انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** اُسامہ کی کامیابی حضرت اُسامہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق درون وبلقا کی وادیوں میں پہنچ کر رومیوں کے لشکر سے لڑائی شروع کردی ،رومیوں کو شکست دے کر اوربے شمار مالِ غنیمت اورقیدی لے کر چالیس دن بعد مدینہ میں واپس آئے، اس لشکر کی روانگی بظاہر بے حد خطرناک معلوم ہوتی تھی،مگر اس کے نتائج اسلام اورمسلمانوں کے لئے بے حد مفید ثابت ہوئے،ملک کی اس شورش وبدامنی کے زمانے میں لشکر اسلام کا اس طرح رومیوں پر حملہ آور ہونا گویا تمام مرتدین اور باغیوں کو بتادینا تھا کہ ہم تمہاری ان سرکشیوں اور تیاریوں کو ایک پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتے،اس ہمت و طاقت کے عملی اشتہار واعلان نے سرکشوں اورباغیوں کے حوصلوں کو پست کرکے ان کو فکر و تردد میں مبتلا کردیا اوروہ بجائے اس کے کہ بے تحاشہ سب کے سب مسلمانوں کی بیخ کنی پر پل پڑتے اپنی اپنی جگہ یہ تحقیق کرنے لگے کہ مسلمانوں کو مغلوب کیا جاسکتا ہے یا نہیں،یہی وجہ ہے کہ طلیحہ اسدی اور مسیلمہ کذاب وغیرہ وغیرہ مدعیان نبوت اپنے اپنے علاقوں سے باہر قدم نہیں نکال سکے اور منکرین زکوٰۃ وغیرہ سرکش قبائل مخالفتِ اسلام کا قطعی فیصلہ نہ کرسکے، حضرت اسامہؓ کا رومیوں کے لشکر پر فتح مند ہونا اور سالماً غانماً واپس آنا اوراُس خبر کا ملک میں شہرت پانا اور بھی مفید ثابت ہوا،چونکہ مالِ غنیمت بھی خوب ہاتھ آگیا تھا،لہذا آئندہ سرکشوں کو درست کرنا اورملک کے امن وامان کو بحال کرنے میں اس غنیمت سے مسلمانوں کو بڑی امداد ملی اور فوجی دستوں کی روانگی میں سامان سفر کی تیاریاں زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوسکیں۔