انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مولانا ابوالحسن علی ندویؒ (م:۱۴۲۰ھ) ۱۔ادب ادب ہے،خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان کی زبان سے نکلے،کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو،کسی آسمانی صحیفے میں ہو،اس کی شرط یہ ہے کہ بات اس انداز سے کی جائے کہ دل پر اثر کرے،کہنے والا مطمئن ہوکہ میں نے بات اچھی طرح کہہ دی،سننے والا اس سے لطف اٹھائے اور اس کو قبول کرے۔ قافلہ ادب اسلامی (جلد۵،شمارہ،۳،۴)،عالمی رابطہ ادب اسلامی ،پاکستان ۲۔تقدیر الہی نے ہمارے لئے جس دورکا انتخاب کیا اس کی ذمہ داریاں بہت ہیں،لیکن اس کا انعام اورسرفرازیاں بھی بڑھ چڑھ کرہیں،زمانہ کی شکست مردوں کا کام نہیں،جو وقت باقی رہ گیا ہے اس کی تیاری میں صرف کیجئے،زمانہ کی نزاکت اور اپنے کام کی عظمت سمجھئے اوراپنے آپ کو قیمتی اورکار آمد بنائیے ،تاکہ امت کے لئے قیمتی اورکار آمد ثابت ہوں۔ (پاجا سراغ زندگی،ص:۱۲۷) ۳۔مدرسہ کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں: "اگر آپ نے اس کا مفہوم یہ سمجھ لیا کہ ہم تعلیم سے فارغ ہوگئے،اب ہمیں تعلیم وتربیت کی کوئی ضرورت نہیں تو بلاکسی حجاب وتردد کے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آپ نے کچھ بھی نہیں سیکھا اورآپ کا ارادہ اپنے مقصد میں بالکل ناکام ہے اورہم لوگ بالکل ناکام ہیں، لیکن جیسا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ نے فارغ ہونے کایہ مفہوم نہیں سمجھا ؛بلکہ فارغ ہونے کا مفہوم آپ کے نزدیک بھی یہ ہے کہ آپ اس قابل ہو گئے کہ کتابوں کو ہاتھ لگاسکیں اورحسب ضرورت ان سے استفادہ کرسکیں ؛بلکہ یوں کہا جائے کہ آپ کو اب علم کے حاصل کرنے کی کنجی دے دی گئی تو زیادہ صحیح ہوگا،آپ اس کنجی کے ذریعے ہر قفل کو کھول سکتے ہیں اورعلم کے خزانے اپنے پاس جمع کرسکتے ہیں، آپ اس کنجی کو جتنا ہی استعمال کریں وہ اس قدر کام دیتی چلی جائے گی" (پاجاسراغ زندگی،ص:۲۰،۲۱) ۴۔اصل فیصلہ کن چیز،ملتوں اور قوموں کی تقدیر کو بدلنے والی حقیقت ،ممالک کا سیاسی وجنگی نقشہ یکسر تبدیل کرنے والی طاقت قلت وکثرت کا تناسب اورتسلیم شدہ صورت حال نہیں ہوتی،اصل انقلاب انگیز طاقت اورناممکن اورممکن بنانے والی چیز اس ہستی کا وجود ہے جو عزم وایمان کی خارق عادت طاقت سے سرشار ہو،صورت حال کو یکسر تبدیل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار اوراس کی راہ میں ہر طرح کی قربانی وجاں نثاری،خطر پسندی ومہم جوئی کے لئے مضطر وبے قرار ہو،اقبال نے اسی حقیقت کو اپنے خاص انداز میں اس طرح بیان کیا ہے: مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لا تخف صحبت پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ نکتہ فاش لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سر بکف (کاروان زندگی:۳/۲۷) ۵۔