انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عقبہ کی شہادت ساحلِ سمندر سے ہٹ کرعقبہ نے قیروان کی جانب واپسی کا ارادہ کیا، اب تمام شمالی افریقہ فتوحاتِ اسلامی میں شامل ہوچکا تھا، واپسی میں عقبہ نے فوج کے کئی حصے کرکے الگ الگ روانہ کئے اور ایک حصہ اپنی معیت میں رکھا، اثناء سفر میں ایک مقام ایسا آیا کہ وہاں پانی دستیاب نہ ہوا، لوگ پیاس کے مارے مرنے لگے، عقبہ بن نافع نے جناب الہٰی میں دُعا کی، اس وقت ان کا گھوڑا اپنا پاؤں زمین پرمارنے لگا اور وہیں سے چشمہ پھوٹ کرپانی بہنے لگا، تمام لشکر سیراب ہوا اور اس چشمہ کا نام ماءالفرس مشہور ہوا، جوآج تک اسی نام سے مشہور ہے، وہاں سے جب عقبہ اپنے چھوٹے سے لشکر کے ساتھ روانہ ہوکر مقام ہتوذا میں پہنچے تورومیوں اور بربریوں نے ان کے ساتھ تھوڑی سی جمیعت دیکھ کرمقابلہ کا اردہ کیا؛ حالانکہ یہ سب مطیع ومنقاد ہوچکے تھے، کسیلہ نے جوعقبہ کے ساتھ تھا اس موقع پرمناسب سمجھ کراور جدا ہوکر رومیوں کی شرکت اختیار کی، اپنی قوم کی ہمت کوبھی بڑھایا اور ایک لشکرِ عظیم چڑھالایا اور چاروں طرف سے اس قلیل جمعیت کوگھیرلیا، مٹھی بھر مسلمانوں نے تلواریں سونت لیں اور دشمنوں کے قتل کرنے میں مصروف ہوگئے، بہت سے رومیوں اور بربریوں کوتلوار کے گھاٹ اُتار کرلاشوں کے ڈھیرلگادیئے اور خود بھی ایک ایک کرکے شہید ہوگئے اور عقبہ بن نافع کی آرزوئے شہادت پوری ہوئی۔ کسیلہ عقبہ کی شہادت کے بعد اپنا لشکرِعظیم لیے ہوئے قیروان کی طرف بڑھا، قیروان میں جب عقبہ کے شہید ہونے اور لشکرِعظیم کے قریب پہنچنے کی خبر پہنچی توزہیر بن قیس ے مقابلہ کی تیاری کی؛ لیکن فوج کے اندر آپس میں اختلاف اور نااتفاقی پیدا ہوگئی، زہیر بن قیس مشکلات پرغالب نہ آسکے، مجبوراً مسلمانوں کوقیروان چھوڑ کربرقہ کی طرف آنا پڑا اور کسیلہ قیروان پرقابض ومتصرف ہوگیا۔