انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مروان بن محمد بن مروان بن حکم مروان بن محمد خاندانِ بنواُمیہ کا آخری خلیفہ ہے اس کولوگ مروان الحمار بھی کہتے تھے، حمار ملکِ عرب میں صابر ہونے کی وجہ سے مشہور ہے، صعوبت کش آدمی کوحمار کہہ دیا جاتا تھا اس لیے اس خلیفہ کوبھی حمار کہنے لگے؛ کیونکہ اس کی خلافت کا تمام زمانہ لڑائیوں میں بسر ہوا اور اس نے نہایت صعوبت کش اور صابر ہونے کا ثبوت بہم پہونچایا، مروان بن محمد نے بجائے دمشق کے مقام حران میں اقامت اختیار کی، تدمر سے ابراہیم (معزول خلیفہ) کواپنے پاس بلالیا اور اس کا وظیفہ مقرر کردیا۔ یکم شوال کومروان کے پاس خبر پہنچی کہ اہلِ حمص بغاوت وسرکشی کی پوری تیاری کرکے خروج پرآمادہ ہیں اور اطراف وجوانب سے عرب قبائل ان کے پاس پہنچ گئے ہیں، مروان اس خبر کے سنتے ہی فوراً فوج لے کر ۳۰/شوال کوحمص کے قریب پہنچے، دیکھا کہ اہلِ حمص نے شہر کے دروازے بند کرلیے ہیں، مروان کے منادی نے پکار کرکہا کہ تم لوگوں نے امیرالمؤمنین کی بیعت کیوں توڑی ہے؟ شہروالوں نے جواب دیا کہ ہم نے بیعت نہیں توڑی؛ بلکہ ہم مطیع وفرماں بردار اور اپنی بیعت پرقائم ہیں؛ چنانچہ انھوں نے شہر کے دروازے کھول دیے اور مروان کے ہمراہی شہر میں داخل ہوئے تواہلِ شہر اور مخالفین نے مقابلہ کیا، یہ حالت دیکھ کرمروان شہر کے دروزے پرچڑھ گیا اور مخالفین کا مقابلہ کرکے اُن کوشکست دی، شہر پناہ تین سوگز کے قریب ڈھاکرزمین کے برابر کردی اور اہلِ شہر سے اپنی بیعت لی، ابھی مروان حمص ہی میں تھا کہ خبر پہنچی کہ اہلِ غوطہ نے یزید بن خالد قسری کواپنا سردار بناکر دمشق پرحملہ کیا اور والئی دمشق کومحصور کرلیا، مروان نے والئی دمشق کی امداد کے لیے حمص سے دس ہزار فوج روانہ کی، اس فوج نے پہنچ کرباہر سے اور اہلِ دمشق نے اندر سے مقابلہ کیا، اہلِ غوطہ کوشکست ہوئی، یزید بن خالد مارا گیا، اس کا سرکاٹ کرموان کے پاس بھیج دیا گیا، اس فتنہ کے فروہوتے ہی ثابت بن نعیم نے اہلِ فلسطین کومجتمع کرکے طبریہ کا محاصرہ کیا، طبریہ میں اس وقت ولید بن معاویہ بن مروان بن حکم والی تھا، مروان بن محمد نے یہ خبر سن کر ابورد اپنے فوجی سردار کواس طرف بغاوت فروکرنے کے لیے روانہ کیا، ابوالورد کے پہنچتے ہی اہلِ طبریہ نے شہر سے نکل کرمحاصرین کا مقابلہ کیا، اہلِ فلسطین نے شکستِ فاش کھائی اور ثابت بن نعیم کے تین لڑکے ابوالورد نے گرفتار کرکے مروان کے پاس بھیج دیے، مروان نے فلسطین کی حکومت پررماحسن بن عبدالعزیز کنانی کومامور کیا اس نے تلاش کرکے ثابت بن نعیم کوگرفتار کیا اور مروان کے پاس بھیج دیا، مروان نے اس کے اور اس کے تینوں لڑکوں کے ہاتھ پاؤں کٹواکرصلیب پرچڑھادیا۔ ان واقعات سے فارغ ہوکر مروان بن محمد نے دیرایوب میں اپنے لڑکوں عبداللہ وعبیداللہ کی ولی عہدی کی بیعت لی اور ہشام کی لڑکیوں سے ان کا عقد کردیا، اس کے بعد مروان نے تدمر کی جانب فوج کشی کی؛ کیونکہ اہلِ تدمر ابھی تک خود مختاری پرقائم تھے، اہلِ تدمر کوبیعت اور اطاعت کرنی پڑی، اس کے بعد مروان نے یزید بن ہبیرہ کواعراق کی جانب روانہ کیا کہ وہ ضحاک شیبانی خارجی کوجوکوفہ پرمسلط ہوگیا تھا، خارج کرنے اور امدادی فوجیں عقب سے بھیجتے رہنے کا انتظام کرنے کے لیے خود قرقیا میں آٹھہرا، اس سے پیشتر سلیمان بن ہشام آرام کرنے کے لیے رصافہ میں ٹھہرگیا تھا، اہلِ شام کا ایک گروہ کثیر جس کومروان