طلبہ اور مسلم نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "اس وقت آپ کو اپنی ذہانت کا ثبوت دینا ہے اور علم کا وہ نمونہ اور معیار سامنے لے کر آنا ہے جو زبان کے اعتبار سے،اسلوب کے اعتبار سے،مواد کے اعتبارسے ،مطالعہ،مذاہب اورتقابل ادیان کے اعتبار سے متوجہ کرنے والا ہو جس کو دیکھ کر زمانہ خود اس بات کا اعتراف کرے کہ آپ نے ایسی چیز سامنے رکھ دی جو واجب الاعتراف ہے، میں اس بات کو پھر دہراؤں گا کہ زمانہ بہت سی نئی چیزوں کا طالب ہے اور ان چیزوں سے بہت نازک اوراہم چیزوں کا طالب ہے جن کا ہمارے اسلاف سے طالب تھا: نگھہ بلند،سخن دل نواز،جان پر سوز یہی ہے رخت سفر میں کارواں کے لئے (پاجا سراغ زندگی ،ص:۸۹،۹۰) ۶۔اگر آپ محنت سے پڑھیں گے اورخاص طور پر عربی زبان اورعربی ودینی علوم میں اگر آپ یہاں رہ کر پختگی پیدا کریں گے تو پھر جامعہ،چاہے اس کی بڑی بڑی عمارتیں نہ ہوں اور جامعہ کی شان نظر نہ آتی ہو تو کچھ حرج نہیں، آپ جامعہ میں ہیں۔ (نشان منزل،ص:۱۹) ۷۔آج کا دور علم کا دور ہے،تعلیم کا دور ہے،تصنیف وتالیف کا دور ہے،تحقیق اورنقدواحتساب کا دور ہے،نبی الامی ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں بھی قلم کو ذریعہ تعلیم بتایا گیا ہے: "الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ" ان کی امت کو بھی صاحب قرطا س قلم ہونا چاہئے اور معلم الامم ہونا چاہئے اورادب و ادبی رجحانات اورادبی افکار کی نگران ومحتسب ہے اور پورے عالم کی ذہنی وفکری قیادت کی ذمہ دار ہے۔ (کاروان زندگی:۳/۲۳۳،۲۳۴) ۸۔نوجوان علماء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: " آپ کے پاس جو دولت ہے اس سے دنیاکا دامن خالی ہے،آپ کے سینہ میں علوم نبوت ہیں اور وہ حقائق ہیں جو دنیا میں گم ہوچکے ہیں اور جن کے گم ہونے سے آج عالم میں اندھیرا ہے،اضطراب وانتشار ہے،شروفساد ہے،آپ اپنے ان سادہ کپڑوں اور حقیر جسموں اوراس خالی جیب ودامن پر نظرنہ رکھیں،آپ دیکھیں کہ آپ کا سینہ دولتوں سے معمور اورآپ کےاندر کیسا بدر کامل مستور ہے" ۹۔قرآن نے نازل ہوکر علم کوایسا عزت ووقار بخشا ہے اور علماء کی ایسی قدر ومنزلت بڑھائی جس کی سابقہ صحیفوں اورقدیم مذہبوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی اور اس نے علم وعلماء کی ایسی تعریف کی جس کے ذریعہ اس نے انہیں انبیاء علیہم السلام کے درجہ کے نیچے اورتمام بشری درجات وطبقات کے اوپر پہنچایا،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ" (الزمر:۹) (تھذیب وتمدن پر اسلام کے اثرات واحسانات ،ص:۱۰۱،۱۰۲) ۱۰۔علماءسے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "آپ کے پاس نبوت محمدی ﷺ کے علماء کے پیش کئے ہوئے جو حقائق ہیں ان کو اپنی کم نظری سے پیش کرتے ہوئے آپ شرماتے ہیں کہ زمانہ سائنس اورسیاسیات اوراقتصادیات کی ترقی کا ہے، لیکن دنیا کا یہ حال ہے کہ آج وہ انہیں کے لئے بے تاب اورچشم براہ ہے،آج قومیں ان لوگوں کے انتظار میں ہیں جو ان کو زندگی کا نیا راستہ بتائیں اور محمد ﷺ کا پیغام حیات بنائیں"۔ (پاجا سراغ زندگی ،ص:۱۰۸،۱۰۹) ۱۱۔حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا مقصد دنیا کو جنت کی بشارت اورعذاب آخرت کی وعید پہنچانا تھا، آپ داعی الی اللہ اور سراج منیر بن کر آئے تھے کہ ساری دنیا کو روشن کریں۔ آپ مبعوث فرمائے گئے تھے کہ دنیا کو بندوں کی بندگی سے نکال کر صرف خدا کی بندگی میں داخل کریں،تمام لوگوں کی مادی زندگی کو کال کوٹھری سے نکال کر دنیا وآخرت کی وسعتوں میں پہنچادیں،مذاہب وادیان کی نا انصافیوں اورزیادتیوں سے نجات دے کر اسلام کے انصاف سے متمتع ہونے کا موقع دیں، آپ کا کا م نیکی کی ترغیب دینا،بدی سے منع کرنا،صاف وپاک چیزوں کو حلال،گندی وناپاک چیزوں کا حرام قرار دینا اور ان بندشوں وبیڑیوں کو توڑنا تھا جو انسانوں نے اپنی نادانی سے یا مذاہب اور حکومتوں نے زبردستی سے لوگوں کے پاؤں میں ڈال رکھی تھیں۔ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر،ص:۹۱) ۱۲۔پیغمبروں کا یہی کارنامہ ہے کہ انہوں نے صالح افراد تیار کئے،خدا سے ڈرنے والے،انسانوں سے محبت کرنے والے،دوسروں کے لئے تکلیف اٹھانے والے،اپنے پرائے کے معاملے میں انصاف کرنے والے،سچ بولنے والے،حق کا ساتھ دینے والے،مظلوم کی مدد کرنے والے،دنیا کے کسی فرد،کسی ادارہ اورکسی تربیت گاہ نے ایسے صالح افراد تیار نہیں کئے،دنیا کو اپنی ایجادوں پر ناز ہے، سائنس دانوں کو اپنی خدمات پر فخر ہے،لیکن پیغمبروں سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت کس نے کی ان سے زیادہ بیش قیمت چیز کس نے دنیا کو عطا کی،ان افراد نے دنیا کو گلزار بنادیا،ان کی وجہ سے دنیا کی ہر چیز کارآمد بن گئی اور ہردولت ٹھکانے لگی،آج بھی دنیا میں جو نیکی کا رجحان ، جو سچائی،انصاف اورانسانیت کی محبت پائی جاتی ہے وہ انہیں پیغمبروں کی کوشش اورتبلیغ کا نتیجہ ہے۔ (تعمیر انسانیت،ص:۹۹،۱۰۰) ۱۳۔انسان کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ وہ اپنی حقیقت کو سمجھے،اپنی حیثیت کو پہچانے اور یہ جانے کہ یہ ساری دنیا میرے لئے بنائی گئی ہے اورانسان ہی اس دنیا کی پیدائش کا مقصد ہے،انسان پر خود فراموشی کا طاری ہونا ایک خطرناک بیماری ہے؛جبکہ وہ یہ بھلادے کہ وہ کس مقام پر رکھا گیا تھا اور اس کی کیا حیثیت اورذمہ داری ہے،اسے کون سا پارٹ (Part) ادا کرنا ہے اور اس کا اس عالم کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ (تعمیر انسانیت،ص:۵۴،۵۵) ۱۴۔قرآن انسانوں کو زمین میں اپنا خلیفہ قراردیتا ہے،جسے اس کے اوامر کا نفاذ کرنا اور اس کی تعلیمات کے مطابق چلنا ہے،وہ محدود پیمانہ میں بااختیار خلیفہ ہے جو اپنے رب کے احکام کا پابند،اس کے آگے جواب دہ،اپنے عمل کی جزا پانے والا،اپنے ذاتی تصرف وانانیت کے لئے حساب پر مجبور اورافراط وتفریط ،محدود قوت،حیات گذراں،دنیائے فانی سے دھوکہ کھانے اوراپنے جیسے انسانوں کو غلام بنانے پر سزا کا مستحق ہے۔ (انسانی علوم کے میدان میں اسلام کا انقلابی وتعمیری کردار،ص:۵۷،۵۸) ۱۵۔