انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت علی بن مسہر کوفیؒ نام ونسب نام علی،کنیت ابو الحسن اوروالد کا اسم گرامی مسہر تھا، ولاء قرشی اور وطناً کوفی کہلاتے ہیں۔ (طبقات ابن سعد:۷/۲۷) فضل وکمال انہیں تمغۂ امتیاز حاصل تھا؛چنانچہ حافظ ذہبی نے الامام الحافظ لکھ کر اس کا اعتراف کیا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۵) حدیث حدیثِ نبوی میں ان کی معرفت اورعمق مسلم تھا جن شیوعِ حدیث سے انہوں نے سماع کا شرف حاصل کیا تھا،ان میں ہشام ابن عروہ سلیمان الاعمش،یحییٰ بن سعید الانصاری،اسماعیل بن ابی خالد، عاصم الاحول ،زکریا بن ابی زائدہ، سعید بن ابی عروبہ، عبداللہ بن عطاء اورابو مالک الاشجعی کے نام لائق ذکر ہیں اور ابوبکر بن ابی شیبہ،زکریا بن عدی، بشر بن آدم، خالد بن مخلد، علی بن حجر، ہناد بن السری اورعثمان بن ابی شیبہ، ان کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۸۳) فقہ فقہ سے بھی انہیں بہرہ وافر نصیب تھا،احمد العجلی بیان کرتے ہیں کہ علی بن مسہر حدیث وفقہ دونوں کے جامع تھے۔ (شذرات الذہب:۱/۳۲۵،والعبر فی خبر من غبر:۱/۳۰۳) ثقاہت ان کی عدالت وثقاہت ناقدین فن کے نزدیک متفق علیہ ہے ؛چنانچہ علامہ نووی نے لکھا ہے کہ 'اتفقوا علی توثیقہ'(تہذیب الاسماء واللغات:۱/۳۵۱) امام احمد کا بیان ہے کہ وہ صالح الحدیث اورابو معاویہ الفریز سے زیادہ ثقہ وثبت تھے (العبر:۱/۳۰۳)عثمان الدارمی کہتے ہیں کہ "میں نے شہرہ آفاق محدث اورماہر رجال یحییٰ بن معین سے دریافت کیا کہ آپ علی بن مسہر کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا ابو خالد الاحمر کو؟فرمایا علی بن مسہر کو !میں نے پھر پوچھا،اچھا یہ بتلائیے کہ علی بن مسہر اوراسحاق بن ازرق میں سے کس کو محبوب رکھتے ہیں؟فرمایا وہ دونوں ہی ثقہ ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۷/۳۸۳) مزید برآں امام بخاری اورامام مسلم نے بھی اپنی صحیحین میں ان کی روایات کی تخریج کی ہے۔ (تہذیب الاسماء واللغات:۱/۳۵۱) قضاء ت اپنی غیر معمولی مہارت فقہی کے باعث موصل (عراق)کے منصب قضاء پر بھی فائز ہوئے (اخبار القضاۃ:۳/۳۲۵) لیکن افسوس ہے کہ یہاں وہ ایک نہایت المناک واقعہ سے دوچار ہوئے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مرتبہ اپنے عہدۂ قضا کے دوران ابن مسہر آشوبِ چشم میں مبتلا ہوئے اور علاج کی غرض سے ایک ماہر چشم طبیب کے پاس گئے،ابن مسہر سے قبل جو شخص اس مقام کا قاضی رہ چکا تھا،اس نے ازراہ حسد وکینہ پروری اس معالج کو مال وزر کی حرص دلا کر کہا کہ ابن مسہر کی بینائی زائل کردو؛چنانچہ وہ طبیب طمع میں آکر ایسا ہی کر گذرا اور پھر ابن مسہر نابینا ہوکر بصد حسرت ویاس اپنے وطن مالوُف کوفہ واپس آگئے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۶۵) علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ ابن مسہر آرمینیہ کے قاضی تھے اور نابینائی کا واقعہ وہیں پیش آیا،لیکن دوسرے تذکروں میں صرف موصل ہی کا ذکر ملتا ہے،ممکن ہے دونوں ہی جگہ یکے بعد دیگرے منصبِ قضا کو عزت دی ہو۔ قوتِ حافظہ ابن مسہر کی قوتِ حافظہ کا اندازہ صرف اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ بصارت زائل ہونے کے بعد بھی ان کا چشمۂ فیض جاری رہا،اوروہ محض اپنے حافظہ کی بنیاد پر احادیث روایت فرمایا کرتے تھے،امام احمد کا قول ہے: کان قد ذھب بصرہُ فکان یحدثھم من حفظہ (تہذیب التہذیب:۷/۳۸۳) ان کی بینائی زائل ہوگئی تھی تو اپنے حافظہ سے حدیث روایت کرتے تھے۔ وفات ۱۸۹ھ میں ان کا انتقال ہوا(العبر فی خبر من غبر:۱/۳۰۳)علماء نے بالاتفاق لکھا ہے کہ ان کی تدفین کے ساتھ فقہ میں تبحر ومہارت فن کا ایک دور ختم ہوگیا۔ (تہذیب :۷/۳۸۳)