نے یزید بن عمر بن ہبیرہ کے ساتھ عراق کی جانب روانہ کیا تھا، اس سے جدا ہوکر رصافہ میں سلیمان بن ہشام کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ خلافت قبول کرلیں، سلیمان نے اس بات کومنظور کرلیا اور ان لوگوں کوہمراہ لیے ہوئے قنسرین کی جانب روانہ ہوا، قنسرین پہنچ کرسلیمان نے اہلِ شام کوخطوط لکھے، جن کا اثر یہ ہوا کہ اہلِ شام ہرطرف سے سلیمان بن ہشام کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک زبردست فوج سلیمان کے پاس جمع ہوگئی، مروان نے یہ خبر سنی تویزید بن عمر بن ہبیرہ کوقیام کردینے کا فرمان بھیجا اور خود قرقیا سے سلیمان کی طرف چلا، قنسرین کے باہر مقام حناف میں مروان وسلیمان کی صف آرائی ہوئی اور سلیمان کومروان نے شکست دے کربھگادیا، سلیمان کے ہمراہیوں کوجوگرفتار ہوئے قتل کیا، سلیمان بن ہشام کا لڑکا اور ہشام بن عبدالملک کا ماموں خالد بن ہشام مخزومی میدانِ جنگ میں قتل ہوئے، سلیمان بھاگ کرحمص پہنچا اور دوبارہ لشکر مرتب کرکے شہر پناہ کودرست کرایا، مروان یہ سن کرحمص پہنچا، نہایت خوں ریز جنگ ہوئی پھرمروان نے حمص کا محاصرہ کرلیا، قریباً دس مہینے حمص کا محاصرہ جاری رہا، اسی منجنیقیں برابر مصروفِ سنگ باری تھیں، مجبور ہوکر اہلِ حمص نے امان طلب کی اور سلیمان تدمر کی طرف چلا گیا، یہاں سے فارغ ہوکر مروان کوفہ کی طرف ضحاک خارجی سے جنگ کرنے کوروانہ ہوا۔ یزید بن عمر بن ہبیرہ نے کوفہ کی طرف برھ کرضحاک خارجی کے لشکر کوشکست دی، ضحاک نے دوبارہ لشکر مرتب کیا، یزید بن عمر نے دوبارہ اس کوشکست دی اور کوفہ میں داخل ہوا، خارجیوں نے کئی مرتبہ خروج کیا؛ مگرہرمرتبہ ان کوشکست حاصل ہوئی، یزید بن عمر بن ہبیرہ نے عراق پرقابض ومتصرف ہوکر اپنی طرف سے نصر بن سیار کوخراسان کی گورنری پرقائم رکھا، اس نے مروان بن محمد کی بیعت کرلی۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ خراسان میں حرث بن شریح موجود تھا اور اس کے گروہ میں دن بہ دن اضافہ ہورہا تھا، حرث بن شریح کویہ بھی خیال ہوا کہ مجھ کویزید بن ولید نے امان دی تھی، یزید بن عمر بن ہبیرہ موجودہ گورنر کوفہ نے امان نہیں دی، لہٰذا حرث بن شریح نے مخالفت کا اعتلان کیا، نصر بن سیار نے اس کوبہت سمجھایا؛ لیکن وہ نہ مانا؛ بالآخر نوبت لڑائی تک پہنچی، خاص شہر مرو کی گکلیوں میں جنگ وپیکار کے شعلے بلند ہوئے ادھرکرمانی بھی کرمان میں کافی قوت حاصل کرچکا تھا، نصر بن سیار نے کرمانی کوبلوایا؛ لیکن اس کا بھی دل صاف نہ ہوا اور علانیہ مخالفت پرآمادہ ہوگیا، غرض مرو میں کرمانی، حرث، نصرتین شخص جمع ہوگئے تینوں کی طاقت مساوی تھی اور تینوں اپنے الگ الگ مقاصد واغراض رکھتے تھے کوئی کسی کا ہمدرد وشریک نہ تھا، آخر حرث وکرمانی دونوں نے متفق ہوکرنصربن سیار کوہزیمت دے کرمرو سے نکال دیا اور چند روز کے بعد دونوں آپس میں لڑے اس لڑائی میں حرث بن شریح مارا گیا اور کرمانی مروپرقابض ومتصرف ہوا۔ یہ سنہ۱۲۸ھ کا واقعہ ہے جب حرث بن شریح مارا گیا تونصر نے اپنی جمعیت فراہم کرکے کرمانی کے مقابلے پریکے بعد دیگرے فوجیں بھیجنی شروع کیں، لڑائیاں ہوئیں اور قریباً ہرایک معرکہ میں نصر کے سرداروں کوکرمانی کے مقابلے میں شکست ہوئی، آخر نصر بن سیار خود بڑی جمعیت لے کرمرو پرپہنچا، طرفین سے مورچے قائم ہوئے اور لڑائیاوں کا سلسلہ جاری ہوا، یہ لڑائیاں ابھی جاری تھیں اور کوئی فریق غالب یامغلوب نہ ہونے پایا تھا کہ مسلم خراسانی نے جس کا بیان مفصل آگے آتا ہے، اس موقع کوبہت غنیمت سمجھا اور اپنی جمعیت کوفراہم کرکے ادھر نصر سے خط وکتابت جاری کی اور ادھر کرمانی سے، نصر کولکھا کہ امام ابراہیم نے تمہارے متعلق کچھ مجھ کوہدایات بھیجی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان سے تم کوفائدہ پہنچے گا اسی مضمون کا خط کرمانی کولکھا کہ میں تمہارا ہمدرد ہوں اور امام ابراہیم نے تمہارے متعلق مجھ کولکھا ہے کہ ضرورت کے وقت تمہاری مدد کروں، یہ خطوط جن قاصدوں کے ہاتھ روانہ کرتا ان کوہدایت کرتا کہ جوقبائل نصر کے ہمدرد ہیں راستے میں ان کونصر کے نام کا خط دکھاتے ہوئے جائیں اور جوقبائل کرمانی کہ ہمدرد ہیں اُن کوکرمانی کے نام کا خط دکھاتے ہوئے جائیں، منشا اس سے یہ تھا کہ تمام قبائل کی ہمدردی حاصل ہوجائے اسی طرح اس نے خارجیوں کی ہمدردی وحمایت بھی مناسب تدبیروں سے حاصل کرلی، آخرابومسلم خراسانی اپنی جمعیت لے کر، کرمانی اور نصربن سیار کے مورچوں کے درمیان آکرخیمہ زن ہوا، فریقین یہ اندازہ نہ کرسکے کہ یہ کس کی حمایت کرے گا اوور کس کی مخالفت، اگلے روز ابومسلم نے کرمانی کوکہلا بھجوایا کہ میں تمہاری طرف سےنصر کا مقابلہ کروں گا، کرمانی یہ سن کرخوش ہوا، نصر نے اس خبر سے مطلع ہوکر، کرمانی کولکھ بھیجا کہ ابومسلم چالاکی سے تم کونقصان پہنچانا چاہتا ہے تم اس کے فریب میں نہ آنا، اس کے مقابلہ میں ہم کواپنی مخالفت فراموش کردینی چاہیے۔ کرمانی نے نصر کی رائے کوپسند کیا اور اگلے روز دونوں میں ملاقات کی تجویز منظور ہوئی، کرمانی دوسوآدمی لے کرنصر بن سیار کی ملاقات کے لیے نکلا، نصر کے آدمیوں نے موقع پاکر کرمانی اور اس کے ہمراہیوں کوقتل کردیا، کرمانی کا بیٹا علی بھاگ کرابومسلم کے پاس آیا، کرمانی کی فوج اور ابومسلم کی جمعیت نے ملکرابومسلم اور علی بن کرمانی کی سرداری میں نصر بن سیار پرحملہ کیا، نصر بن سیار کوشکست ہوئی اور وہ بھاگ کرکسی معمولی شخص کے مکان میں چھپا اور ابومسلم وعلی نے مروپرقبضہ کیا، علی بن کرمانی نے ابومسلم کے ہاتھ پربیعت کرنی چاہی؛ لیکن ابومسلم نے کہا تم ابھی اسی حالت میں رہو امام کا حکم آنے پرجومناسب ہوگا کیا جائے گا، نصربن سیار نے مرو سے نکل کرپھراپنے گردلوگوں کوجمع کرنا شروع کیا اور ابومسلم نے خارجیوں کے سردار شیبان خارجی کوبھی اپنے ساتھ شامل کرلیا؛ کیونکہ نصر بن سیار خارجیوں کا دشمن تھا، علی بن کرمانی اس لیے ابومسلم کا شریک تھا کہ وہ نصر بن سیار سے اپنے باپ کے خون کا انتقام لینا چاہتا تھا، نصر بن سیار نے خارجیوں کے سردار کویہ پیغام بھیج کرجدا کرنا چاہا کہ ابومسلم شیعہ علی رضی اللہ عنہ ہے؛ غرض کبھی خارجی ابومسلم سے جدا ہوئے کبھی ابن کرمانی الگ ہوگیا، یہ چاروں گروہ یعنی ابومسلم، شیبان خارجی، ابن کرمانی، نصر بن سیار تمام ملک خراسان میں ادھر ادھر پھررہے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف اتفاق ومخالفت جلد جلد قائم ہوہوکر ٹوٹ جاتی تھی ان چاروں میں نصر بن سیار اور ابومسلم خراسانی بہت ہوشیار اور مال اندیش تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ ابومسلم خراسانی نے یکے بعد دیگرے مناسب موقع پاکر شیبان خارجی اور ابن کرمانی کوسنہ۱۳۰ھ میں قتل کرادیا اور سنہ۱۳۱ھ میں رے کے متصل نصر بن سیار خود بیمار ہوکر مرگیا اور ملکِ خراسان میں ابومسلم کا کوئی رقیب باق نہ رہا۔