آدمی کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے دل میں کیا مقام دیا ہے،اس کا معاملہ خود اپنی ذات کے ساتھ کیا ہے،اگر کسی نے اپنے کو ذلیل و حقیر ،مجبور بے بس،تہی دست وبے بضاعت اوردنیا کے بازار میں بے قیمت وبے ضرورت سمجھ لیا ہے تو اس کو دنیا سے کسی انصاف اورکسی اعزاز کی توقع نہیں کرنی چاہئے،حاتم طائی نے اسی حقیقت کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے: ونفسک اکرمھا فانک ان تھن علیک فلن تلقی من الناس مکرما "اپنی ذات کی خود عزت کرو، اس لئے کہ اگر تم اپنی نگاہ میں ذلیل اوربے وزن ہوجاؤ گے تو پھر دنیا میں تمہیں کوئی بھی عزت کرنے والا نہیں ملے گا" ۱۶۔داعیان دین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماحول اوراپنے زمانہ سے واقف ہوں،زمانہ کی ضروریات،مقتضیات اورخطرات پر نگاہ ہونی چاہئے،ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمانہ کے فکری اورسماجی رجحانات کیا ہیں؟کس طرح کی تحریکیں چل رہی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو کس کس طرف سے خطرات کا سامنا ہے،امن کے بغیروہ نہ تو زندگی اورمعاشرہ میں مؤثر ہوسکتے ہیں اورنہ دین کی صحیح اورمؤثر خدمت انجام دے سکتے ہیں،بقول اقبال: جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ (کاروان زندگی:۳/۲۴) ۱۷۔جوچیز بری ہے وہ قیامت تک بری رہے گی اورجو چیز اچھی ہے وہ ہر زمانہ میں اچھی رہے گی،شرم وحیاء،تہذیب واخلاق،وفاداری،معاہدہ کی پابندی،سچائی،امانت داری،عفت وعصمت ہر دور اورہر قسم کے حالات میں قابل تعریف اورضروری اوصاف واخلاق رہیں گے اوران کے برعکس اوصاف ہر جگہ اورہر زمانہ میں مذموم اورناپسند یدہ صفات سمجھے جائیں گے،خواہ عقل ان میں کسی قدر مصالح و منافع دکھا دے اوران کے جائز اوربعض اوقات فرض ہونے کا فتویٰ دے۔ (مذھب وتمدن،ص:۱۰۸) ۱۸۔ایک اعلیٰ درجہ کی بات کے لئے گفتگو کا پیرایہ بھی اعلیٰ درجہ کا ہونا چاہئے،آداب کلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے،اگر ایسا نہ ہوتو بات کا حسن ختم ہوجاتا ہے،جس طرح ایک پرشکوہ اورحسین عمارت کے لئے ضروری ہے کہ اس کا پھاٹک بھی دیدہ زیب اورعالی شاہ ہو،جس کو دیکھتے ہی عمارت کی اہمیت معلوم ہو اورآدمی اندر داخل ہونے میں سہولت اورمسرت محسوس کرے۔ (تبلیغ ودعوت کا معجزانہ اسلوب،ص:۵۰) ۱۹۔ایک داعی الی اللہ کا موقف ہمیشہ داعی ہی کا موقف رہتا ہے،خواہ وہ دشمن کو مخاطب کررہا ہو،یا عزیز ترین فرد خاندان کو،دعوت کا رنگ اس پر غالب رہے گا اور داعی کی شان اس میں جھلکتی رہے گی،خواہ صورت حال کچھ بھی ہو اور مخاطب جو بھی ہو،اس کی زبان دعوت کی زبان ہوگی،اس کے سامنے مقصد دعوت ہوگا۔ (تبلیغ دعوت کا معجزانہ اسلوب،ص:۸۲) ۲۰۔یہ عام ضمیر فروشی کادور ہے، بڑے بڑے فاضل اورصاحب قلم ہیں،جن کی ذہانت اور جن کے مطالعہ کے سامنے ہماری کوئی حیثیت نہیں،لیکن ضمیر نام کی کوئی چیز ان کے ہاں نہیں پائی جاتی،ان کے دماغ کی جگہ پر دماغ ہے اوردل کی جگہ پر بھی دماغ ہی ہے ؛بلکہ ان کے پہلو میں ایک دھٹرکتے دل کے بجائے ایک رواں دواں قلم رکھا ہوا ہے،جو سب کچھ لکھ سکتا ہے،جس کے یہاں آخرت کی جواب دہی اورضمیر کی ملامت اورسرزنش کا کوئی سوال ہی نہیں،ان میں ہر زمانہ کے ساتھ بدلنے اور اس کے مطالبوں کی ترجمانی کرنے کی غیر محدود صلاحیت موجود ہے۔ (پاجا سراغ زندگی،ص:۱۵۳) ۲۱۔حضورﷺ کے اندر صنف نازک کا جو احترام،اس کے جذبات اورلطیف احساسات کا تصور اوران کا جولحاظ تھا وہ طبقہ نسواں کے بڑے سے بڑے وکیل اورعورت کے احترام کے بڑے سے بڑے مدعی کے یہاں نہیں ملتا،اسی طرح بڑے سے بڑے مقدس لوگوں،رشیوں اوریہاں تک کہ دوسرے پیغمبروں کی زندگی میں ملنا مشکل ہے،ازواج مطہرات کی دل جوئی ان کی جائز تفریحات میں شرکت، ان کے جذبات کا خیال اوران کے درمیان آپ ﷺ عدل فرماتے تھے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ (خواتین اوردین کی خدمت،ص:۳۴) ۲۲۔پہلی چیز اخلاص ہے،آپ کسی بڑے سے بڑے بزرگ کی زندگی کا مطالعہ کریں ان کی زندگی کی تعمیر میں اخلاص کو اہم عامل پائیں گے،دوسری بات ایثار وقربانی اورعزم،یہ وہ طاقت ہے کہ اگر افراد میں ہوتی تو انہیں ثریا تک پہنچا دیتی ہے اور اگر ادارہ یا قوم کے اندر پیدا ہوجاتی ہے تو دنیا اس کے سامنے جھک جاتی ہے،تیسری بات جو ہرذاتی ہے،انسان کا جوہر ذات اوراس کی قابلیت ہی وہ چیز ہے جو ہر وقت اور ہر زمانہ میں اس کی ترقی کا واحد ذریعہ ہے اگر آپ نے ان تینوں چیزوں یعنی اخلاص،جذبہ قربانی اورجوہر ذاتی کو حاصل کرلیا تو آپ کے لئے زمانہ بالکل نہیں بدلا ہے اور ہر وقت آپ کے لئے چشم براہ ہے۔ (پاجاسراغ زندگی،ص:۲۲) ۲۳۔پہلی چیز وہ ذاتی تعلق ہے جو مجھے اپنے اساتذہ سے ہمیشہ رہا،وہ تعلق نہیں جو ضابطہ کی خانہ پری کے لئے ہو،یہ وہ چیز ہے جس نے مجھے بہت نفع پہنچایا اورمیں نے جو کچھ حاصل کیا وہ اس کا صلہ ہے،(عالم کے لئے)یہ بہت ضروری ہے کہ اس کا رجحان جس فن کی طرف ہو اس کے ماہر اور متخصص کے پاس رہ کر اس سے وہ اپنی صلاحیت کے مطابق استفادہ کرے۔ (پاجاسراغ زندگی،ص:۲۴) ۲۴۔آپ تاریخ کی شخصیتوں میں سے جس کا نام بھی لیں،اس کی زندگی کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس کی شخصیت کو بنانے اورسنوارنے میں سب سے اہم چیز اس کی ذاتی محنت،اس کی فکر ولگن ،مقصد کی دھن اوراس کی تڑپ تھی،یقیناً اللہ کی توفیق اوراساتذہ کی راہ نمائی بھی ضروری ہے۔ (پاجاسراغ زندگی،ص:۲۴) ۲۵۔انسان کو ہر وقت اس چیز کی فکر کرنی چاہئے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے،وہ آخرت کی فکر،خداکی مرضی اوراس کی خوشنودی حاصل کرنے کا شوق اورجذبہ ہے،اگر انسان کے اندر یہ چیز نہیں ہے تو خواہ وہ بڑے سے بڑا ادیب ہو،بہت بڑا مقرر وخطیب ہو یا بہت بڑا مفسر وفقیہ ہو، اس دولت سے محروم ہی رہے گا۔ (پاجاسراغ زندگی،ص:۲۴) ۲۶۔تنہا انسانی قوت سے کام نہیں ہوتا،جب انسانی طاقتوں نے ہتھیار ڈال دیئے اورانسان نے اپنے عجز کا اعتراف کرلیا ہے،تب اللہ کی طرف سے غیبی مدد ظاہر ہوئی ہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۲۶۴) ۲۷۔