انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت سیّد احمد شہیدؒ (۱)تہذیبِ اخلاق اور ادائے طاعات سے اصلی مقصود تو نفس کا سنوارنا اور اصلاح کرنا ہے ، تاکہ وہ مطمئن ہوجائے، اور بدعات سے پاک ہوجائے اور بری عادتوں سے نفس کا پاک ہو نا ہی نیک عادتوں کے ساتھ اس کا موصوف ہونا ہے ۔ (۲)عام اہل سلوک جو اس کو نفس کشی کا سے تعبیر کرتے ہیں محض خطا ہے کیونکہ نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نفس کو مارڈالنے کا حکم ہےاور نہ زندگی کے باووجود اس کا کرنا ممکن ہے اور جو ممکن ہے اس کی بجاآوری کاحکم ہے یعنی نفس کی اصلاح کرکے اسے احکام شرعیہ کا مطیع کیا جائے جیسے جاہل آدمی کو عالم بنادیا جائے ، پس اس کو مارڈالنے کی تعبیر کرنا غلط ہے ۔ (۳)بخل ،تکبر ، حسد ، غیبت ، حرام ، کینہ ، ریا ، کذب ، طمع اور حرص جیسی بری عادتوں کے ساتھ سالکان راہ حق کے نفوس کا آلودہ ہوجانا ، ان پر رحمانی فیض کے اترنے اور خدائی عنایات کے وارد ہونے کا انتہائی قوی مانع ہے، سلفِ صالحین ان رذائل کا تزکیہ نہایت ہی ضروری جانتے تھے اور ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے واسطے اپنے دل سے دور کرتے تھے ۔ (۴)علم سلوک جہاد کا تابع ہے ، اگر کوئی تمام دن روزہ رکھے ، تمام رات زہد و ریاضت میں بسر کرے یہاں تک کہ نوافل پڑھتے پڑھتے پیروں پر ورم آجائے اور دوسرا شخص جہاد کی نیت سے دن یا رات کی ایک گھڑی نیند میں کاٹ دے تاکہ کفار کے مقابلہ میں بندوق اٹھاتے وقت آنکھ نہ جھپکے تو وہ عابد اس مجاہد کے مرتبہ کو کسی طور نہیں پہونچ سکتا ۔