو ہوگیا"۔ (بخاری، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث نمبر:۱۲۵۲۔ ابوداؤد، باب فی المسألۃ فی القبر وعذاب القبر، حدیث نمبر:۴۱۲۶۔ حجۃ اللہ البالغہ، باب اسرار انواع من البر، ومنھا تلاوۃ القرآن:۱/۱۵۹، مصنف: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ) 1