مدارس میں تعلیم پانے والے سادہ اورمحدود ماحول میں زندگی گزارنے والے طلبہ میں ایسے لوگ نکلتے رہتے ہیں جن میں بعض اوقات عقابی روح اور شاہین کا جگر ہوتا ہے،جن کی ذہانت وطباعی،جرأت وہمت،خود اعتمادی وخود شناسی،شخصیت کی دل آویزی ودل ربائی قوت تقریر وتحریر کے سامنے کسی بڑی سے بڑی ملکی یا بیرونی دانش گاہ کے فضلاء اور مغربی زبان کے ماہرین کا چراغ نہیں جلتا ،وہ جس میدان کی طرف رخ کرتے ہیں،اپنی ذہنی وعلمی صلاحیت اپنی قوت عمل اوراپنے امتیاز کا نقش قائم کردیتے ہیں،جس پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے: اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا (پرانے چراغ،ص:۴۰۲) ۲۸۔وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان اورتعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کے اساسات وعقائد اس کے نظام وحقائق اوررسالت محمدی پر وہ اعتماد واپس لایا جائے جس کا رشتہ اس طبقے کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ (نیاطوفان اور اس کا مقابلہ،ص:۱۲) ۲۹۔ہمارے طلبہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس زمانے میں کیا رجحانات کام کررہے ہیں اس وقت جو ایک عام ذہنی انتشار اورایک قسم کی مایوسی ملت میں پھیل رہی ہے،دین کے مستقبل کی طرف سے جو بد گمانی اور بے اعتمادی پیدا ہورہی ہے،نوجوانوں میں جدید تعلیم یافتہ طبقوں میں اورحاملین دین میں اس کو دور کرنے کے لئے بہت زیادہ تیاریوں کی ضرورت ہے بہت زیادہ کاوشوں،دل سوزیوں اوردماغ سوزیوں کی ضرورت ہے،جو ہمارے اسلاف نے کیں،تحقیق اورمطالعہ کا میدان بہت وسیع ہوچکا ہے، قدیم ذخیرے ؛بلکہ قدیم دفینے جو پہلے علماء کے خواب وخیال میں بھی نہیں آتے تھے، وہ اب عام ہوچکے ہیں (انٹر نیٹ اورکمپیوٹر کے دور میں)نشر واشاعت کے اداروں نے زمین کے جگر چاک کردیئے ہیں۔ (پاجا سراغ زندگی،ص:۸۴) ۳۰۔ہر وقت اسی کی رٹ لگائے جانااور ہر وقت اسی کا وظیفہ پڑھنا کچھ مفید نہیں کہ ہمارے اکابر ایسے تھے ہمارے اکابر ایسے تھے،کوئی ملت اورکوئی دعوت تاریخ سے نہیں چلتی تحریک سے چلتی ہے۔ (ارکان اربعہ،۳/۷۳) ۳۱۔ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ ہم اس دین کا اوراپنی اسلامیت کا دعوی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ مسلمانوں کا معاملہ کرے،وہ تمام نتائج اوروعدے ہمارے سامنے بھی موجود ہوں جن کا تذکرہ ہم نے اسلامی تاریخ میں پڑھا ہے،کیا ہم یہ بھلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ نتیجے طبعی اسباب اورصحیح مقدمات کے تحت رونما ہوئے تھے اورہوتے رہیں گے، پانی اگر واقعی پانی ہے تو سیراب کرے گا،غذا اگر حقیقی غذا ہے تو وہ ضرور قوت پہنچائے گی اور دو اواقعی دوا ہوگی تو شفا کی امید اس سے کی جائے گی،آگ کی تصویر سے ہم روشنی اور گرمی حاصل نہیں کرسکتے۔ (عالم عربی کا المیہ،ص:۱۲) ۳۲۔ایمان وہ ہے جو اپنی قوت واثر میں حقائق سے بڑھ جائے،اگرایمان زندہ جاوید اور تازہ دم ہو تو یہ پہاڑ،یہ سمندر،یہ کائنات اس کے سامنے جھکیں گے اورہزاروں سال کے آزمودہ قوانین فطرت بھی اپنے خواص سے ہٹ جائیں گے۔ (عالم عربی کا المیہ،ص:۹۱) ۳۳۔