انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافتِ راشدہ خلافت کا تعارف خلافت اورخلیفہ خلیفہ کے معنی جانشین اور خلافت کے معنی جانشینی ہیں ؛لیکن اصطلاح شرع اوراصطلاح مورخین میں خلیفہ کے معنی بادشاہ یا شہنشاہ کے قریب قریب مراد لئے جاتے ہیں،ایک مورخ کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ سلسلہ ٔ تاریخ اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرصدیق خلیفہ اول کے واقعات خلافت شروع کرنے سے پہلے لفظ خلیفہ یا خلافت کی بحث میں اپنا اور قارئین کرام کا وقت صرف کرے ؛لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا مسئلہ ایک اخلاقی مسئلہ بن کر دو قوموں میں مخالفت کا باعث بن گیا ہے اوراس مخالفت نے مؤرخین، تاریخی روایات،تاریخی تصانیف اورمورخین کے ادائے بیان پر بھی اپنا اثر ڈالا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک واقعہ نگار کا کام کسی قدر دشوار ہوگیا،نیز تاریخ اسلام لکھنے والے کے لئے ضروری ہوگیا کہ وہ قارئین تاریخ کو کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لئے مسئلہ خلافت کے متعلق اپنا مسلک اور عقیدہ پہلے بیان کردے اس کے بعد خلافت راشدہ کے حالات وواقعات بیان کرے۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں خلیفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بعد الارض کا لفظ بھی ضرور آیا ہے اور "إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً" سے ثابت ہوا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے آدمی یعنی بنی آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے ،بنی آدم کا اشرف المخلوقات ہونا ظاہر اور نوع انسان کا زمینی مخلوقات پر حکمراں ہونا عیاں ہے پس یہ خلافت انسان کی جو زمین کے ساتھ مخصوص ہے یقیناً خلافت الٰہیہ ہے اور نوع انسان خلیفۃ اللہ ؛لیکن خدائے تعالیٰ کی ذات جو سب کی خالف ومالک ہے،اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے کہ من کل الوجوہ کوئی مخلوق چاہے وہ اشرف المخلوقات ہی کیوں نہ ہو اس کی جانشین یعنی خلیفہ ہوسکے پس نوع انسان کی خلافت الہیہ من وجہ تسلیم کرنی پڑے گی اور وہ بجز اس کے اورکچھ نہیں ہوسکتی کہ جس طرح خدائے تعالیٰ تمام موجودات مخلوقات کا حقیقی حکمراں اورشہنشاہ ہے اسی طرح زمین میں صرف نوع انسان ہی تمام دوسری مخلوقات پر بظاہر حکمراں نظر آتی ہے اور ہر چیز اورہر زمینی مخلوق سے اپنی فرماں برداری انسان کرالیتا ہے پس ثابت ہوا کہ "إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً "میں خلیفہ سے مراد حکمران ہے نہ اور کچھ، ایک جگہ قرآن کریم میں فرمایا ہے "وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ"یہاں انسان کی اس عام خلافت میں تخصیص موجود ہے مدعایہ ہے کہ تمہاری قوم کو حکمراں قوم بنایا یعنی دوسری انسانی قومیں تمہاری محکوم ہیں اور تم حکمراں قوم ہو،یہاں بھی وہی خلیفہ کا لفظ موجود ہے،جس کے معنی بجز حکمراں کے اور کچھ نہیں،پھر ایک جگہ فرمایا کہ"يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ"یہاں بھی ایک شخص یعنی حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت وسلطنت کا ذکر ہے،یہاں بھی خلیفہ کا لفظ موجود ہے جس کے معنی بادشاہ یا شہنشاہ کے سوا اورکچھ نہیں، حضرت داؤد علیہ السلام کی اسی حکومت وسلطنت کے متعلق دوسری جگہ ارشاد فرمایا "وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ"(ہم نے ان کی سلطنت کو مضبوط کیا،پھر خاص مسلمانوں بالخصوص صحابہ کرام کی نسبت فرمایا "وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ" یعنی جس طرح زمین میں ہم نے دوسرے لوگوں کو حکمراں بنایا تھا، اسی طرح تم میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ بجالائے ،ان کو زمین میں حکمرانی عطا کی جائے گی۔