کامیابی کی صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ ہم واقعی مؤمن بن جائیں اورایمان کی آتش رفتہ سے پھر اپنی جانوں کو پرسوز کریں جو باطل کے ہرخس وخاشاک کو جلاسکتی ہے،جب ایمانی حرارت اورزندگی کے شعلہ کی بازیافت ہم کریں گے تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ (عالم عربی کا المیہ،ص:۹۲) ۳۴۔یہ غلط ہے کہ زمانے میں کوئی جگہ خالی رہتی ہے،کبھی زمانے میں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی جگہ پہلے سے خالی ہو اورکسی کے لئے منتظر ہوکہ جب وہ شخص فارغ ہولے گا تو اس کی وہ جگہ اسے مل جائے گی،زمانہ بقائے اصلح کا قائل ہے،وہ بہت ہی حساس اور نقاد ہے،وہ صالح کے بجائے اصلح اورنافع کے بجائے انفع کو ترجیح دیتا ہے۔زمانے کا شکوہ دراصل اپنی کمزوری چھپانے کی کوشش اوراحساس کمتری کی علامت ہے،دنیا نہیں بدلی ہم بدل گئےہیں، زمانہ آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔ (پاجاسراغ زندگی،ص:۱۲) ۳۵۔دنیا کا کوئی علاج نہیں،سننے والے سن لیں،یاد کرنے والے یاد کرلیں،دنیا کا علاج صرف اس میں ہے کہ رسول اللہﷺ کا دامن پکڑا جائے اورپھر وہ چراغ بھی روشن کی جائے جس سے دل کی کھوئی ہوئی چیز ملے گی،دماغ ہفت زبان ہے؛ لیکن دل ایک زبان جانتا ہے،وہ انصاف اورمحبت کی زبان ،اس سے دنیا میں بہار آئے گی اوردنیا جنت کا نمونہ بنے گی۔ (مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں،ص:۱۲۰) ۳۶۔مدرسہ سب سے بڑی کار گاہ ہے جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے، جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اورپوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،مدرسہ ایسی جگہ ہے جہاں نبوت محمدیﷺ کی ابدیت اورزندگی کا نمو اورحرکت دونوں پائے جاتے ہیں، میں مدرسہ کو ہر مرکز سےبڑھ کر مستحکم،طاقت ورزندگی کی صلاحیت رکھنے والا اورحرکت ونموسے لبریز سمجھتا ہوں، جب زندگی رواں اور دواں ہے تو مدرسہ میں جمود اور تعطل کی گنجائش کہاں ہے،اس کو قدم قدم پر زندگی کا جائزہ لینا چاہئے۔ (قافلہ ادب اسلامی،جلد ۵،شمارہ :۳،۴) ۳۷۔انسانی ترقی کا اندازہ مردم شماری کے نقشوں اوربڑے بڑے متمدن ترقی یافتہ ملکوں کی تصویروں سے کرنا صحیح نہیں، انسانیت کی ترقی ان مادی ترقیات کا نام نہیں اورمحض نسل انسانی کی ترقی کوانسانیت کی ترقی نہیں کہاجاسکتا،انسانیت کی ترقی کا اندازہ انسانوں کے اصلاح وکردار سے ہوتا ہے اوراخلاق وکردار کا اندازہ آپس میںملنےجلنے،ریل کے ڈبوں،پارکوں،ہوٹلوں،دفتروں اوربازاروں سے ہوسکتا ہے۔ (اصلاحیات،ص:۱۶۲) ۳۸۔کوئی جسم اس وقت تک تندرست وتوانا نہیں رہ سکتا جب تک اس میں نئے صاف خون کی تولید نہ ہوتی رہتی ہو،کوئی درخت اس وقت تک شاداب نہیں رہ سکتا،جب تک اس میں نئی نئی پتیاں اورکونپلیں نہ نکلتی رہتی ہوں،امت مسلمہ بھی اب جسم ہے جس کو ہر دور میں نئے خون کی ضرورت ہے اس درخت کو بھی ہر موسم میں ہری بھری شاخوں اورنئی نئی پتیوں کی ضرورت ہے۔ (اصلاحیات،ص:۴۴) ۳۹۔موجودہ اخلاقی کمزوریاں اورسماجی خرابیاں اس وقت تک دور نہیں ہوسکتیں جب تک کہ قوم میں اندرونی تبدیلی پیدا نہ ہو،جب تک اندرونی تبدیلی پیدا نہ ہوگی،زندگی اوراخلاق اورملک کے عام حالات میں کوئی دھار نہیں ہوگا اور اس وقت تک لوگوں کو ان مصیبتوں سے نجات نہیں مل سکتی جو بد اخلاقیوں اورسماجی کمزوریوں کی پیدا وارہیں۔ (اصلاحیات،ص:۱۰۲) ۴۰۔اندرونی تبدیلی کے لئے دنیا کی پوری تاریخ میں "ایمان" سے بڑھ کر کسی طاقت اورتربیت کا تجربہ نہیں ہوا ہے،جب تک عوام میں خدا کا یقین اوراس کا خوف اورخدائی پوچھ گچھ کا کھٹکا پیدا نہ ہوگا اخلاق اورآدمیت کا سراہاتھ نہیں آئے گا۔ (اصلاحیات،ص:۱۰۴) ۴۱۔مغربی تہذیب کے اس عروج کے زمانے میں ہر قوم میں بڑی تعداد میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جس کی دنیاوی مشغولیت وانہماک یا دنیا کی محبت وحرص نے ان کی زندگی میں مذہب کے لئے کوئی خانہ نہیں چھوڑا، بڑی تلاش وجستجو کے بعد بھی مذہب کی دعوت دینے والے ان کے دل و دماغ میں کوئی ایسا چھوٹے سے چھوٹامنفذ نہیں پاتے جس سے دینی اور اخلاقی دعوت ان میں نفوذ کرسکے،جس طرح کسی شخص کو موسیقی کے لئے کان اور شاعری کے لئے ذوق لطیف نہ ملا ہو تو اس کے لئے موسیقی کے سارے کمالات اوردنیا کی پوری وجد آفریں شاعری بے اثر و بے سود ہے،اسی طرح جو مذہبی حاسہ سے محروم ہوچکا ہو اس کے لئے پیغمبروں کی پوری دعوت،ناصحوں کا وعظ تلقین،علم و حکمت،قصص وامثال سب ضائع ہیں، یہ دلوں کی زمین کا سب سے بنجر حصہ ہے جس کو کوئی بارش سیراب نہیں کرسکتی۔ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر،ص:۳۳۹) ۴۲۔عصر حاضر کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی پیدا کی جائے،ان میں ماضی پر اعتماد ،مستقبل کے بارے میں امید اور حوصلہ پیدا ہو، اس دین پر ان کا ایمان ویقین تازہ اورزندہ ہوجائے جس کا نام تو وہ لیتے ہیں لیکن اس کی حقیقت سے نا آشنا ہیں،ان کا تعلق اس دین سے زیادہ تر نسلی اور موروثی ہے اورانہوں نے اس کو بہت کم سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر،ص:۲۳) ۴۳۔جاہلیت اپنے مزاج اور روح کے اعتبار سے ایک ہی ہے، جاہلیت کسی محدود زمانےکے کسی خاص وقفہ کا نام نہیں؛بلکہ عقل وفکر کی ایک خاص اور متعین ساخت کا نام ہے،وہ فکری ساخت اس وقت ابھرتی ہے جب کہ انسانی زندگی کی وہ حدود اوروہ معیار باقی نہیں رہتے جو خدانے مقرر کئے ہیں اور ان کی جگہ بنائے ہوئے وہ مصنوعی معیار آجاتے ہیں،جن کی بنیاد وقتی خواہشات پر ہوتی ہے،جس کو آج دنیا اپنے ارتقائی دور میں اس طرح جھیل رہی ہے جس طرح اپنے بربریت اورجہالت کے ابتدائی زمانہ میں جھیل رہی تھی۔ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر،ص:۲۸) ۴۴۔حالات میں کوئی بڑی تبدیلی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ دنیا کی قیادت مادہ پرست اورناخدا ترس انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر ان خدا شناس اورخدا ترس انسانوں کے ہاتھ میں نہ پہنچ جائے جو پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اورانہیں کی ہدایات اورتعلیمات سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر،ص:۱۳)